پشتوموسیقی کی بھولی بسری آوازیں

شاور ریڈیو کو ایک اکیڈمی کی حیثیت حاصل ہے‘ یہاں بڑے بڑے فنکاروں نے کام کیا۔


Rokhan Yousufzai February 02, 2013
حاجی اسلم خان گم شدہ آوازوں کو ڈھونڈ نکالنے میںبے پناہ محنت کی۔ فوٹو : فائل

1905ء کا ایک گرامو فون اپنے نحیف اور لاغر وجود کے ساتھ ہمارے سامنے پڑا ہے زمانہ بدل گیا۔

لوگ بدل گئے مناظر بدل گئے حالات اور آلات بدل گئے لیکن قدیم آلات سے شہرت پانے والی آوازیں آج بھی زندہ ہیں آج بھی موجود ہیں دور کہیں دور فضاؤں کے اس پار سے آج بھی ایک ہلکی سی لے ایک ہلکی سی دُھن وقت کو سالوں پیچھے لے جاتی ہے جہاں سے پکار پکار کر ہم سے صرف یہی ایک التجا کرتی ہے کہ

مجھے محفوظ کر لے اے زمانے
میں اک کتبہ ہوں مٹتا جا رہا ہوں

آج سے تقریباً ایک صدی قبل پشتو موسیقی، پشتو شاعری اور پشتو زبان کی گلوکاری کی شکل کیا تھی؟ اس زمانے میں اس زبان کی موسیقی کے سُر، تال اور بول کی ترتیب و تقسیم کس نظام کے تحت تھی؟ اس کے اجزائے ترکیبی کیا کیا تھے؟ ان سب سوالوں کا جواب آج بھی ایسی ایک چھوٹی سی مشین کے پاس موجود ہے جسے گرامو فون کہا جاتا ہے لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب آج کا یہ بوڑھا اور ناتواں گرامو فون جوان ہوا کرتا تھا اور دیگر ممالک و علاقوں کی طرح ہمارے ہاں بھی کسی نہ کسی گاؤں، کوچے اور محلے کے حجرے میں اسی چھوٹی سی مشین کا طوطی بول رہا تھا۔ آج بھی یہ مشین یہ کل پرزے بوڑھے تو ضرور ہو چکے ہیں لیکن ان کے ساتھ وابستہ ماضی کی وہ یادیں وہ چہرے اور آوازیں آج بھی جوان ہیں، یہیں کہیں آس پاس کی فضائوں میں گونج رہی ہیں، ہم سے مخاطب ہیں۔

ہمارے سامنے آکر اپنے ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں کیوں... کیوں کہ آوازیں مرتی نہیں، گرامو فون کی ایجاد سے ملکوں، ملکوں کا سنگیت جس طرح متعدد مختلف پہلوؤں سے متاثر ہوا کم و بیش اسی طرح پشتو موسیقی کو بھی ہونا چاہئے تھا اور ہوا بھی یہ کہ گرامو فون پشتو موسیقی کی فنی ارتقاء میں کچھ زیادہ معاون و مددگار ثابت ہوا اور پشتو موسیقی کی طلب بڑھ جانے سے جو سرد بازاری اور جمود سا طاری تھا وہ یکسر بدل گیا اور لوگوں میں موسیقی کے چرچے بڑھنے لگے، نئی نئی چیز تھی فوراً لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی۔

پختون ویسے بھی زندہ دل کھیل تماشے کے رسیا ٹھہرے دن رات اس کے گرویدہ ہوگئے اس کے علاوہ گرامو فون کے آنے سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس کے ذریعے دوسرے خطوں کی موسیقی جس سے یہاں کے لوگ قطعی ناآشنا تھے گرامو فون کے ریکارڈوں کے ذریعے یہاں رائج ہوتی رہی اور دھیرے دھیرے پختونوں کے مزاج میں رچتی رہی۔ شروع شروع میں پشتو کے ریکارڈ کہاں تھے' لہٰذا وہی جانکی بائی الہ آبادی، زہرہ بائی پانی پت، گوہر بائی کلکتہ والی، دلاری بائی، محمد حسین نگینے والے، بائی چھیلا، ماسٹر، فخر الدین، ماسٹر لھبو، پیارے صاحب وغیرہ بعد میں تاجروں نے شوق دلا دلا کر خوب بازار پیدا کیا تب کچھ پشتو موسیقی کے ریکارڈ بننے شروع ہوئے چناں چہ بعد میں بینر ماسٹر وائس کا سٹوڈیو لاہور میں قائم ہوا اور وہیں استاد اکرم خان کا پہلا ریکارڈ بنا۔

استاد اکرم خان موضع سوڑیزئی پشاور پشتو کا سب سے پہلا گراموفون ریکارڈ انہی کا بنایا گیا جو بے حد مقبول ہوا اس ریکارڈ کے بول تھے ''زہ بلبل ستا دہ وصال یمہ،، استاد احمد دسار گل موضع تاروجبہ دلبر راج جو ضلع مردان کا رہنے والا تھا۔ وائلن طلبہ کے علاوہ ہارمونیم کا بڑا ماہر تھا، ریڈیو پاکستان پشاور میں پشتو موسیقی کا کمپوزر بھی رہ چکا تھا ۔ عام روایت کے مطابق استاد اکرم خان کا پہلا ریکارڈ اس قدر مقبول ہوا کہ کئی لاکھ تک فروخت ہوا پھر اور ریکارڈ بھی بنے۔

اکرم خان کے بعد استاد صحبت خان جو کہ موضع مرغز ضلع صوابی کا رہنے والا تھا گل میر عرف گلو کا شاگرد تھا پشتو گرامون ریکارڈوں کے آخر میں صحبت خان ضرور پکارتا تھا ۔قیام پاکستان سے پہلے ریڈیو کے ساتھ وابستگی رہی استاد صحبت خان کے علاوہ سید عالم مردان، وحید اللہ،نعمت اللہ مردان، جمعہ خان صوابی، رحمت صوابی مظفر خان، دلبر خان، میاں مستجاب، عبداللہ جان، زر خان، کچکول خان، عبدالجبار، انذر گل، خان زادہ اور سبزعلی استاد اس طرح عورتوں میں وزیر جان، مہرالنساء، چشتی چمن جان اور حسیب جان، خانم جان اور نظہر جان جس نے پشتو ٹپہ کی ایک خاص دھن وضع کی تھی جو اسی کے نام سے اب تک گائی جاتی ہے اس کے علاوہ وہ ایک بہترین فی البدیع شاعرہ بھی تھیں جن کے سینکڑوں ٹپے رائج و مقبول ہیں ،

کہ نظیر جان دچایا دیگی
ملک دے گانڑہ کڑی ترلاندئی تہ دے رازینہ

(اگر کسی کو نظیر جان یاد آتی ہے تو اپنا اثاثہ بیج کر موضع ترلاندی آجائے) سازندوں میں استاد پذیر خان وغیرہ کے بے شمار ریکارڈ بننے لگے، ہنر ماسٹر وائس کمپنی کے بعد پشاور کی ایک اور کمپنی بجاج اینڈ کمپنی گلشن ریکارڈ اور ایک اور تاجر نے بانگا فون کے ادارے قائم کئے 'انہوں نے بھی قریب قریب انہی فنکاروں کے ریکارڈ بنائے یہ تما م ریکارڈ مروج دھنوں پر پشتو عوامی شاعری کی مختلف اصناف، ٹپہ، چار بیتہ، نیمکئی لوبہ، بدلہ، رباعی اور غزل کے ہی تھے۔ شاعروں میں فدا مطہر نے سب سے زیادہ گیت لکھے ان میں سے اکثر کے ریکارڈ بھی بنے۔ اس ضمن میں سبز علی موسیقار سب ریکارڈوں میں پیش پیش رہے۔ ان کے بے شمار ریکارڈ مقبول ہوئے، باجے گاجے ڈھول طبلے سالوں قبل جب جوبن پر ہوں تو سُروں پر سفر کرتی ہوئی آوازیں ان لمحوں کو یادگار بنانے لگیں، ذہن میں جب وہ تصور عود کر آتا ہے تو ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹائپ کی تصویر بنتی ہے' بالخصوص ملک کا اولین ریڈیو سٹیشن 1935ء میں پشاور میں قائم ہوا تو اس وقت یہ آواز کی دنیا میں ہمارا قدم تھا ۔ اس وقت موسیقی کے پروگرام ریکارڈ نہیں کئے جاتے تھے بلکہ براہ راست ہوا کے دوش پر سفر کرتے تھے' پھر ریکارڈنگ کا دور آیا اور آوازیں محفوظ ہونے لگیں وقت گزرتا رہا اور نہ جانے اس مرکز سے پشتو زبان میں موسیقی کے حوالے سے کتنے لوگ آئے اور چلے گئے۔

پھر 1999ء کا دور آیا اور اس مرکز کے موجودہ سٹیشن ڈائریکٹر لائق زادہ لائق اور کمپیئر حاجی اسلم خان کے ذہن میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ ہوا کے دوش پر ماضی کا سفر کیا جائے۔ اس سلسلہ میں ان کی بڑی کامیابی پشتو موسیقی سے گہرا لگاؤ بھی تھا اور پھر ماضی کی جانب حال کے سفر کا آغاز ہوا جہاں سے ان گم شدہ آوازوں کو ڈھونڈ نکالنے میں انہوں نے بے پناہ محنت کی، لائق زادہ لائق نے ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ کر کے اس سفر کو سہل بنایا۔

ماضی کی طرح حال کے سفر کے بارے میں لائق زادہ لائق نے بتایا کہ پشاور ریڈیو کو ایک اکیڈمی کی حیثیت حاصل ہے' یہاں بڑے بڑے فنکاروں نے کام کیا اور شہرت حاصل کی پرانے نغموں ''تیر ہیر آواز ونہ'' کو دوبارہ نشر کرنے کا سلسلہ ہم نے 1999ء میں شروع کیا اس وقت ہمارے پاس قدیم گلو کاروں کے چند نغمے موجود تھے' ہم نے مزید ایسے ریکارڈ تلاش کرنے کے لئے ریڈیو سامعین اور عوام سے رابطہ کیا۔ جس کا ہمیں مثبت جواب ملا اور مردان سے محمد عمر نامی شخص نے کئی کیسٹ بھیج دیئے جسے فلٹر کر کے کوالٹی کو بہتر بنایا گیا اور نشر کرنا شروع کیا۔

ریڈیو سننے والوں نے اس سادہ اور فوک موسیقی کو بے حد پسند کیا، اور اس میں دل دلچسپی ظاہر کی، یقیناً زندہ قومیں اپنے ماضی سے محبت رکھتی ہیں یہ سلسلہ آگے بڑھا اور پشاور کے اللہ داد خان نے بھرپور تعاون کیا ان کی ذاتی لائبریری میں ماضی کے اردو پشتو ریکارڈ کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے 'انہوں نے ہمیں بہت سارا مواد فراہم کیا بدقسمتی سے ماضی میں ایسے مواد کو محفوظ رکھنے کا مناسب بندوبست نہیں تھا جس کی وجہ سے یہ ثقافتی ورثہ ضائع ہوتا رہا لیکن پھر بھی ایسے باذوق افراد موجود ہیں' جنہوں نے ایسے نادر ریکارڈ جمع کر کے محفوظ کئے جو اب نئے شائقین کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔

جن افراد نے موسیقی کے اس نادر و نایاب ذخیرہ کی فراہمی میں ادارہ کے ساتھ تعاون کیا ان میں اللہ داد خان پشاور، محمد عمر مردان، ممتاز علی خٹک کرک، ولی محمد دل سوز پرخو ڈھیری، محمد علی شاہ سوات، ڈاکٹر شیرین صوابی اور دیگر کئی افراد شامل ہیں، لائق زادہ لائق نے بتایا کہ موسیقی کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مردان کا علاقہ پار ہوتی ایک وقت میں موسیقی کا مرکز رہا ہے اس دور کے مشہور شعراء میں تاج محمد، فدا مطہر، کچکول اور تازہ گل شامل ہیں' قدیم گلو کاروں میں ارباب دل بر خان، زرخان، مظفر استاد، اکرم استاد، میر احمد استاد جنہوں نے بعد میں نعت خوانی شروع کی اور ان کی نعت خوانی کا ریکارڈ بھی میسر آیا ہے جبکہ خواتین میں چشتی چمن جان، بادشاہ زرین جان مرحومہ شامل ہیں، اب ریڈیو پشاور کی لائبریری میں تقریبًا دوہزار نغمے محفوظ ہیں جو سو کے قریب قدیم گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کئے گئے ہیں۔

ماضی کے ان شعرا اور گلو کاروں کے بارے میں مزید تحقیق بھی جاری ہے اور ان کے حالات زندگی سے سامعین کو آگاہ کرنے کیلئے کچھ عرصہ قبل ''خاپونہ'' کے نام سے ایک پروگرام بھی شروع کیا گیاتھا،، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ورثے کو سی ڈیز میں محفوظ کرنے کیلئے جدید آلات کے ذریعے اس کی کوالٹی بہتر بنانے کیلئے صوبائی کلچرڈائریکٹوریٹ تعاون کرے ،تاکہ یہ سلسلہ آئندہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکے اور اس طرح پشتو موسیقی کا یہ قیمتی سرمایہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کو محفوظ طریقے سے منتقل کر سکیں۔

بس یہی ایک خواہش اور یہ ہمارا اصل مشن ہے، ان آوازوں کو ریڈیو تک لانے اسے محفوظ کرنے ایک ایک ریکارڈ کے پیچھے سوات باجوڑ، ڈیرہ اسماعیل خان اور پتہ نہیں کہ کہاں کہاں کا سفر طے کرنے اپنے ذاتی خرچ سے ان گم شدہ آوازوں کو تلاش کرنے والے صوبہ بھر کے علاقوں کی خاک چھاننے والے اور منزلوں کو چھونے والے لائق زادہ لائق نے بتایا کہ میرے پاس ان سب گلوکاروں اور شاعروں کی بائیو گرافی بھی موجود ہے اور میرا ارادہ ہے کہ اس پر کام کر کے اسے ایک تذ کرے کی شکل میں کتابی صورت میں پشتو زبان و ادب اور پشتو موسیقی کے شائقین کے سامنے پیش کروں' اس کے علاوہ میری درخواست ہے کہ جس کے پاس بھی کوئی ایسی پشتو موسیقی کا ریکارڈ گلوکار و موسیقار کی تصویر یا آواز موجود ہے۔

مہربانی کر کے ہمیں مطلع کریں تاکہ ہم اسے آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر دیں، پشتو موسیقی کے فروغ میں منجملہ دیگر اسباب کے یہاں کا مذہبی ماحول بھی بڑی حد تک رکاوٹ رہا سنجیدہ طبائع نے اس طرف سے مکمل بے اعتنائی برتی ہے البتہ پھر بھی آج کچھ لوگ ایسے موجود ہیں جنہیں نام و نمود یا رسوائی جگ ہنسائی کی چنداں پرواہ نہیں اور موسیقی کی طرف بدستور مائل ہیں اور یہ اس خطے کے وہ لوگ ہیں جو موسیقی کو بڑے شوق کے ساتھ ہوش گوش سے سنتے ہیں اسے پسند کرتے ہیں، یہ ریڈیو پشاور کا ایک ایسا انوکھا اور عظیم کارنامہ ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، خدا کرے یہ سلسلہ دراز رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں