کھیل کو جنگ نہ بنائیں
بھارت کو ہرانے سے غیر معمولی خوشی‘ افتخار اور جوش و جذبے کا اظہار دیکھنے میں آ رہا ہے
چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں بھارت کو ہرانے سے جو غیرمعمولی خوشی' افتخار اور جوش و جذبے کا اظہار دیکھنے میں آ رہا ہے اس کی وجوہات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ گھپ اندھیرے میں ایک ستارہ بھی چودھویں کے چاند کی طرح لگتا ہے۔ ہمارے معاشرے اور حاکم طبقے کی خرابیاں اور برائیاں اپنی جگہ مگر امر واقعہ یہی ہے کہ کسی بھی حوالے سے خیر کی کوئی خبر سننے کو کان ترس گئے تھے، اگرچہ بیشتر ملکوں کے مقابلے میں ہمارے یہاں کھیلوں کا شوق اور سہولیات بہت کم ہیں سوائے کرکٹ، ہاکی' اسنوکر' باکسنگ اور اسکواش کے ہم شاید ہی بین الاقوامی سطح پر کسی کھیل کے حوالے سے جانے جاتے ہوں اور ان کا بھی یہ حال ہے کہ نوے کی دہائی کے بعد سے کم و بیش ان میں بھی ہر کھیل کے حوالے سے ہمارا حال کسی ڈوبتے ہوئے جہاز سے کچھ زیادہ مختلف نہیں کہ موجوں کے ایک آدھ اچھال سے قطع نظر ہم مسلسل روبہ زوال ہی چلتے چلے آ رہے ہیں ایسے میں کسی بڑے ٹورنامنٹ میں پہلے نمبر پر آنا اور وہ بھی بھارت کو ہرا کر یقیناً ایک ایسی خوش خبری ہے جس پر دل کھول کر خوش ہونا بنتا ہے کہ
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
میں نے جو پورا میچ کروڑوں ہم وطنوں کی طرح براہ راست دیکھا ہے کرکٹ سے دیرینہ دلچسپی کی وجہ سے میں اس کھیل کی عالمی سطح پر پیش رفت سے آگاہ رہنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں (اگرچہ یہ عالمی سطح بھی بنیادی طور پر ان چند ممالک تک محدود ہے جو کبھی برطانوی نو آبادی یا کامن ویلتھ کے ممبر ہیں یا رہے ہیں) سو تمام تر خواہشات اور جملہ دعاؤں کے باوجود معروضی حوالے سے صورت حال کو سمجھنے کے بعد جو متوقع نتیجہ سامنے آتا تھا وہ سراسر بھارت کے حق میں جا رہا تھا کہ سیمی فائنل سے پہلے کے تینوں مقابلوں میں ہماری کارکردگی کسی طرح بھی چیمپیئن ٹیموں والی نہیں تھی، پہلے میچ میں بھارت نے ہمیں ہر شعبے میں شکست دی، دوسرے میچ میں ساؤتھ افریقہ کو کم رنز پر آؤٹ تو کر لیا مگر ہمارے سابقہ ریکارڈ کے پیش نظر اس فتح کا بیشتر کریڈٹ بارش کو جاتا ہے، تیسرے میچ میں پھر اچھی بالنگ کے باوجود سری لنکا نے ہماری ٹیم کی واپسی کی ٹکٹیں تقریباً بک کرا دی تھیں لیکن سرفراز کے دو کیچ چھوٹنے اور محمد عامر کے ڈٹ کر کھیلنے نے پانسہ پلٹ دیا۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دراصل انگلینڈ کے خلاف کھیلا جانے والا سیمی فائنل ہی وہ پہلا میچ تھا جو ہم نے اعتماد کے ساتھ کھیلا اور جیتا اور یہی وہ کارکردگی تھی جو بھارت کے خلاف فائنل جیتنے کی آرزو اور حسرت کو عملی سطح پر تقویت فراہم کر رہی تھی۔ یہاں میں ایک بار پھر عمران خان کی فراست کی داد دینا چاہوں گا کہ مقبول عام تجزیوں کے برعکس اس نے پاکستان کو ٹاس جیت کر پہلے کھیلنے کا مشورہ دیا تھا یہ اور بات ہے کہ یہ کام ویرات کوہلی کے ہاتھوں پورا ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ فائنل میں ہمارے لڑکوں نے بھارت کو نہ صرف ہر شعبے میں مات دی بلکہ اس سے زیادہ بڑی شکست سے دوچار کیا جس کو گزرے ہوئے ابھی 14دن بھی نہیں ہوئے تھے۔ کھیل کے میدان میں جو کچھ ہوا اس سے آپ سب بخوبی آگاہ بلکہ اس کے عینی شاہد ہیں اس لیے میں اس کی تفصیل کو چھوڑتے ہوئے اس جذباتی فضا' ردعمل' شور شرابے اور جشن فتح کی طرف آتا ہوں جو اب تک میڈیا اور قوم کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں اور یہی دراصل آج کے کالم کا محرک اور موضوع بھی ہے۔
کھیل کا لطف' جذباتی وابستگی اور فتح سے پیدا ہونے والی نفسیاتی فضا اور اظہار مسرت سب اپنی جگہ بجا ہیں مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اسے کھیل کی حد تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔ اوول' لندن میں واقع ایک کرکٹ گراؤنڈ ہے کوئی میدان جنگ نہیں۔ کھیل کی گرما گرمی اور پاک بھارت تعلقات کے تاریخی اور جذباتی عوامل سے قطع نظر یہ میچ بہرحال ایک کھیل کا ہی مقابلہ تھا اس میں بھی شک نہیں کہ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ہونے والے ایشز مقابلوں کی طرح دنیا کے کئی ممالک میں بعض کھیلوں کے مقابلے ایک خاص نوع کی نفسیاتی شدت کے حامل بن جاتے ہیں جن سے متعلقہ ملکوں کے تاریخی پس منظر کا بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے اور یوں ان کے باہمی مقابلے بعض اوقات قومی وقار' عزت' آبرو اور انا وغیرہ کی علامت بن جاتے ہیں اور ان میں فتح و شکست کا قومی مورال پر براہ راست اثر پڑتا ہے لیکن دیکھا جائے تو یہ اثر دائمی اور مستقل نہیں ہوتا اور آہستہ آہستہ متعلقہ لوگ اپنے اپنے جذباتی آشوب سے نکل کر نارمل زندگی میں واپس آ جاتے ہیں اور کھلاڑی بھی ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر اگلے مقابلے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان بعض سیاسی اور تاریخی عوامل کی وجہ سے کھیل بھی کھیل کے بجائے جنگ کی سی شکل اختیار کر گئے ہیں، پہلے اس آگ کو صرف بعض سیاستدان اور دونوں اطراف کے کچھ شدت پسند ہوا دیا کرتے تھے مگر اب یہ کام دونوں ملکوں کے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ہاتھ میں چلا گیا ہے جس کی وجہ سے صورت حال مزید خراب ہونا شروع ہو گئی ہے۔
اس طرح کے لوگ اپنے دفاع میں اس انگریزی محاورے کو استعمال کرتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بات سرے سے غلط ہے کہ کھیل تو کھیل ہمارا دین تو جنگ کے دوران بھی مخالف کے بزرگوں، عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کے درختوں اور فصلوں تک کی حرمت کا درس دیتا ہے اور حکم ہے کہ دوسروں کے ساتھ وہ سلوک نہ کرو جو تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بعض اوقات جو زبان استعمال کی جاتی ہے اور جس طرح کے قابل اعتراض اور توہین آمیز visuals بنائے یا دکھائے جاتے ہیں ان کی سختی سے ممانعت ہونی چاہیے کہ سب کے بزرگ' ہیروز' رشتے اور عزت نفس یکساں توقیر کے لائق ہیں، چھوٹی موٹی چھیڑ چھاڑ یا خوشدلی سے کی جانے والی تنقید میں کوئی حرج نہیں کہ اس سے نہ صرف انفرادی اور اجتماعی کتھارس ہوتا ہے بلکہ ایک صحت مند فضا اور ہار جیت کو کھیل کا حصہ ماننے کا رویہ بھی فروغ پاتا ہے مانا کہ فی زمانہ کھیلوں کو سیاست سے سو فیصد علیحدہ رکھنا عملی طور پر ممکن نہیں لیکن ان کو سیاست کا آلہ کار اور اس کے گھٹیا مفادات کا مظہر بننے سے تو یقیناً بچایا جا سکتا ہے اور یہ بھی کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ اپنے ہیروز کی عزت کے لیے دوسروں کے ہیروز کی بے عزتی کرنا لازمی اور ضروری ہے، اسی طرح مقامی سطح پر بھی کھیلوں اور سیاسی وابستگیوں کو ایک دوسرے میں غلط ملط کرنا انتہائی غلط اور غیر اخلاقی حرکت ہے۔ فیس بک پر نجم سیٹھی اور ان کی اہلیہ محترمہ سے مبینہ طور پر کچھ سیاسی مخالفین کا جو رویہ دکھایا گیا ہے اس کی پر زور مذمت کی جانی چاہیے کہ کسی بھی اختلاف کو اس کے اپنے پلیٹ فارم تک محدود رکھناچاہیے ورنہ کل کو یہ دراندازی ایک سیلاب کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے اور یاد رہے کہ سیلاب اپنا رستہ خود بناتا ہے۔
سو آخر میں قوم کو اس حوصلہ افزا اور تقویت آمیز فتح پر مبارکباد کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر یہ یاد دہانی کہ کھیل کو کھیل تک ہی محدود رکھیے اسے جنگ نہ بنائیے کہ جنگ آج تک کسی مسئلے کا حل ثابت نہیں ہوئی۔ ہمسایوں میں مقابلہ' چپقلش اور تو تو میں میں کو ایک حد سے زیادہ نہیں بڑھنا چاہیے کہ زندگی کا اصل اصول ''جیو اور جینے دو'' ہی ہے۔