اسمارٹ زندگی
میرے رسول پاکؐ کی شاندار زندگی ایک بہترین نمونہ ہے۔ تاقیامت تک کے لیے
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ماہ رمضان سکون اور موسم کی بغیر کسی تبدیلی کے ساتھ گزر گیا ہے، ہیٹ اسٹروک کے خوف کی وجہ سے اب تمام لوگ ذرا ڈرے ڈرے رہتے ہیں، اللہ نے کرم کردیا اور تمام روزے دار اور عبادت گزار لوگ تسلی سے رمضان میں مصروف رہے مگر اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ پورے صوبہ سندھ میں بالخصوص کراچی میں بہت زیادہ شجرکاری کا آغاز کیا جائے اور تمام شہریوں کو اس طرف رغبت دلائی جائے کہ وہ پودے اور درخت لگائیں اور ان کی دیکھ بھال میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں۔ درختوں کے اندھا دھند کاٹنے کی وجہ سے جس طرح فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور بارشیں کم ہونے کی وجہ بھی یہی ہے، جتنا زیادہ سبزہ ہوگا اتنا ہی زیادہ دوستانہ ماحول ہوگا۔
پہلے والدین بچوں کو بھی اپنی مصروفیات میں شامل کرلیتے تھے مگر اب نہ والدین کے پاس وقت ہے اور نہ بچوں کے پاس۔ ساحل سمندر کی پٹی بھی ایک بڑی پٹی ہے اس پر بے شمار شجرکاری کی جاسکتی ہے۔ مگر مناسب توجہ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ ہوسکا، حکومت اور ایسے فلاحی ادارے جو انوائرمنٹ پر کام کرتے ہیں یہ سب لوگ مل کر چھوٹے اور بڑے پروجیکٹ بناکر پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں، شہریوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے اور ایسی Activities کی جائیں جو باعث دلچسپی بھی ہوں اور باعث رحمت بھی۔ کراچی جیسے سمندری شہر میں بارشیں کم ہوتی جا رہی ہیں اور جب زوردار بارشیں ہوجاتی ہیں تو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ آپس کی لڑائیاں سیاسی لڑائیاں و مفادات نے اس شہر کو کھنڈر بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اب پچھلے دو سال سے کراچی بہتر ہے، لہٰذا مثبت Activities شہریوں کے لیے بھی باعث اطمینان ہوگی۔ ''صفائی نصف ایمان ہے''۔ اللہ بہتر جانے یہ جملہ ان لوگوں نے بھی سنا ہے یا نہیں جو بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھ گئے ہیں، گھر کے راستے ہوں یا بازار جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ کسی کو بھی ٹھیکے دو یا کوئی بھی صفائی کا بیڑا اٹھائے، صفائی نظر نہیں آتی ہے۔ گندگی، غلاظت، بیماریاں، ملاوٹ، تھک چکے ہیں ہم ان مصیبتوں سے، نہ جانے کب ہمارا قبلہ درست ہوگا۔
تھوڑے سے فائدے کے لیے انسانوں کو کتا بلی بنا دیا گیا ہے، اچھے خاصے انسانوں کو جانوروں سے بدتر ماحول مل رہا ہے، پانی کی لائنوں میں گٹر کی لائنیں مل جاتی ہیں، دودھ میں نہایت خطرناک کیمیکل ملا دیے جاتے ہیں، گوشت میں حلال اور حرام کی تمیز ختم کردی گئی ہے، حلال جانوروں کے ساتھ حرام مردہ جانوروں کا گوشت بھی بک رہا ہے، مسلمانوں کے ایمان خراب کیے جا رہے ہیں اور سب کے سب بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں، ایسا نہیں کہ ان سب کو روکنا مشکل ہے یا ناممکن ہے۔ ہاں وہ لوگ جن کے منہ حرام کی کمائی لگ گئی ہے ان کو روکنا ناممکن ہے، ورنہ برائی، کرپشن کو ہماری حکومت جڑ سے ختم کرسکتی ہے اور اگر ان کے جذبے سچے ہوں تو اور اللہ کا حکم ہو جائے گا تو انشا اللہ ایک نہ ایک دن ایسا ضرور ہوگا۔ لذتیں، ذائقے، خوبیاں، عیش و آرام آخر کب تک ساتھ نبھاتا ہے، ایک نہ ایک دن سب کچھ ہی رہ جانا ہے اور ہمارے اعمال ہماری برائیاں، نیکیاں ہی رہ جائیں گی۔ بہرحال پینے کا صاف و ستھرا پانی اور غیر ملاوٹ شدہ ضروریات زندگی کو یقینی بنانا ہم سب پر فرض بھی ہے اور حق بھی۔ آخر کب تک لوٹ کھسوٹ ہوتی رہے گی آخر کب تک دلوں پر کالک رہے گی۔ بددیانتی کی وجہ سے ہی بڑے بڑے کرائمز جنم لیتے ہیں۔ لالچ و ہوس کی وجہ سے ہی دنیا و آخرت تباہ ہوجاتی ہیں۔
اسمارٹ فون کی طرح انسان بھی وہی اسمارٹ رہ گیا ہے جو تھوڑا اسمارٹ فون والے فنکشن رکھتا ہو، ناچنا، گانا، google کرنا، زیادہ جاننا، ہر ایک کی ٹوہ رکھنا، اور ایسے ایسے apps رکھنا کہ توبہ۔ ایک ہماری جاننے والی خاتون ہیں، وہ اپنے آپ کو گھریلو کہتی ہیں مگر انھوں نے اپنے فون میں فون ریکارڈ کرنے والا app بھی رکھا ہے اور تمام کالز کو tape کرتی ہیں اور پھر چھوٹی چھوٹی باتوں کو پکڑ پکڑ کر لوگوں کو بلیک میل کرتی ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے مطلب کے apps رکھے ہوتے ہیں۔ اس سے ان کو کوئی غرض نہیں کہ آیا یہ ان کے فائدے کے ہیں یا نہیں۔ بالکل اسی طرح ہمارے لوگ بھی بس اپنی تجوریاں بھرے جا رہے ہیں، بھرے جا رہے ہیں، انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ باقی لوگوں کو کتنا نقصان ہے اور کس حد تک ہے۔ گندگی غلاظت نہ صرف صحت تباہ کرتی ہے، بلکہ یاد رکھیے یہ سب ہمارا ایمان بھی خراب کرتی ہے۔
جب حرام چیزوں کی ملاوٹ ہوگی اور ہم سب اس کو کھائیں گے تو بے چینی بڑھے گی، کیونکہ ایمان پختہ ہو تو اللہ ہمیشہ مددگار ہے۔ اللہ ہمیں اور ہم سب کو ہدایت سے نواز دے آمین۔ رمضان شریف کے بابرکت مہینے میں بھی کئی چور اور لٹیرے مساجد میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے پرس اور موبائل چرا لیتے ہیں، مساجد تو اللہ کا گھر ہیں اور اعتکاف میں بیٹھے لوگ عبادت گزار۔ اب کیا کہیے ایسے جاہلوں اور لاعلم حضرات کو۔ بے حسی دیکھئے لاعلمی دیکھئے۔ مساجد تو خود علم کا گہوارا ہوتی ہے ، درس و تدریس ہوتا ہے یہاں۔ اللہ کی عبادت ہوتی ہے۔
اب یہ حال۔ جوان بچے بھی خوب ذوق و شوق سے اعتکاف میں بیٹھنا چاہتے ہیں، ضرورت اس کی ہے کہ ان 9 یا دس دنوں کے اعتکاف میں ان نوجوان بچوں کو اللہ اور رسول کی صحیح تعلیم و تربیت کی جائے۔ قرآن اور احادیث کو اور ان کی روح کو سمجھنے کی تربیت کی جائے۔ سیکڑوں کی تعداد میں مساجد بھری ہوتی ہیں، یقین جانیے لاعلمی اور جہالت نے ہم سب کو کہیں کا نہیں رکھا ہے۔ ماڈرن اور لبرل ہونے کے چکر میں ہم کیا سے کیا ہوتے جا رہے ہیں۔ اسکول کی پرائمری سطح پر مسلمان بچے بچوں کو اپنے دین اور اس کی روح سے روشناس کرانا بہت ضروری ہوگیا ہے اور یہ کام حکومت مدارس پر نہیں چھوڑ سکتی ہے پورے ملک میں ہنگامی بنیادوں پر اسکول اور کالجز کے سلیبس تبدیل کیے جائیں۔ یورپ اور امریکا کی باتیں اور تاریخ بتانے سے بہتر ہے کہ ہمیں اپنے مذہب، کلچر اور ہماری تعلیم و تربیت سے روشناس کروایا جائے۔
میرے رسول پاکؐ کی شاندار زندگی ایک بہترین نمونہ ہے۔ تاقیامت تک کے لیے، حکمرانوں سے لے کر عام آدمی تک کو رسول پاکؐ کی زندگی کو فالو کرنا چاہیے کہ یہی ہماری روح ہے یہی ہمارا جسم، ہم کیا تھے اور کیا ہوگئے اور کیا ہوجائیں گے۔ ڈر اور خوف لگا رہتا ہے کہ ہم انسان بھی رہیں گے یا نہیں؟ جس طرح کی زندگی اور لائف اسٹائل ہم فالو کر رہے ہیں، اپنا آپ بھول رہے ہیں، دکھاوے اور جھوٹی زندگی کی طرف دوڑ رہے ہیں، نیچر سے دور ہٹ رہے ہیں، یہ تمام کی تمام چیزیں ہمیں پنپنے نہیں دیں گی، کرکٹ کی ٹیم کی طرح نئے اور نوجوان خون کو تمام اداروں میں آگے آنا چاہیے کہ اب وقت کی ضرورت ہے نئی سوچ، نیا خون، پرانے تجربہ کار لوگ بہت جگہوں پر ناکام و نامراد ہوئے بلکہ انھوں نے غلط روایات کو بھی پروان چڑھایا اور پورے ملک کو ایک جنگل کی شکل دے دی۔ وقت بدل رہا ہے، بدل جائے گا۔