خودکش حملہ
اب کمال یہ ہے کہ امتحانی مراکز میں موبائل لے جانا عام بات ہے
پاکستان میں دو کروڑ 26 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ ان کی عمریں پانچ سے سولہ سال تک ہیں۔ اس سلسلے میں وزارت تعلیم نے سر جوڑ کر فیصلہ کیا کہ جو بچے اسکول سے باہر ہیں ان کو دیگر بچوں کے ساتھ تعلیم دلانے، شرح خواندگی اور غیر رسمی تعلیمی اداروں میں اضافے کے ساتھ ساتھ مرحلہ وار غیر تدریسی پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں غیر رسمی مضامین کی نصاب سازی اور اے۔ ایل۔بی نامی پروگرام شروع کردیا گیا ہے جس کا مقصد ملک میں موجود تمام بچوں کو یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنا اور ان کی بہتر تدریس کے لیے نصاب سازی کو بہترکرنا ہے۔ پروگرام کے کامیاب اجرا کے لیے حکومت کو دیگر اداروں کی معاونت حاصل ہے۔ یہ ہے تصویرکا ایک رخ۔ آئیے ماضی میں چلتے ہیں۔
قیام پاکستان کے چند سال بعد اگر کسی کو سندھ یونیورسٹی سے میٹرک پاس کرنا مشکل لگتا تھا تو وہ پنجاب چلے جاتے تھے۔ (اس زمانے میں میٹرک کا امتحان سندھ یونیورسٹی لیا کرتی تھی اور 1959-60 کے آخری سیشن میں ہم نے بھی سندھ یونیورسٹی سے میٹرک پاس کیا تھا۔ سیکنڈ ڈویژن میں اور یونیورسٹی کے سیکنڈ ڈویژن کو بھی بہت اچھا سمجھا جاتا تھا)
پنجاب میں بہت آسانیاں تھیں اور بہت آسانی سے لوگ میٹرک وہاں سے پاس کر کے سندھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا کرتے تھے ۔ یہ ایک حقیقت ہے اور بہت سے لوگ اس کے گواہ اب تک حیات ہوں گے۔ سندھ یونیورسٹی اور ملحقہ اسکولوں کا معیار بہت بلند تھا اور سرکاری اسکول پہلی ترجیح۔
اب آج کے دور میں واپس آجائیں تو تصویر ویسی ہی ہے ، حالات کی جگہیں بدل گئیں ، اب سندھ میں تمام تر آسانیاں ہیں اور یہ ہم نہیں کہہ رہے، اخبارکی خبر ہے۔ انٹر کے امتحانات میں نقل نہ رک سکی۔ 115 امیدوار پکڑے گئے۔ امتحانی عملہ بھی طلبا کی معاونت کرنے لگا۔ بورڈ حکام سر جوڑ کر بیٹھ گئے، ہر مرکز کا پرچہ کوڈ نمبر کے ساتھ شایع کیا جانے لگا۔ گیارہویں جماعت کا کیمسٹری کا پرچہ حیدرآباد اور ٹنڈو الٰہ یار کے 2 مراکز سے قبل ازوقت جاری ہونے پر انٹرنل سے جواب طلب۔ حیدرآباد کا غلام حسین ہدایت اللہ اسکول اور ٹنڈو الٰہ یار کا گورنمنٹ ایس ایم کالج کے باہر آگیا اور کوڈ کی وجہ سے ان کی شناخت ہوگئی۔
تفصیل اس کی بہت ہے اور افسوسناک ہے۔ اس سے پہلے میٹرک کے امتحان میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے اور اس کی بھی تفصیلات اس سے کچھ الگ نہیں۔ ایک روز پیشتر ایک سینٹر میں غالباً شکارپور تھا شہر، ایک پولیس کانسٹیبل یونیفارم میں اپنے بیٹے کا یا کسی اور کا پرچہ حل کرنے پہنچ گیا تھا جسے میڈیا نے ٹی وی پر دکھایا تھا۔
ایک زمانہ تھا کہ اسکیل پر فارمولے لکھ کر لے جانے والے بھی اسکیل کے ساتھ پکڑے جاتے تھے اور انھیں کئی سال تک امتحان سے باہر رکھا جاتا یا مکمل طور پر تعلیم اس ادارے سے حاصل کرنے سے روک دیا جاتا تھا اس وقت وہ لوگ نقل مکانی کرکے پنجاب چلے جاتے تھے اور وہاں سے تعلیم حاصل کرتے تھے۔
اب ایسی کسی بات کو محض لطیفہ ہی سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ اب نقل واٹس ایپ پر ہوتی ہے اور موبائل سامنے رکھ کر ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں امتحانی عملہ سفارش، حکم، یا جیب گرم کرنے کے عوض اپنے ضمیر کو عین امتحان کے کمرے میں فروخت کردیتا ہے۔
کوئی پندرہ بیس سال پہلے جب میں ریڈیو پروگرام منیجر تھا ایک نئے بیج کے اکثر پروڈیوسرز تعلیمی لیاقت کے سرٹیفکیٹ تو اول درجے کے رکھتے تھے مگر حالت تعلیمی نچلے درجے سے بھی کم تھی، ایک صاحب اکثر غائب رہا کرتے تھے ان کے خلاف مجھے کارروائی کا کہا گیا مگر اس حد تک کہ اس پریکٹس کو ختم کرادیا جائے یہاں کچھ ایسی وجوہات ہیں جو بیان کرنا مناسب نہیں کہ اس قدر ہلکا ہاتھ کیوں رکھا گیا؟
خیر! میں نے ان سے کہا کہ آپ درخواست دیں، سوری کریں اور اس تمام عرصے کو اپنی چھٹی میں تبدیل کرنے کی درخواست کریں۔ دو دن تک جواب نہ آنے پر جب پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ انھیں انگریزی نہیں آتی۔ تو ان سے کہا گیا کہ اپنی مادری زبان میں درخواست لکھ دیں، تو معلوم ہوا کہ مضمون بنانا نہیں آتا۔
وہ صاحب کچھ ہی عرصے بعد ایک اور اعلیٰ امتحان میں پاس ہوکر سندھ سیکریٹریٹ میں تعینات ہوگئے اور ریڈیو چھوڑ گئے۔ اب بھی ایسے لوگ ہیں ، مگر ہر ایک کے پاس چھوڑنے کا آپشن نہیں ہے۔ نہ وہ کسی گدی نشین خاندان سے تعلق رکھتے ہیں نہ سیاسی جماعت میں سربراہ ان کا رشتہ دار ہے۔
یہ تو آپ کو بتایا ہے کہ کب سے یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ کب؟ بھی ہم نے کم بتایا ہے مزید پندرہ سال جوڑیں تو شاید وہاں تک پہنچ جائیں 70 کے لگ بھگ۔
اب کمال یہ ہے کہ امتحانی مراکز میں موبائل لے جانا عام بات ہے، پہلے کی طرح کان سے بھی نہیں لگانا پڑتا نہ ہیڈ فون استعمال کرنا پڑتا ہے۔ واٹس ایپ ہے نا، پرچہ بھیجو اور حل منگوالو، اور خبر کے مطابق تو پرچہ پہلے ہی آؤٹ ہوتا ہے۔ بس ریسیو کرنا ہوتا ہے اور ''چھاپنا'' نقل کرنے والوں نے اسے یہ نام دیا ہے۔
کہاں کہاں یہ ہو رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ کہاں نہیں ہو رہا۔ سندھ کی حد تک تو یہ بات خود وزیر اعلیٰ سندھ نے چھ مئی کو ایک کانفرنس میں کی جو میڈیا سے متعلق تھی آپ نے کہا کہ ''یہ کوئی آج سے تو نہیں ہو رہا، بہت پہلے سے ہو رہا ہے۔ ہوتا رہا ہے۔ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پانچ دن بعد امتحان ختم اور بات ختم۔''
یہ ردعمل ہے وزیر اعلیٰ سندھ کا، سندھ کے وزیر تعلیم دور کی کوڑی لائے کہ ''انڈیا کی سمز استعمال ہو رہی ہیں تو ہم کیا کریں اداروں کو مطلع کردیا ہے۔'' گویا پاکستان کی سم سے نقل کرنا منع ہے۔ انڈیا کی سم سے کرسکتے ہیں۔ مہتاب ڈھر کی ٹی وی پر یہ بات دیکھ کر سن کر بہت افسوس ہوا۔ اگر یہ قوم کی مدد ہے تو بہت بری مدد ہے کہ آپ جاہلوں کو افسر بنا رہے ہیں اور قابل طلبا کا حق مار رہے ہیں۔ جہاں بھی جو بھی لوگ رہتے ہیں چاہے وہ کوئی زبان بولتے ہوں، کسی نسل سے ہوں، عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں وہ وہاں کی قوم ہیں اور آپ کا یہ عمل اس قوم کے قابل افراد کے ساتھ ناانصافی اور ظلم ہے۔ اور اس پر خدا آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گا مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ خدا کے وجود پر یقین بھی رکھتے ہیں یا نہیں اس سوال کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں۔
خودکش حملوں سے بچاؤ کے لیے گیٹ بنائے جاتے ہیں ''واک گیٹ'' تاکہ وہاں سے تمام لوگ تلاشی کے عمل سے گزر کر دوسری طرف جائیں اور اطمینان رہے کہ اندر جانے والوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ آرام سے رہ سکیں، خانہ تلاشی، جامہ تلاشی اس لیے ہوتی ہے کہ مجرم کو پکڑا جا سکے یا اسے روکا جاسکے کہ وہ واردات نہ کرسکے۔ مگر ایک اسکول میں تو خاص طور پر نقل کے لیے ایک کمرہ مخصوص کردیا گیا کہ سب لوگ آرام سے نقل کرسکیں۔ موبائل نہیں روکے جاتے، کتابیں نہیں روکی جاتیں امتحان حال میں۔
قوم کے مستقبل پر یہ خودکش حملہ قوم کے نونہالوں سے کروایا جا رہا ہے اور اس کی نگرانی تمام لوگ کر رہے ہیں، یہ کیا ہے؟ شاید یہ وسان صاحب کے خوابوں کی تعبیر ہے، انھیں تو آپ جانتے ہی ہیں۔