شناختی کارڈ کی اہمیت

کچھ عرصہ قبل کہیں پڑھا تھا کہ نادرا کی جانب سے شناختی کارڈ بلاک کیے جا رہے ہیں لوگ پریشان ہیں رل رہے ہیں۔


Shehla Aijaz June 23, 2017
[email protected]

وہ کراچی کینٹ اسٹیشن پر ملی تھی۔ اس کا کسی وہیل چیئر پر بیٹھے معذور شخص سے جھگڑا ہو رہا تھا، آوازیں خاصی واضح اور بلند تھیں لیکن وہ کون سی زبان میں لڑجھگڑ رہے تھے سمجھ نہ آیا۔ غالباً بنگالی زبان میں۔ اس بات کی تصدیق اس خاتون نے خود کی۔ کالے کوٹ اور چادر میں ملبوس وہ درمیانی عمر کی خاتون جب اس معذور شخص سے لڑ جھگڑ کر فارغ ہوئی تو اس نے اپنی چادر اچھی طرح لپیٹی اور اسٹیشن پر بیٹھے مسافروں سے بھیک مانگنے لگی وہ معذور شخص بھی اسی طرح اپنے دھندے میں جت گیا، گویا وہ دونوں پیشہ ور فقیر تھے۔

اسٹیشن پر ہی ایک کھانے پینے کی اشیا کے اسٹال پر ایک نوجوان ان دونوں کی لڑائی میں کچھ اس طرح سے شریک رہا کہ جیسے وہ بھی ان کا کوئی قریبی عزیز، جاننے یا چاہنے والا ہو۔ گھومتے گھماتے وہ خاتون آئی اور لگی بھیک مانگنے۔ اس کا انداز گفتگو اجنبی سا تھا پوچھا بنگالی ہوکیا۔ جواب ملا ہاں۔ دبی آواز میں احتجاج کیا گیا۔ پھر یہاں کیا کر رہی ہو۔ لیکن اس نے سنا نہیں اپنی داستان شروع کردی۔ اتنے مہینوں سے یہاں ہیں۔ ہمارے لڑکے کا شناختی کارڈ بھی نہیں بنا۔ بہت پریشان ہیں۔

جواباً صرف غصے میں دوسری جانب دیکھنے لگے کہ کیا کہیں کس سے شکایت کریں کہ ایک غیر ملکی جو اپنی زبان سے اقرار کر رہی ہے پورے خاندان سمیت پاکستان کے ایک بڑے ریلوے اسٹیشن پر کس دھڑلے سے بھیک مانگ رہی ہے کیا یہاں کوئی پولیس والا گشت نہیں کرتا جو کسی غیر ملکی کو اس طرح بھیک مانگتے دیکھ کر کچھ حجت ہی کرلے جس کے ریلوے اسٹیشن پر بنا ٹکٹ کے مسافروں کے ساتھی اور رشتے داروں کو بھی جانے کی اجازت نہیں۔ خدایا یہ کیسا اندھیر ہے۔

یہ گلہ تھا یا شکوہ لیکن ایسا ہمارے یہاں ہو رہا ہے بھارت، ایران، بنگلہ دیش، افغانستان اور نیپال کے علاوہ نہ جانے کون کون سے ممالک سے آج بھی لوگ آ آ کر بس رہے ہیں اور ہم تلاش میں ہیں کہ کون ہیں وہ ہاتھ جو ہمارے ملک میں دہشتگردی پھیلا رہے ہیں ذرا غور کریں ادھر ادھر کیسے بستیاں آباد ہو رہی ہیں، پہاڑ روشن ہو رہے ہیں کوئی تو ہے پر نظر آتا بھی ہے اور دکھائی بھی نہیں دیتا۔

کچھ عرصہ قبل کہیں پڑھا تھا کہ نادرا کی جانب سے شناختی کارڈ بلاک کیے جا رہے ہیں لوگ پریشان ہیں رل رہے ہیں شکایتیں کررہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے وہ لوگ جو واقعی حق پر ہیں پریشان ہیں اور چکر لگا لگا کر تھک گئے ہیں لیکن اس کے علاوہ کتنے ایسے ہیں جو درحقیقت اس ملک کے رہنے والے ہی نہیں ہیں لیکن اخباری نمایندوں، نیوزچینلز اور لوگوں سے اپنی داستان غم سناتے پھرتے ہیں اس کے پیچھے کیا کیا کہانیاں ہیں ذرا اس جانب بھی دیکھیے۔

''وہ شخص مجھے چنگ چی رکشے میں ملا تھا بات کرتے کرتے رونے لگا اس کا کہنا تھا کہ وہ دو مہینوں سے چکر لگا رہا ہے روز بلواتے ہیں ہزار روپے دے دیے لیکن ابھی تک کوئی کام نہیں بنا۔ کہتے ہیں اپنے ماں یا باپ کا شناختی کارڈ لاؤ۔ میں خود ستر سال کا ہوں، میرے والدین کو مرے چالیس پچاس برس ہوچکے ہیں ان کا کارڈ میں کہاں سے لاتا، پھر کہا کہ بہن یا بھائی کا لاؤ۔ میں اپنی بہن جو اسی شہر میں بیاہی ہوئی ہے کا کارڈ لے کر گیا تو کہا کہ یہ نہیں چلے گا۔ کہا بھائی کا لاؤ۔ بھائی پنجاب میں ہے اب میں وہیں سے اپنا شناختی کارڈ بنوا کر لاؤں گا، وہاں سب بن جاتا ہے۔

پوچھا گیا کہ بابا جی اتنے برسوں میں کارڈ کی کیا ضرورت پڑی کیا پرانا کارڈ نہیں تھا۔ کہنے لگے پرانا کارڈ کھو گیا تھا۔ دراصل میرا ایک مکان ہے فلاں جگہ پر اس پر قبضہ کر لیا میں یوسی دفتر گیا تو انھوں نے کہا کہ بابا اس پر کوئی بیٹھ تو سکتا ہے لیکن اپنے نام نہیں کرا سکتا۔

اس بابا جی کی گفتگو سے آپ نے کیا اندازہ لگایا۔ دراصل ہمارے اپنے اداروں نے اپنی عزت وقار اور نام کو خاک میں ملا دیا ہے اور لوگوں کو اچھی طرح سمجھا بجھا دیا ہے کہ اگر آپ نے اپنا جائز یا ناجائز کام کرانا ہے تو رشوت سے کام کروا دیں ابھی کام بوتل کے جن کی مانند آپ کے سامنے حل ہو جائے گا۔ اس تمام عمل کے دوران کتنے حق دار پستے ہیں ہماری ملکی ساکھ، وقار داؤ پر لگتے ہیں اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن اس بہتی گنگا پر بند باندھنا بھی ضروری ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ تمام پختون، افغان اور تمام بہاری، بنگالی ہیں لیکن اصل کے نیچے نقل کی کہانی چل رہی ہے۔

اس کا ذمے دار کون ہے وہ پہلا نالائق شخص جس نے چند سو روپوں کے عوض کسی افغان، بنگالی، نیپالی یا ایرانی کو جھوٹا شناختی کارڈ بنا کر اس کے اندر ابھرتے تمام منفی جذبوں کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے اتنا خوشگوار بنادیا کہ آج وہ آپ کے ہی سینے پر مونگ دل رہے ہیں اور آپ کی جرأت نہیں کہ آپ اسے پکڑ کر قریبی پولیس اسٹیشن ہی لے جائیے یا اس کی شکایت ہی کردیں کیونکہ دوسرا ادارہ آپ کے لیے ہی دانت کھولے کھڑا ہے کہ اب تو آپ بھی پھنس چکے ہیں جناب۔

ہم کس قدر محب وطن ہیں کہ ہمارے ہی پڑوس میں اردگرد میں دہشتگرد عناصر آپ کے اپنوں کو خون میں نہلا دینے کی ترکیبیں بنتے ہیں اور عمل کرتے ہیں اور ہم ہیں کہ بے چارے بزدل، ڈرپوک چپ چاپ دیکھتے ہیں ان کی مشکوک حرکتیں دیکھ کر بھی صرف سر کھجاتے ہیں۔

''ہمارے ماموں انڈیا سے آئے تھے پھر یہاں آکر انھوں نے اپنا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ پھاڑ دیا اور یہیں رہنے لگے شادی کی، کاروبار کیا۔''

ہماری کسی سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بڑے مزے سے بتایا کہ ان کی ایک سہیلی کے ماموں نے اسی طرح کیا تھا اور اب وہ کہاں ہیں۔

''اے بی بی! اب تو مر کھپ گئے ہوں گے۔''

یہ زمین خدا کی ہے جس قدر چاہو گھومو پھرو لیکن اگر عزائم کچھ اور ہوں تو ہمارا اتنا تو حق بنتا ہے کہ اپنے ملک اور ہم وطنوں کی بقا کے لیے کچھ تو سوچیں۔ مجھے اپنی شناخت پاکستانی اچھی لگتی ہے شکر ادا کرتے ہیں کہ رب العزت نے ہمیں ایک آزاد ملک میں پیدا کیا اور ان سب کے لیے بھی دعا گو ہیں جو اپنے ممالک کے نامساعد حالات کے باعث دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں لیکن جو پرسکون صفوں میں داخل ہوکر امن کو درہم برہم کرنا چاہیں ان کے لیے دعا ہے کہ خدا ان کے عزائم ناکام کرے ۔(آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں