میں اور مسرور انور حصہ دوم
اس گیت کو مسعود رانا نے گایا تھا۔ اس گیت کے بعد مسرور انور پھر لاہور میں اتنا مصروف ہوگیا تھا
اب کراچی کی فلم انڈسٹری میں مسرور انور کی بھی ایک جگہ بنتی جا رہی تھی، انھی دنوں اداکار بٹ کاشر نے ''ہمیں جینے دو'' کے نام سے ایک فلم کا آغاز کیا۔ مالی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے وہ بڑے آرٹسٹوں کو فلم میں نہ لے سکے تھے، فلم کی ہیروئن اداکارہ و رقاصہ زمرد تھی اورہیروکے طور پر ایک نیا چہرہ روشناس کرایا تھا۔ وہ کراچی کے گلی کوچوں میں دلیپ کمار کا انداز اپنائے ہوئے ایک مارواڑی نوجوان تھا جس کا نام حنیف تھا اس کی برادری کے لوگ اسے چھوٹا دلیپ کمار کہہ کر پکارتے تھے اور وہ دن رات ہیرو بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ حنیف کی شکل دلیپ کمار سے کافی حد تک ملتی جلتی تھی وہ مالی طور پر بھی کافی مضبوط تھا اور اسی لیے بٹ کاشر نے حنیف کو اپنی فلم کے لیے ہیرو منتخب کیا تھا۔ حنیف کا برسوں کا خواب اب پورا ہونے جا رہا تھا اس لیے اس نے اس فلم میں فلمساز بٹ کاشر کی مالی معاونت بھی کی تھی۔ ''ہمیں جینے دو'' میں مسرور انور نے بھی کئی گیت لکھے تھے اور مہدی حسن کی آواز میں ایک غزل تو بہت ہی خوبصورت تھی جس کا مطلع تھا:
الٰہی آنسو بھری زندگی کسی کو نہ دے
خوشی کے ساتھ غم بے کسی کسی کو نہ دے
ان دنوں ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ایک موسیقار سی فیض کراچی آیا ہوا تھا۔ اس نے مذکورہ فلم کی موسیقی دی تھی۔ فلم کی موسیقی کافی اچھی تھی مگر کمزور کاسٹ اور کمزور ہدایت کاری کی وجہ سے فلم ''ہمیں بھی جینے دو'' کو فلم بینوں نے زیادہ جینے نہیں دیا اور وہ فلم دو تین ہفتوں ہی میں دم توڑ گئی تھی مگر اداکار حنیف اس فلم سے منظر عام پر آگیا تھا۔ خوبصورت نوجوان تھا اور دلیپ کمار سے اس کی بڑی شباہت ملتی تھی، پھر وہ کراچی کی فلموں میں بطور سائیڈ اداکار کاسٹ کیا جانے لگا اور مسرور انور کی شہرت کا سفر آگے بڑھتا رہا۔ اسی دوران مسرور انور نے کراچی کی کئی فلموں میں خوبصورت گیت لکھے جن میں لاڈلا ، چھوٹی بہن وغیرہ شامل تھیں۔
مذکورہ دونوں فلموں کے موسیقار لال محمد اقبال تھے اور ان دنوں ایک خوبصورت نوجوان سہیل رعنا اکارڈین بجاتا تھا جو لال محمد اقبال کی فلموں میں بھی اکارڈین پلے کرتا تھا اور کراچی کی فلموں میں بطور ایک میوزیشن سہیل رعنا بھی بڑا مقبول تھا۔ جب تقسیم کار فلمساز نثار مراد کا بیٹا وحید مراد فلم پروڈکشن کے بزنس میں آیا تو اس نے اپنی پہلی فلم ''ہیرا اور پتھر'' کے نام سے کراچی میں شروع کی، خود ہیرو اور اداکارہ زیبا کو فلم میں بطور ہیروئن کاسٹ کیا۔ سہیل رعنا، وحید مراد کے اسکول کے زمانے کا دوست تھا۔ وحید مراد نے سہیل رعنا کو اپنی فلم میں بطور موسیقار لیا اور سہیل رعنا نے فلم کے گیتوں کے لیے مسرور انور کا انتخاب کیا۔ مسرور انور نے ''ہیرا اور پتھر'' کے لیے کئی گیت لکھے اور وہ مشہور ہوئے انھی گیتوں میں سے ایک گیت سپرہٹ ہوا تھا یہ ایک ڈوئیٹ تھا جو مشہور عظیم پریم راگی قوال کے صاحبزادے سلیم شہزاد اور ریڈیو کی صداکارہ طلعت صدیقی کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا تھا جس کے بول تھے:
مجھے ایک لڑکی سے پیار ہوگیا
اس نے ہنس کے دیکھا بیڑا پار ہوگیا
خالی پیلی کہتا ہے پیار ہوگیا
جسے دیکھو پیارکا بیمار ہوگیا
موسیقار سہیل رعنا نے بھی فلم کا بڑا کامیاب میوزک دیا تھا اور مذکورہ گیت ان دنوں گلی کوچوں میں خوب گایا جاتا تھا۔ یہ گیت بالکل اس طرح مشہور ہوا تھا جس طرح انڈین فلم ''مغل اعظم'' کا گیت پیارکیا تو ڈرنا کیا، مقبول ہوا تھا۔
وحید مراد کی پہلی فلم کامیاب ہوئی تو اس نے ''ارمان'' کے نام سے کراچی میں اپنی دوسری فلم کا آغازکردیا۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ جب فلم ''ہیرا اور پتھر'' سیٹ کی زینت بنی تھی تو اس کے مصنف و ہدایت کار اقبال رضوی تھے مگر پھر کسی ناراضگی کی وجہ سے وحید مراد نے اقبال رضوی کو ڈائریکشن سے علیحدہ کردیا تھا اور اپنے اسکول فیلو اوردیرینہ دوست پرویز ملک جو بیرون ملک سے فلم ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرکے آئے تھے انھیں فلم کی ہدایت کاری کی ذمے داری سونپ دی تھی اور جب ''ارمان'' کا آغاز کیا تو پرویز ملک ہی فلم ارمان کے بھی ہدایت کار تھے۔ اس فلم میں بھی موسیقار سہیل رعنا اور مسرور انور کی جوڑی نے بڑا کمال دکھایا تھا۔ فلم کی ہیروئن زیبا تھی اور اس فلم نے باکس آفس پر بڑی دھوم مچائی تھی اور سارے پاکستان میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ ''ارمان'' کے سارے ہی گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔ دو تین گیتوں نے تو مقبولیت کی معراج حاصل کی تھی۔ ان گیتوں میں گلوکار احمد رشدی اور مالا کی آوازوں میں گایا ہوا ایک گیت:
اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم
تمہارے بنا ہم بھلا کیا جئیں گے
اور دوسرا گیت:
مرے خیالوں پر چھائی ہے اک صورت متوالی سی
نازک سی شرمیلی سی معصوم سی بھولی بھالی سی
رہتی ہے وہ دور کہیں اتا پتا معلوم نہیں
کوکو کو رینا' کوکو کورینا
یہ گانے پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے روزانہ تسلسل کے ساتھ نشر ہوتے تھے اور فلم بینوں کے دلوں میں گھر بناچکے تھے اور کراچی کی موسیقی کی محفلوں اور فنکشنوں میں احمد رشدی سے انھی دوگیتوں کی زیادہ فرمائش ہوا کرتی تھی۔ ''ارمان'' کے گیتوں نے احمد رشدی، سہیل رعنا اور مسرور انورکی شہرت کے ہر سو ڈنکے بجا دیے تھے۔ دو فلموں کے سپرہٹ ہونے کے بعد وحید مراد اور زیبا کی فلمی جوڑی کو بھی بڑی شہرت ملی تھی اور بحیثیت فلمساز وحید مراد کا فلمساز ادارہ فلم آرٹس لائم لائٹ میں آگیا تھا اور اس دور کے مشہور تقسیم کار ادارے جے سی آنند پکچرز کو فلم آرٹس نے بزنس کے اعتبار سے پیچھے دھکیل دیا ۔
1964 اور 1965 وحید مراد کی فلموں کی کامیابی کا دور تھا۔ اب کراچی کی فلموں میں سب سے زیادہ مصروف نغمہ نگار مسرور انور ہوگیا تھا۔ کراچی میں جو بھی فلم بنتی تھی، مسرور انور کے گیتوں کے بغیر نہیں بنتی تھی اسی دوران ایک فلم ''عشق حبیب'' کا آغاز ہوا جس میں موسیقی ریڈیو کے ایک باصلاحیت کمپوزر ظفر خورشید نے دی تھی۔ مسرور انور نے اس فلم میں پہلی بار ایک قوالی لکھی تھی اور اس قوالی میں فلم کے لیے کراچی کے مشہور قوال برادران غلام فرید صابری اور مقبول فرید صابری کی آوازیں استعمال کی گئی تھیں۔ قوالی کے بول تھے:
جو کچھ بھی مانگنا ہے در مصطفیٰ سے مانگ
اللہ کے حبیب شہِ انبیا سے مانگ
میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا
میں بن کے سوالی آیا ہوں
مجھے نظر کرم کی بھیک ملے' آقا بھیک ملے
یہ قوالی پھر ایسی ہٹ ہوئی کہ اس نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ صرف اس قوالی کی وجہ سے فلم ''عشق حبیب'' کو کامیابی نصیب ہوئی اور اس ایک قوالی کی مقبولیت کے بعد صابری برادران کی شہرت آسمان کو چھونے لگی تھی۔ اس قوالی کی شہرت پاکستان سے ہندوستان اور پھر آہستہ آہستہ ساری دنیا میں پھیلتی چلی گئی اور غلام فرید صابری برادران یورپ امریکا تک پہنچ گئے تھے اور اس قوالی کی شہرت نے مسرور انور کے نام کو بھی بلندی عطا کی، اب مسرور انور کی ضرورت کراچی کی فلم انڈسٹری سے زیادہ لاہور کی فلم انڈسٹری کو تھی۔ مسرور انور کو بس ایک بار لاہور جانے کی ضرورت تھی۔ وحید مراد کی فلم ''احسان، دوراہا، نصیب اپنا اپنا، کے گیت لکھنے کے بعد مسرور انور نے لاہور کے لیے رخت سفر باندھا اور پھر لاہور پہنچا تو پھر لاہورکا ہوکر رہ گیا تھا، لاہور میں فلم ''شرارت'' کے لیے لکھے گئے مسرور انور کے جن گیتوں کو شہرت ملی وہ فلمساز اقبال شہزاد ہی کی فلم تھی اور موسیقار بھی دیبو بھٹہ چاریا تھے۔ گیت کے بول تھے:
اے دل تجھے اب ان سے یہ کیسی شکایت ہے
وہ سامنے بیٹھے ہیں کافی یہ عنایت ہے
اس گیت کو مسعود رانا نے گایا تھا۔ اس گیت کے بعد مسرور انور پھر لاہور میں اتنا مصروف ہوگیا تھا کہ اسے سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ملتی تھی۔ لاہور کے ہر بڑے فلمساز نے مسرور انورکے لیے اپنے بازو پھیلا دیے تھے اور اپنے دامن میں سمیٹ لیا تھا حالانکہ وہ دور ابھی تک قتیل شفائی، کلیم عثمانی اور خواجہ پرویزکا تھا مگر مسرور انور کے گیتوں کی شہرت نے اسے ایک الگ اور منفرد مقام عطا کیا تھا۔ مسرور انورکے گیتوں میں نغمگی اور عوام پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس زمانے میں جتنے بھی بڑے بڑے پروڈکشن ہاؤس تھے ان کے اپنے اپنے پسندیدہ موسیقار اور شاعر تھے مگر مسرور انور کی شخصیت کچھ ایسی ابھر کر اجاگر ہوئی تھی کہ ہر بڑا فلمساز مسرور انور کے گیتوں کے لیے بے قرار رہتا تھا۔ موسیقار ایم اشرف سے لے کر نثار بزمی تک سارے ہی نامور موسیقاروں کی گڈ بک میں مسرور انور کا نام لکھا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ مشہور فلمساز، ہدایت کار و مصنف اور شاعر شباب کیرانوی نے بھی اپنی کئی فلموں کے لیے مسرور انور کی خدمات حاصل کی تھیں۔
(جاری ہے)