اعتراض کچھ جچتا نہیں
پھر کچھ حق کے بے مہار متوالے بھی آئے کہ جو ارزاں قیمت پر حاکم وقت کے ہاتھوں عوام کی خواری کا سبب تھے۔
عوام بے حال جب کہ اقتدار کی کمان کے ہرکارے حکمران اوران کے اتحادی خوش حال... یہ ہے ہمارے سماج کا وہ چلن جو بدلنے کا نام ہی نہیں لیتا...اورکیونکر بدلے کہ ہم عوام اسے بدلنا ہی نہیں چاہتے۔اب عوام کے ہاتھ طعنہ اور شکوے ہی رہ گئے ہیں...جو اب وہ بھی بوسیدہ ہو کرگل سڑنے کی نوبت پر آچکے ہیں۔ ہمارے عوام طے کر چکے ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کی سیاسی سوچ اور تربیت کو نہیں اپنائیں گے۔اس میں اگر ہمارے سیاست اور اقتدار کے ٹھیکے داروں نے قسم کھا لی ہے کہ وہ بھی عوام کو ہرقسم کے سچ اور حق سے دور رکھیں گے تو اس میں برا منانے کی کیا بات ہے۔
سیاست ہی کیا ہمارا تو سارا نظام چل سو چل کی طرح منہ بسورے نادار کی طرح کھڑا ہے۔اب اس میں کبھی زرد پتوں کی بہار آتی ہے تو کبھی حق پرستی کے نام پر دھوکہ کھایا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ بلی بھی تھیلے سے نکلنے میں شرم و حیا کی لاج رکھا کرتی تھی۔۔مگر ہم معاشرے کو ایسے غیر سیاسی اور غیر سنجیدہ چلن پر چلا رہے ہیں کہ بلی بھی تھیلے میں زیادہ دیر رہنے کے لیے تیار نہیں اور پھر ہوا یوں کہ بلی کے ساتھ قادری صاحب کی بے چین روح بھی تھیلے میں زیادہ دیر قیام نہ کر سکی اوربقول قادری صاحب اب وہ بھی بدعنوان سیاست کا حصہ بننے پرآمادہ ہو گئے ہیں۔مگر اس دم سب محو حیرت رہ گئے جب دسمبر کی سرمئی شام اور وقت کی ناقدری کے اعلیٰ نشان نے منبر و محراب کو تھاما ۔تو عوام بے سمجھے اور خستہ حال جاں بلب کی طرح عزم پاکستان کی ایسی زنجیر بنے کہ دل باغ باغ ہو گیا۔
پھر کچھ حق کے بے مہار متوالے بھی آئے کہ جو ارزاں قیمت پر حاکم وقت کے ہاتھوں عوام کی خواری کا سبب تھے۔ مگر بھلا ہو زرد بہار اورگلستان کے مالی کا کہ وہ بھی قیمت بڑھانے پر تل گیا ۔سیاست کے خار زار بتاتے ہیں کہ اس میں کچی گولیاں کھیلنے والوں کو ہمیشہ پٹخنی ملی ہے۔ان تمام سے واقفیت رکھنے کے لیے اگر مغرب کی یاترا کرنا پڑے تو اس میں حرج ہی کیا ہے ۔اب نصیب دشمناں اگر قادری صاحب نے این جی اوز کے بت خانے میں اپنے درس کے بت گاڑ دیے ہیںاور ان کے مریدان خاص و عام کی تعداد بڑھ گئی ہے تو اس پر بے جا اعتراض کیوں۔اگر اعتراضات کی کہانی کا رونا رو بھی لی جائے تو بھلا کس کس قسم کی این جی اوز سے جان چھوٹے گی ۔یہاں کے باوا آدم کے اپنے طور اور طریقے ہیں ۔
دین سے لے کر دنیا کی ہر چیز این جی اوز کے پردے میں عوامی فلاح کی چادر اوڑھے ہے ،کہیں مدرسے کی بنیاد این جی اوز پر ہے تو کہیں خدمت خلق کا کام این جی اوز کے بے مہار ملنے والے فنڈز پر ہو رہا ہے ۔اب ملکی سیاست میں کہاں کے نظریات اور کہاں کے اصول ۔ہمارے ہاں تبدیلی اور انقلاب کے پردے میں لپٹی ہوئی سیاسی جماعتیں بھی خود کو نظریات اور اصول کی باندی بتاتے نہیں تھکتیں۔اور اگر آپ ان سیاسی مفکروں سے کہیں غلطی سے پوچھ بیٹھیں کہ آپ کے کیا نظریات ہیں تو... پھر ان سیاسی اکابرین کی نظریں آپ سے تو نہ مل پائیں گی ،البتہ وہ اپنی چرب زبانی کے ذریعے کسی نیوز چینل کے اینکر کی پسندیدہ شخصیت ضرور قرار پائیں گے ،گویا چرب زبانی ہی ان کا نظریہ اور وہ ہتھیار ٹھہرتا ہے جس میں وہ نہایت ہوشیاری سے جھوٹ اور نظریے کو دفن کرنے والی تمام ترکوششیں کر ڈالتے ہیں اور پھر ہر ٹی وی اینکر اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کی تگ و دو میں جت جاتا ہے۔
جب کہ صحافت سیاسی جماعتوں کی باندی کا کردار ادا کرنے پر مجبور کر دی جاتی ہے اورصحافتی اداروں کے سورما کارپوریٹ انڈسٹری بنانے میں مگن ہو جاتے ہیں۔قیام پاکستان کے ابتدا میں سیکیورٹی اسٹیٹ اور سوشلسٹ طرز فکرکی عوامی جدوجہد کی جنگ نظریاتی بنیادوں پر چھڑی تھی ۔ سوشلسٹ فکر کے داعی چاہتے تھے کہ ملک میں عوام کی محنت کا استحصال کرنے والی قوتوں سے عوامی جدوجہد ہی جان چھڑوا سکتی ہے۔جس میں اقتدار کے سنگھاسن پر موجود اعلی طبقات سے جان چھڑائے بغیر کسی طور عوام کی فلاح اور جمہوری حقوق ممکن نہیں۔جب کہ اقتداری یا سیکیورٹی اسٹیٹ قوتوں کا نکتہ نظر تھا کہ اعلی طبقات ہی حکومت کرنے کے نہ صرف مجاز ہیں بلکہ وہی اقتدار کی باریکیوں کو بہتر طور سے سمجھنے کے اہل ہیں۔
اس سیاسی اور نظریاتی جنگ میں سوشلسٹ طرز فکر عوام کی شمولیت کی قائل جب کہ اقتداری سیاست کے جغادری کسی قیمت پر عوام کو اقتدار دینے پر راضی نہ تھے۔جب یہ جنگ عوام کی صفوں میں اپنے پر پھیلانے لگی تو امریکی اور مغربی فنڈز سے این جی اوز کا وجود کیا گیا ۔جب کہ دوسری جانب جاگیردار ،مذہبی طبقہ اور عسکری قیادت کا گٹھ جوڑ بنا کر ملک کو جمہوری سے اسلامی کیا گیا جو ہنوز جاری ہے۔ملکی سیاست کی تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول میں عوام کی طاقت کو بھول کر ۔اب مذہبی عسکری قیادت کی طاقت کے ساتھ مغرب اور امریکا کی تائب نظر آتی ہیں۔اب ہر سیاسی جماعت کا مرکز و مقصد اقتدار کے سنگھاسن پر اپنا جھنڈا گاڑنے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
قوم پرستی کے نعروں میں لپٹی ہوئی جماعتوں سے لے کر حق کی علمبردار جماعتیں تک اقتدار کی شراکت میں صرف اور صرف اپنا حصہ لینے پر مصر ہیں۔عوام کو جاگیرداروں اور سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارے کے پر فریب نعروں سے بہلانے والی جماعتیں بھی اب اپنے طرز میں اعلی طبقات میں شامل ہیں یا پھر انھیں اعلی طبقات تک رسائی کے لیے جاگیردار وں کے رویے اپنانے پر فخر ہے ۔مینڈیٹ اور جمہوری ووٹوں کے ذریعے تبدیلی کا نعرہ بھی اپنی افادیت محض اس وجہ سے گنوا بیٹھا کہ عوامی مینڈیٹ کا سہارا لے کر عوامی حمایت کی دعویدار جماعتیں بھی کارکنان کے خطاب تک سمٹ چکی ہیں۔ہمارے ہی ملک میں مینڈیٹ کی دہائی دینے والوں کے اقتدار میں ہزاروں افراد دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔مگر مجال کہ مینڈیٹ کی داعی سیاسی جماعتیں ذمے داری قبول کریں۔اگر ان سے پوچھ لیا جائے کہ جناب کی سیاست کے کیا نظریات ہیں تو سب کی زبانوں کو تالو چاٹنے لگے گا ۔
یہی کچھ اگر طاہرالقادری کر رہے ہیں تو اعتراض کچھ جچتا نہیں۔ اب مصدقہ اطلاعات ہیں کہ قادری صاحب زرد پتوں کے جال میں الجھ کر عوام کے آگے تو خیرہ ہو چکے ۔سو سوچا کہ کیوں نہ پاکستان عوامی تحریک کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی جائے۔اب خبر ہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے بے جان اور ناتواں جسم میں زر اور میڈیا کے ذریعے جان ڈالنے کی ایک بے سود کوشش ہورہی ہے۔جس میں تبدیلی کے بے سمجھ خان اور مشرف کو صدیوں تک اقتدار میں دیکھنے کے خواہشمندوں کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔سیاست کے بھی عجب رنگ اور ڈھنگ ہیں۔اسلام آٓباد کا راستہ سب کو بھلا لگتا ہے۔قادری صاحب نے دو تین روز پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے اسلام کو ایسا آباد کیاکہ اب، مسلسل ان کے دل و دماغ پر اسلام آباد کی یاترا سوار ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب انھوںنے سیاست کے خار زار میں قدم رکھنے کی غرض سے پاکستان عوامی تحریک کو موثر کرنے کی ٹھان لی ہے ۔ویسے یہ بھی مہنگا سودا نہیں کہ منہاج کے بل پر پاکستان عوامی تحریک کو شاخ مل جائے۔
اس بات سے بھی مفر نہیں کہ نواز شریف کی مقبولیت کے آگے سب اپنے ہانپتے کانپتے گھوڑے باندھنے کی کوشش میں مصروف ہیںجب کہ میاں صاحب ہیں کہ پانی کے سکوت کی طرح با خبر سب کے توڑ میں جتے ہوئے ہیں اور عوام کا سوال جوں کا توں برقرار ہے کہ ان کی بے پایاں زندگی بھلا کیسے اور کیونکر بہتر ہو سکے گی یا کہ وہ کون ہوگا جو عوام کے مسائل کی گتھی کو سلجھانے کے لیے عوام کے شانہ بشانہ ہو گا۔اب تو حق پرستی،انقلاب اور تبدیلی کے نعرے بھی کوہ ندا سے معلوم ہونے لگے ہیں۔اب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ...بس اس کوہ کے دامن سے میسر ہے نجات...آدمی ورنہ عناصر میں گھرا رہتا ہے۔