ماہ صیام اور رحمت و مغفرت
بہرحال کیا درست ہے اور کیا غلط ہمارے چینلز اور حکومتی دانشور تو یہ طے کرچکے ہیں۔
اے میرے پروردگار، اے معبود، اے رحمان و رحیم! تو ہی خالق کائنات ہے یہ زمین وآسمان اور ان کے درمیان، زمین کے اوپر اور زمین کے نیچے جو کچھ ہے تو ہی ان سب کا رب عظیم ہے۔ سال، مہینے، ہفتے،دن اور دن کا ہر لمحہ تیرے اور صرف تیرے حکم کا پابند ہے اور یہ سب تیرے ہی ہیں، مگر اس پر تیری رحمت و عنایت کہ تو نے رمضان المبارک خاص اپنا مہینہ قرار دیا، اس کی فضیلت کو ہر ماہ سے بڑھا کر ہر عمل کا ثواب عام دنوں سے ستر گنا کردیا (عربی میں ستر لامحدود کے معنی میں استعمال ہوتا ہے) حتیٰ کہ اس ماہ مبارک میں روزے کی حالت میں سونے کو بھی عبادت قرار دیا۔اس ماہ کے تینوں عشروں کو فضیلت سے نوازا، برکت، رحمت ومغفرت کے لیے مخصوص کرکے۔
پروردگار! وطن عزیز تیرے نام و دین پر حاصل کردہ نہیں بلکہ یہ تو تیری خصوصی عطا ہے۔ لہٰذا اس ملک خداداد کے تمام افراد نے بے حد خشوع و خضوع سے اپنی اپنی توفیق کے مطابق رمضان مکمل احترام کے ساتھ بسر کیا۔ شعبان سے اخبارات میں زکوٰۃ و خیرات کے حصول کے لیے کئی کئی لاکھ کے اشتہارات آنا شروع ہوجاتے ہیں اور عوام حسب توفیق بلکہ اپنی مالی حیثیت سے بڑھ کر زکوٰۃ و خیرات تیری رضا کے حصول کے لیے ادا کرتے ہیں۔ عام آدمی تو اسی نیت سے یہ کار خیر انجام دیتا ہے۔
مگر جو ہر وقت اپنے مال تجارت میں منافع اور اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے ہر دم کوشاں رہتے ہیں تو اے رب العزت! وہ اپنی زکوٰۃ و خیرات کو بھی تمام ذرایع ابلاغ پر نمایاں کرکے ادا کرتے ہیں اور یوں بھی دوہرا فائدہ ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ جو رقم مصنوعات کی اشتہاری مہم پر خرچ کرنی تھی اس سے کچھ کم خرچ کرکے مختلف چینلز پر لوگوں میں تقسیم کرکے اپنی کمپنی کی مشہوری کا فرض ادا کرکے لوگوں پر احسان بھی کہ بلا کسی معلوماتی استبداد کے بیٹھے بٹھائے کسی کو بائیک کسی کو سونا (کئی تولہ) کسی کو فریج، مائیکرو ویو اوون، فوڈ فیکٹری کے علاوہ بڑے بڑے انعامات دونوں ہاتھوں سے لٹائے جاتے ہیں کہ کوئی شخص خالی ہاتھ گھر نہیں جاتا تو یوں پروردگار! تیرے بندے اس ماہ کی برکت سے نہ صرف مالا مال ہوجاتے ہیں بلکہ ساتھ ہی غیرت و حمیت سے عاری جذبہ ایمانی سے دور ہاتھ پھیلانے اور اپنی فرمائشی اشیا بے جھجک مانگ کر بڑے فخریہ انداز میں کیمرے کے سامنے آتے ہیں گھر بیٹھے پروگرام دیکھنے والے اپنی کم مائیگی پر افسوس کرتے رہتے ہیں۔
میرے مولا! تو نے جس ماہ مبارک کو ہم گناہ گاروں کے لیے ایک موقع عطا فرمایا تھا رحمت و مغفرت کے حصول کا، اس کو ہم نے اتنے اہتمام سے منایا کہ پوری قوم کو کام چور، بلامشقت لاکھوں کے انعامات کے حصول کے چکر میں لگا کر کہیں رحمت کہیں مغفرت سے بے پرواہ کردیا۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہمارے ذرایع ابلاغ اسلامی تاریخ، شریعت محمدیؐ، سنت نبویؐ سے متعلق کوئی سوال کرکے ان کو یہ انعام نہیں دیتے بلکہ بلا کسی معلوماتی سوال کے محض اوٹ پٹانگ حرکتوں اور کھیل کود پر یہ انعامات کی برسات ہوتی ہے۔ اور یوں رمضان المبارک جس کو رمضان فیسٹیول کہنا زیادہ مناسب ہوگا تمام چینلز کے درمیان ''مقابلہ خرافات'' بنام رمضان پیشکش کے منعقد کیا جاتا ہے۔
سنت نبویؐ پر ہم یوں عمل کرتے ہیں کہ افطار پر اتنے اقسام کے کھانے، پھل، مشروبات رکھ دیتے ہیں کہ وہ لوگ جن کو افطار کے لیے ایک خرمہ اور ٹھنڈے مشروبات کے بجائے نل کا پانی مکمل پیاس بجھانے کے لیے دستیاب نہیں ہے وہ سوچتے ہیں کہ شاید یہ کسی اور ملک کا پروگرام دکھایا جا رہا ہے۔
رمضان نشریات کے نام پر فیشن شو، بدحال قوم کی بدحالی کا مذاق اور عوام کو غربت میں مبتلا کرکے خواص کے پرتعیش طرز زندگی کو پیش کرکے قوم کو احساس محرومی و بے حسی کا عادی بنانے کا اچھا ذریعہ اختیار کیا گیا ہے۔
اے رحمن و رحیم! اس بار تو ہم نے احترام رمضان کے طور پر چند لڑکوں سے ڈانس (رقص) وہ بھی بے ہنگم پر سب کو موٹرسائیکلیں ان کے اس عمل کو سراہتے ہوئے عطا فرمائیں۔ اے اللہ تعالیٰ! ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ آیندہ سال ہم رمضان المبارک اس سے بھی زیادہ جوش و خروش اور جذبے کے ساتھ منائیں گے اس بار تو محض لڑکوں سے رقص کروایا ہے مگر ہمارے ''جذبہ ایمانی'' میں جو روز افزوں ترقی ہو رہی ہے اور ہمارے تمام سرکاری ادارے اور درسگاہیں ہمیں جو کچھ سکھا رہی ہیں تو امید ہے کہ آیندہ ہم لڑکیوں کو برائے نام لباس میں بے حد عمدہ رقص کرا کے انھیں بطور انعام گاڑیاں دیں گے یوں ہم دوہرا فائدہ حاصل کرسکیں گے۔
ایک تو مشتہرین کو حاصل ہوگا اور دوسری جانب اسلامی مساوات کا بھی بھرپور مظاہرہ ہوگا کہ اسلام نے مرد و عورت کو برابر کے حقوق دیے ہیں اگر لڑکے موٹر بائیک رقص پر حاصل کرسکتے ہیں تو لڑکیاں گاڑیاں کیوں حاصل نہ کریں؟ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ملک ناپرساں میں کچھ (چند) گھرانے ایسے بھی ہیں جو اپنے ہر بچے کو گاڑی دینا افورڈ نہیں کرسکتے۔ لڑکے اگر گاڑی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بے چاری لڑکیاں ٹسوے بہاتی رہتی ہیں کہ ہم تو اس گھر میں لونڈیوں کی طرح رہتے ہیں ہمارے کوئی حقوق ہی نہیں، ہم اپنے دوستوں یا سہیلیوں کے ساتھ گھومنے پھرنے نہیں جاسکتے دوسروں کی خوشامد کرنا پڑتی ہے کہ تم پک کرلینا یا تم رات گئے ہمیں گھر ڈراپ کردینا۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے۔
لہٰذا لڑکیوں کو رقص کروا کر انھیں گاڑیاں دینا ایک کار ثواب ہی ہوگا گھر سے ہر وقت کے جھگڑے ختم اور لڑکیوں کو ہر وقت ہر جگہ جانے کی لڑکوں کے برابر آزادی مل جائے گی تو یہ مساوات کا تقاضا بھی ہے اور ہمارے رمضان پیشکش کے ذمے داران کے لیے ایک بہترین آئیڈیا بھی۔ کیوں اللہ تعالیٰ! آپ کو ہماری یہ رائے پسند آئی؟ اسلام کی ہم جو صورت جدید دنیا میں پیش کر رہے ہیں یعنی بطور دہشتگرد تو کیا جدید دنیا سے ہم آہنگ ایسے پروگرام ہمارا (ملک خداداد) کا سر فخر سے بلند نہیں کردیں گے؟ اسلام کے نام پر بلاوجہ دقیا نوسیت کو فروغ دینا کیا درست ہے؟
بہرحال کیا درست ہے اور کیا غلط ہمارے چینلز اور حکومتی دانشور تو یہ طے کرچکے ہیں کہ مسلمان کہلائیں مگر اسلام دل تک پہنچنے نہ پائے۔ تعلیم یافتہ ہوں مگر لیاقت قریب بھی نہ پھٹکے۔ اللہ ناراض ہوتا ہے تو ہو، مگر حکمران اور صاحبان اقتدار راضی رہیں۔ رہ گیا عذاب الٰہی تو وہ کسی کے روکنے سے رکتا ہے نہ کسی کے کہنے پر نازل ہوتا ہے۔ ویسے اگر ذرا بھی خدا کے وجود پر ایمان ہو تو ذرا اسلامی دنیا کے علاوہ ساری دنیا پر نظر ڈال لیجیے ہر جگہ عذاب خداوندی کا ٹریلر ہی تو چل رہا ہے۔