طاہرالقادری کا دورہ پاکستان اسپانسرڈ اور کسی عالمی گیم کا حصہ تھا

عالمی برادری کی نظروں میں ہم روز بہ روز مشکوک ہوتے جا رہے ہیں، نیتیں صاف ہوں تو دہشت گردی کا مسئلہ ختم ہو سکتا ہے.


Ghulam Mohi Uddin February 03, 2013
کہنہ مشق سیاست دان انور بیگ کے ساتھ مکالمہ . فوٹو : فائل

سابق سینیٹر انور بیگ جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریبی رفقاء میں شمار ہوتے تھے۔ محترمہ کی شہادت کے بعد بتدریج پاکستان پیپلز پارٹی سے دور ہوتے چلے گئے۔

2003 سے مارچ 2009 تک پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایوان بالا میں خدمات سرانجام دینے والے انور بیگ اپنی سیٹ سے ریٹائر ہوئے تو عملی طور پرسیاست سے بھی کنارہ کش ہو چکے تھے کیوں کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی نئی قیادت کی ''گڈ بک'' میں نہیں تھے۔ لیکن اِس کے باوجود وہ ذرائع ابلاغ پر پاکستان پیپلزپارٹی کی پالیسیوں کادفاع کرتے ہوئے نظر آتے تو تھے مگر ان کے چہرے پراور جملوں میں اپنی قیادت سے ناراضی کی جھلک بھی دکھائی دیتی تھی۔ تمام تر کوشش کے باوجود ان کے دل کی بات لبوں تک آ ہی جاتی اور یوں وہ آہستہ آہستہ پارٹی قیادت کی سردمہری کا مزید شکار ہوتے چلے گئے۔ 2011 کے وسط تک انھوں نے اِس روش کو برداشت کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن پیپلزپارٹی کی نئی قیادت کے ہجوم میں وہ ''مِس فٹ'' ہی رہے۔

پارٹی پالیسیوں سے بیزار انور بیگ اگست 2011 کے شروع میں ایک دن جب میاں نواز شریف سے رائے ونڈ میں ملاقات سے فارغ ہوئے تو اگلے ہی روز ان کی پارٹی رکنیت معطل کرنے کا حکم نامہ جاری ہوگیا۔ پھر انھوں نے بھی کسی تاخیر کے بغیر پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی۔ جمہوری انداز سیاست میں قواعد و ضوابط کے تحت پارٹیوں کو خیرباد کہنا اور نئی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن پاکستان میں پارٹی سے وفاداریاں بدلنے والوں کو اچھا نہیں سمجھاجاتا۔

جو لوگ پارٹی بدلتے ہوئے قواعد و ضوابط کی پاس داری نہیں کرتے وہ ''لوٹا'' تو کہلاتے ہیں مگر مفادات بھی سمیٹتے ہیں، جو قانونی ضابطوں کو پورا کرتے ہیں وہ اِس خوب صورت لقب سے محفوظ ضرور رہتے ہیں مگر انھیں بھی عوامی سطح پر مفاد پرست ہی سمجھا جاتا ہے۔ انور بیگ نے پاکستان پیپلز پارٹی چھوڑ کر اور پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرکے کیاکھویا کیا پایا، یہ ہمارا موضوع نہیں لیکن اتنا کہنا ضروری ہے کہ وہ جن رفقاء اور اصولوں کی وجہ سے''گڈ بک'' سے نکلے تھے وہ ابھی تک پی پی پی کا حصہ ہیں اور بعض اتحادی بن کر مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔

انور بیگ کا کہنا ہے کہ پارٹی چھوڑنے کے بعد وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کے غیظ و غضب کا بھی شکار ہوئے۔ پی پی پی کے سربراہ نے4 سال تک صبر کا مظاہرہ کیا تھامگر جب انور بیگ نے (ن) لیگ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی تو ردعمل یہ ہوا کہ ان کی 70 سالہ پرانی خاندانی اوورسیز ورکرز کمپنی ''جے ایم ایس'' کے خلاف سرکاری سطح پر کارروائیاں شروع ہو گئی تھیں، انور بیگ وہ پہلے سیاست دان ہیں جن کے خلاف آصف علی زرداری نے بہ حیثیت صدر مملکت، کارروائی کا حکم دیا تھا جس پر سرکاری ادارے بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز پاکستان نے کام شروع کیاتو انور بیگ کو سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ کے ذریعے قانونی دفاع کرنا پڑا تھا۔ پھر جب چوہدری برادران کی آڑ لے کر صدارتی محل کے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی تو چوہدری صاحبان نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہماری انور بیگ سے کوئی ذاتی رنجش نہیں، یہ حکم تو اوپر سے صادر ہوا ہے۔

آج کل انور بیگ پاکستان مسلم لیگ (ن) کاحصہ ہیں۔ ان کا ماضی پی پی پی کی پالیسیوں کو قریب سے دیکھتے ہوئے گزرا تو حال پی ایم ایل (ن) کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے گزر رہا ہے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال پر ان سے جو بات چیت ہوئی وہ قارئین کی نذر ہے۔

ایکسپریس:23 دسمبر2012 سے لے کر 18جنوری2013 تک ڈاکٹر طاہرالقادری نے ملکی سیاست میں جو ہل چل مچائی اگر اُس کا لب لباب نکالا جائے تو وہ کیا ہوگا؟

انور بیگ: دیکھیں، ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے شروع سے لے کر اب تک جو باتیں کیں، وہ اس وقت کیں جب ملک کی تمام چھوٹی بڑی جماعتیں الیکشن 2013 سے چند ہفتوں کے فاصلے پر کھڑی ہیں۔ تمام جماعتوں نے اپنا اپنا منشور قریباً وضع کر لیا ہے، اب تک میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اچانک وہ ایک ''پیرا ٹروپر'' کی طرح اوپر سے پاکستان کی سیاست میں اترے تو اُس کا اصل مقصد کیاتھا؟ اب تک قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ آپ نے جس عمل کو ہل چل کہا، میرے نزدیک وہ ایک بہت بڑی کنفیوژن تھی اور ابھی تک ہے، جس کی شروع سے لے کر اب تک کسی کوسمجھ نہیں آرہی۔ دھرنے کے بعد گرد بیٹھنا شروع ہوئی ہے تو اب یہ واضح ہونے لگا ہے کہ ان کا پاکستان میں اس طرح اچانک وارد ہونا بہت ہی سوچا سمجھا اورا سپانسرڈ منصوبہ تھا۔

مجھے تو یوں لگتا ہے کہ وہ ملک میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے تھے جس سے انتخابات کی راہ میں رُوڑے اٹکائے جا سکیں،کیا انھوں نے پاکستان کا کسی بھی سطح پر بھلا کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو بتائیں۔ وہ تو پاکستان کو کئی دہائیاں پیچھے لے جانا چاہتے تھے۔ میری نظر میں پاکستان کا مستقبل صرف اور صرف شفاف انتخابات ہیں۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں صرف بھٹو صاحب کی واحد حکومت تھی جس نے اپنا عرصہ مکمل کیا تھا اور اُس کے بعد اب یہ دوسری حکومت ہے جو پانچ سال مکمل کرنے والی ہے۔

میں اِس حکومت کاحامی ہرگز نہیں مگر یہ سچ ہے کہ اِس حکومت میں بدعنوانی عروج پر رہی، دنیا بھر کا جو برا کام تھا وہ اِس گورنمنٹ نے کیا، لیکن اِس کے باوجود یہ ایک منتخب حکومت تو ہے،اب نئے الیکشن آ رہے ہیں، حکومت کا محاسبہ تو لوگوں نے کرنا ہے اگر یہ واقعی بُرے لوگ ہیں تو عوام اِن کوخود بہ خود حکومت سے نکال باہر کریں گے۔ اِس میں لانگ مارچ کہاں سے آ گیا؟ میرے خیال میں الیکشن کے عمل کو مکمل ہونا چاہیے، لانگ مارچ کے بعد یہ اشد ضروری ہو چکا ہے۔ اِس عمل کو تہس نہس کرنے کے لیے طاہر القادری صاحب کی شکل میں جو خود کش حملہ آور پاکستان آ رہے ہیں ان کے خلاف حکومت وقت کو اب سخت ایکشن لینا چاہیے۔ میں یہاں آئین کا ایک آرٹیکل پڑھ کر سنانا چاہتاہوں، یہ آئین کا آرٹیکل۔6 ہے۔

جس کی رو سے اگر ایک منتخب حکومت چاہے وہ بری ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اُس کی آئینی حیثیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ کسی بھی منتخب حکومت کو نکالنے کا ایک طریقہ کارہوتا ہے اور وہ آئین میں موجود ہے یعنی کہ عدم اعتماد کی تحریک۔ میرے خیال میں تو اب اُس کی بھی ضرورت نہیںرہی کیوں کہ نئے انتخابات میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں ،لیکن اگر کسی کا پھر بھی دل چاہتا ہے تو وہ لانگ مارچ جیسے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی بجائے آئینی راستے پر کیوں نہیں چلتا، مجھے تو حکومت وقت پر بھی حیرانی ہوتی رہی کہ اس نے آئین کے آرٹیکل۔6 کے تحت طاہرالقادری جیسے لوگوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟ یہ کام صرف اورصرف وفاقی حکومت کا تھا لیکن وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ جانے کس بات کا انتظار کر رہی تھی اور لانگ مارچ جاری تھا۔

آپ یہ بھی تو دیکھیں، جب ڈاکٹر صاحب الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہتے تو ان کے لانگ مارچ کا آخر مقصد کیا تھا؟ جب عوام مشرف کے خلاف سڑکوں پر نکل کھڑے تھے تو یہ اُس وقت کہاں تھے؟ بگٹی صاحب قتل ہوئے تو اُس وقت انھوں نے آواز بلند کیوں نہ کی؟ بہت سی ایسی مثالیں ہیں جہاں یہ سامنے آ کر بول سکتے تھے لیکن خاموش رہے اب ایسی کون سی قیامت ٹوٹ پڑی تھی کہ یہ ہر شے کو تہس نہس کرنے پاکستان آ گئے۔ میں بڑے وثوق سے کہوں گا کہ یہ ان کا ''اسپانسرڈ ٹرپ'' تھاجو فیل ہو چکا،اب وہ جو چاہے مرضی کرلیں ملک میں الیکشن انشاء اللہ وقت پر ہی ہوں گے۔

ایکسپریس: ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے اب تک کے بیانات کے مطابق ان کو صرف دو سیاسی پارٹیوں سے تکلیف تھی، اول پاکستان پیپلزپارٹی، دوئم پاکستان مسلم لیگ نواز، وہ باقی اتحادی جماعتوں کا نام تک نہیں لے رہے تھے ؟

انور بیگ:(ہنستے ہوئے ) پاکستان میں اس وقت یہ دو ہی تو بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں، باقی سیاسی جماعتیں تو لوکل پارٹیاں یا صوبائی پارٹیاں ہیں، ایم کیو ایم ایک صوبے کے کچھ حصوں میں مقبول ہے تو اے این پی اور جے یو آئی صوبائی پارٹیاں ہیں۔

ایکسپریس: اور پاکستان تحریک انصاف؟

انور بیگ: عمران خان تو موجودہ پولیٹیکل افق پر ''ایگزسٹ'' ہی نہیں کر تے، ان کی پارٹی تو ایک کرکٹ فین کلب ہے۔ حال ہی میں بائی الیکشن ہوچکے اگر وہ خود کو سیاسی جماعت ثابت کرنا چاہتے تھے تو سیاسی عمل میں شریک ہو کر دیکھ لیتے، انھوں نے تو ان انتخابات میں حصہ تک نہیں لیا، جب وہ الیکشن سے ہی بھاگ گئے تو اُس کا حل میرے پاس تو نہیں۔ میں یہاں ایک بات کہناضروری سمجھتا ہوں کہ الیکشن اگر کسی آمر کے زیرانتظام بھی ہو رہا ہو، چیف الیکشن کمشنر پر اعتماد نہ بھی ہو تو پھر بھی انتخاب میں ضرور حصہ لینا چاہیے، میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ جو پارٹی انتخاب سے بھاگ جائے میری نظر میں اُس کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا، کیا ہے!آپ ہار ہی جائیں گے ناں زیادہ سے زیادہ۔ مگر کب تک ہاریں گے؟ اگر آپ کھڑے رہیں گے تو آپ کی آواز ضرور سنی جائے گی۔

ایکسپریس: آپ نے پاکستان پیپلزپارٹی کے موجودہ چیئرپرسن اور صدر مملکت آصف علی زرداری کو بھی قریب سے دیکھا ہوا ہے، ان کے متعلق یہ تاثر ہے کہ مدمقابل سے پہلے پنجہ آزمائی کرو اگر وہ گر جائے تو
ٹھیک ورنہ اُس کے ساتھ مفاہمت کر لو، اِسی حکمت عملی کے ساتھ انھوں نے کامیابی کے ساتھ پانچ سال پورے کر لیے ، جب کہ اِس تاثر کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن) ''فرینڈلی اپوزیشن'' کا طعنہ برداشت کر تی رہی اور بدنام بھی ہوئی، بعض حلقے کہتے ہیں کہ اب انھوں نے ڈاکٹر صاحب کو بھی شیشے میں اتار لیا ہے، اِس پر کیا کہیں گے؟

انور بیگ: میں یہاں آپ کو تھوڑا سا ماضی میں لے جائوں گا جب محترمہ بے نظیر شہید اور میاں نواز شریف کے درمیان ''چارٹر آف ڈیموکریسی'' طے پایا تھاتو اِس چارٹر پر دستخط دو سال کی بات چیت کے بعد ہوئے تھے۔ ماضی کی تلخیوں کوبھلا کر بہتر مستقبل اور مضبوط پاکستان کو مدنظر رکھ کر معاملات طے پائے تھے مگر بدقسمتی سے محترمہ شہید ہو گئیں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ میاں نواز شریف نے محترمہ کو اپنی بہن کہا ہوا ہے جس پر وہ آج تک قائم ہیں۔ جب 2008 کے الیکشن ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی کو 125 نشستیں ملیں اور میاں صاحب کی جماعت نے95 نشستیں حاصل کیں ۔اِس موقع پر خود زرداری صاحب نے میاں صاحب کو دعوت دی کہ آپ آئیں اور ہمارے ساتھ مل کر حکومت بنائیں، ہم دونوں مل کر چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت آگے بڑھیں گے۔ میاں صاحب نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے، میں نے اپنی بہن سے وعدہ کیا تھا، میں حکومت میں بیٹھنے کے لیے تیار ہوں، اِسی اثناء میں سپریم کورٹ کے ججز کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا، اس وقت پیپلز پارٹی ڈوگر صاحب کو چیف جسٹس رکھنا چاہتی تھی اور میاں صاحب اِس کے حق میں نہیں تھے۔ یوں سیاسی سوچ میں فرق آ گیا مگر اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے 42 دن تک حکومت کا ساتھ صرف اس لیے دیا کہ جمہوریت کہیں ''ڈی ریل'' نہ ہوجائے لیکن اس کے بعد میاں صاحب حکومت سے تنگ آ کر الگ ہو گئے اور ججز کی بحالی کے لیے میاں صاحب کو لانگ مارچ کرنا پڑا۔

آخر کار مجبور ہو کر حکومت نے افتخار محمدچوہدری صاحب کو بحال کر دیا۔ ماضی کے اِس ایک واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز نے مضبوط اور محفوظ پاکستان کے لیے پوری کوشش کی مگر دوسری جانب سے بدنیتی سامنے آتی رہی۔ زرداری صاحب نے بعد میں اِس چارٹر آف ڈیموکریسی سے متعلق خود کہا تھا کہ یہ ایک معاہدہ ہے کوئی الہامی صحیفہ نہیں ہے۔ آپ نے ان کی مفاہمت کی پالیسی کا ذکر کیا تو وہ کچھ یوں لگتی ہے، فرض کریں کہ ایک کیک ہے، اگر میں آپ کو کہوں کہ آدھا کیک میرا ہے اور چوتھائی تمہارا تو کیا آپ مان جائیں گے؟ہر گز نہیں۔ بھئی سچی بات تو یہ ہے کہ آج کل ہر کوئی کیک کا ہی تو بھوکا ہے، کیک کون چھوڑتا ہے اگر سب کو کیک مل رہا ہے تو سب چُپ ہیں، زرداری صاحب نے اپنے اتحادیوں کی نفسیات کو خوب سمجھا ہوا ہے اوراس وقت سب کو کیک کھلایا جارہاہے اور سب ان کے ساتھ ہیں، پھر یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ ہر آدمی کی ایک قیمت ہوتی ہے، اگر آپ وہ دے سکتے ہیں تو سب کچھ ہی ٹھیک ہو جاتا ہے۔

دھرنے کے شرکاء کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ،اس معاہدے کی پاسداری کون کرے گا ؟یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، طاہر القادری صاحب اِس وقت بھی کینیڈا کے شہری ہیں وہ کسی پبلک آفس کو ہولڈ نہیں کر سکتے، انھیں چاہیے تھا کہ وہ پہلے اپنی شہریت سے متعلق فیصلہ کرتے اور پھر کھل کر اعلان کرتے، مگر وہ اس وقت بھی اس موڈ میں نہیں، ہمارے ذرائع تو یہی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو ایک خاص مشن پر پاکستان بھیجا گیا تھا تاکہ وہ الیکشن کے عمل کو روک سکیں، میں پوچھتا ہوں گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں جو لوٹ کھسوٹ ہو رہی تھی اُس کی یاد ان کو اب کیوں آئی؟ کیا وہ مشرف صاحب کے ساتھی نہیں رہے؟ مشرف کیا دودھ میں نہائے ہوئے تھے۔ وہ ملک چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟ اس بارے میں بھی متضاد باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ اس طرح کے درجنوں سوالات ہیں جن کا شافی جواب سامنے نہیں آ رہا، ان کو چاہیے تھا کہ جب وہ مشرف سے ناراض ہو کر باہر جا رہے تو باہر جانے کی بجائے وہ قومی سیاسی دھارے کا حصہ بنتے اور ''مکا مکائو'' کے خلاف بھرپور جدوجہد کرتے۔ پانچ چھ سال خاموش رہنے کے بعد اب انھوں نے یک دم کہنا شروع کر دیا کہ میں یہ، میں وہ کر دوں گا۔ یہ درست طریقہ نہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ میں تو صرف اتنا سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا روشن مستقبل انتخابات اور جمہوریت میں ہی ہے، ہمارے پاس ترقی کا کوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں۔

ایکسپریس: زرداری صاحب کے مزاج کے حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پس دیوار جو لوگ بیٹھے ہیں یہ ساری گیم کہیں ان کی تو نہیں ہے؟
انور بیگ: اِس ضمن میں کچھ نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی میرے پاس اِس بارے میں کوئی ٹھوس معلومات ہیں۔

ایکسپریس:کیا آپ کی سیاسی بصیرت کو اِس پرشک بھی نہیں گزرتا؟
انور بیگ: دیکھیں شک تو بہت گزرتے ہیں لیکن جب تک آپ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہو کسی کے متعلق منہ بھر کے بات کہنا درست نہیں ہوتا لیکن میری بصیرت اِس پر یقین کرتی ہے کہ قادری صاحب کا پاکستان آنا مکمل طور پر ''اسپانسرڈ'' ہے۔ اب اِس میں کون سے لوگ اور کون سی طاقتیں ملوث ہیں مجھے ان کا علم ہرگز نہیں، اگر میں کسی خفیہ ایجنسی میں ہوتا تو آپ کو ضرور بتاتا۔

ایکسپریس: بیگ صاحب، اگر ڈاکٹر صاحب دوہری شہریت کے مالک ہیں تو وہ پاکستان کے شہری بھی تو ہیں!
انور بیگ: نہیں نہیں ایساہرگز نہیں ہے، یہ تو حکومت پاکستان نے ایک چھوٹ دے رکھی ہے تاکہ غیرممالک میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستان آنے کے لیے ویزا کی ضرورت نہ پڑے۔ یہ صرف ایک آسانی ہے۔
جب قادری صاحب نے کینیڈا کی شہریت کا حلف اٹھا لیا ہے تو پھر یہاں کی شہریت تو ثانوی حیثیت اختیارکرجاتی ہے بلکہ بے معنی ہو جاتی ہے۔
ایکسپریس: بہ حیثیت ایک سیاست دان آپ کو نئے انتخابات کے بعد پاکستان میں صورت حال بدلتی ہوئی نظر آرہی ہے؟
انور بیگ:مجھے تو مکمل طور پر بدلتی ہوئی صورت حال نظر آ رہی ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) اللہ کی مہربانی سے وفاق میں حکومت بنائے گی۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ ہماری جماعت میں خاص طور پر معیشت کے حوالہ سے بھرپور قابلیت موجود ہے، ملک کا آج سب سے بڑا مسئلہ معاشی بدحالی اور توانائی کا بحران ہے۔ اگر یہاں توانائی کا بحران حل ہو جاتا ہے تو معیشت خود بخود درست ہونے لگے گی۔ اِس کے بعد تیسرا بڑا مسئلہ امن و امان کا ہے، خاص طور پر میں امن و عامہ کے حوالے سے کراچی کا ذکر ضرور کروں گا۔ اگر ہم وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تو ہماری اولین ترجیح کراچی کا امن ہو گا، ملک کا 65 فی صد ریونیو اِس شہر سے آتا ہے۔

ایکسپریس: توانائی کا بحران کیسے اور کتنے عرصے میں آپ لوگ حل کر لیں گے؟
انور بیگ: بڑھکیں مارنے کا کوئی فائدہ نہیں، کم از کم دو سال لگ جائیں گے، موجودہ حکومت نے توانائی کے شعبے کا جو حال کر دیا ہے اس کو درست کرنے کے لیے دن رات محنت کریں تو کم از کم دو سال لگ ہی جائیں گے تب جا کر لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے جان چھوڑے گی۔

ایکسپریس: مگر کیسے؟ کیا طریقہ کار اختیار کریں گے آپ؟
انور بیگ: جب حکومت پر لوگوں کا اعتماد قائم ہو جاتا ہے تو وہ دو کیا تین سال بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کر لیں گے۔ جب عوام دیکھتے ہیں کہ کام درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے تو ان کے اندر امید پیدا ہو جاتی ہے جو صبر کا باعث بنتی ہے۔ موجودہ حکومت نے توانائی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے ماضی میں اتنے جھوٹ بولے کہ قوم کا اعتماد ہی ختم کرکے رکھ دیا۔ توانائی کے حوالے سے جتنی کرپشن گزشتہ 5 سالوں میں ہو چکی وہ ہماری ملکی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، رینٹل پاور مقدمات اب تک چل رہے ہیں، جن کو پوری قوم دیکھ رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے آنے والے دنوں سے متعلق تمام ترجیحات طے کر لی ہیں کیوں کہ ہمیں علم ہے کہ اِس کے بغیر ہم ایک دن بھی حکومت نہیں کر سکیں گے۔

ایکسپریس:کراچی میں امن و عامہ کے حوالے سے آپ نے ابھی ذکر کیا، متحدہ قومی موومنٹ کی موجودگی میںکیا آپ اپنی مرضی کر سکیں گے؟
انور بیگ: ایم کیو ایم کی موجودگی میں کراچی کے امن کو بحال کرنا بالکل ممکن ہے، مجھے مکمل یقین ہے کہ ایم کیو ایم خود بھی یہ چاہتی ہے کہ کراچی پرامن ہو، ان کا ووٹ بینک کراچی میں ہے۔ اگر کراچی ڈسٹرب ہو گا،کراچی کے شہری اسی طرح مرتے رہیں گے تو وہاں کے لوگوں کا اعتماد آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا، مرنے والوں میں ایم کیو ایم کے ووٹر ، لیڈر بلکہ رکن اسمبلی بھی شامل ہیں، میرے خیال میں آنے والے دنوں میں ایم کیو ایم کے ساتھ بیٹھ کر اِس مسئلے کا پائیدار حل ہم سب کو ڈھونڈنا پڑے گا۔

ایکسپریس: آپ ایم کیو ایم کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہو جائیں گے؟
انور بیگ:کیوں نہیں، ہم ان کے ساتھ ضرور بیٹھیں گے، صرف بات چیت ہی نہیں کریں گے بلکہ آگے بھی بڑھیں گے۔ یاد رکھیں یہ ہم سب کا ملک ہے اور کراچی ہمارا ''اکنامک حب'' ہے۔ دوسری بات آپ ایم کیو ایم سے لاکھ سیاسی مخالفت رکھیں مگر یہ مت بھولیں کہ وہ ایک سیاسی شناخت رکھنے والی پارٹی ہے، ہمیں ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا پڑے گی اور ہم انشاء اللہ ایسا کریں گے اور حل بھی نکالیں گے، میری نظر میں کراچی کا مسئلہ سیاسی سے زیادہ بھتہ خوری کے دھڑوں میں بٹ چکا ہے اِن کو اب روکنا ہوگا ،میں اِس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔

ایکسپریس:آپ نے ایم کیو ایم کے حوالے سے جو بات کی وہ خوش آئند ہے مگر سندھ کے قوم پرستوں کا کیا ہوگا؟ ان کو سیاسی دھارے میں کیسے لائیں گے؟
انور بیگ: سندھی قوم پرست لیڈر اِس وقت اپنی مقامی (رورل) سیاست کر رہے ہیں جب کہ سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم سیاسی افق پر نظر آ رہی ہے، اِس میں تو کوئی اختلاف نہیں کراچی، حیدر آباد، سکھر میں ایم کیو ایم بہت مضبوط ہے۔ سندھی قوم پرست جو سیاست کر رہے ہیں اس میں ان کا مدمقابل دھڑا پاکستان پیپلزپارٹی ہی بنتا ہے، اندرون سندھ قوم پرست لیڈر جو موقف لے کر آگے بڑھ رہے ہیں اگر وہاں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ درست ہیں تو ووٹ بھی ان کو ہی پڑے گا، مسلم لیگ نواز کے امیدوار بھی وہاں پر کھڑے ہوں گے، اگر سندھیوں کو ان پر اعتماد ہو گا تو ووٹ ان کو دیا جائے گا۔
بدقسمتی سے سندھ کی موجودہ حکومت نے سندھ میں جو تباہی مچائی ہوئی ہے اُس نے سندھی قوم پرستوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، اب میں پاکستان پیپلز پارٹی میں نہیں ہوں لیکن مجھے اب تک وہاں سے موبائل فون اور دیگر ذرائع سے پیغام آ رہے ہیں کہ ہمیں نوکریں چاہئیں، ہم نوکریوں کے لیے کم از کم تین لاکھ روپے کی رشوت کہاں سے دیں؟ اندرون سندھ میں اِس حوالے سے بہت مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے اِس طرز عمل کا ردعمل تو سامنے آئے گا۔ اگر پیپلزپارٹی کو ووٹ نہیں پڑے گا تو کسی دوسری جماعت کو ووٹ تو پڑے گا۔ وہاں پیپلز پارٹی کے متبادل ہم ہیں، پیر پگاڑا صاحب کی جماعت ہے ،دوسرے دھڑے ہیں، آپ دیکھ لیں گے کہ اِس دفعہ اندرون سندھ سے انتخابی نتائج حیرت انگیز اور نہایت دل چسپ ہوں گے۔
ایکسپریس: بہ حیثیت سیاسی راہ نما جب آپ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کسی بڑی عالمی گیم کا حصہ بن چکا ہے ،تو قارئین، سامعین اور ناظرین کے ذہنوں میں سوال اٹھنے لگتے ہیں کہ آخر پردے کے پیچھے ہے کیا؟ ہمارے قارئین کی وضاحت کے لیے ذرا آسان لفظوں میں کچھ کہیں گے؟

انور بیگ: پاکستان کی ''ڈی اسٹیبلائزیشن''۔ یاد رکھیں، پاکستان واحد مسلم ایٹمی طاقت ہے، آپ کو علم نہیں کہ غیر مسلم صرف اس ایک وجہ سے ہمارے کتنے خلاف ہو چکے ہیں، ہمارے جو بہ ظاہر دوست ہیں، وہ ہمارے دوست نہیں۔ دو ماہ بعد الیکشن ہونے والے ہیں کوئی ڈاکٹر صاحب سے پوچھے کہ صرف دو ماہ قبل اتنی ہل چل مچانے کی آخر ضرورت کیا تھی؟ آپ پہلے کہاں تھے؟ اس وقت بھی حالات آئیڈیل نہیں تھے اُس وقت بھی ریاست کو اتنا ہی خطرہ تھا جتنا آج ہے، جب آپ الیکشن نہ لڑنے کی بات کرتے ہیں تو پھر آپ چاہتے کیا ہیں؟صرف اتنا کہوں گا کہ ڈاکٹر صاحب کسی بہت بڑی گیم کا حصہ بن رہے ہیں یا بن چکے ہیں یہ گیم مجھے مقامی ہرگز نہیں لگتی بل کہ عالمی سطح پر اِس کے تانے بانے محسوس ہونے لگے ہیں۔
ایکسپریس:آپ نے جس عالمی گیم کی بات کی اُس حوالے سے کیا یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ 2014 میں افغانستان سے نیٹو افواج نکلنے والی ہیں۔ اس کے بعد افغانستان سمیت خطے کی کیا صورت حال ہو گی اس کا کسی کو کوئی واضح علم نہیں۔ کیا ایسا تو نہیںکہ ایک کم زور پاکستان عالمی قوتوں کو درکار ہو، جو افغانستان میں اپنے کردار کی ڈیمانڈ ہی نہ کر سکے۔

انور بیگ: نہیں، یہ قیاس درست نہیں۔ اگر وہ یہاں سے جا رہے ہیں تو ان کو تو یہاں ایک مضبوط حکومت اور مضبوط پاکستان کی ضرورت ہو گی، جو دہشت گرد عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے اگر یہاں کم زور حکومت ہو گی، پاکستان کی معیشت کم زور ہو گی تو بنیاد پرست حاوی ہو جائیں گے، پھر افواج کا یہاں سے نکلنا ہی مشکل ہو جائے گا۔ دیکھیں ان کے سازو سامان کی واپسی تو پاکستان سے ہی ممکن ہے۔
ایکسپریس: اگر اسی بات کو یوں کہا جائے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان نئے سرے سے استوار ہونے والے تعلقات کو بہت سے عناصر نے کو پسند نہیں کیا وہ پاکستان کو کم زور کرنے پر تو تلے نہیں ہوئے؟
انور بیگ: یہ ممکن ہے لیکن پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے حق میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا موقف سب سے واضح ہے۔ میاں صاحب بھارت سے بہتر تعلقات کے سب سے بڑے حامی ہیں، بھارت ہمارا ہم سایہ ہے اور ہر لحاظ سے ہم سے بڑا ہے۔ آبادی، رقبہ، فوج، معیشت اور دیگر شعبہ جات کا یہاں حوالہ دیا جا سکتاہے۔

مجھے شرمندگی ہوتی ہے یہ بات کہتے ہوئے کہ ہم بھکاری بن چکے ہیں، وہ بھکاری نہیں ہیں، وہ ہم سے لاکھ درجہ بہتر معیشت کے حامل ہو گئے ہیں۔ آپ وہاں جائیں اور دیکھیں کہ ان کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی، وہاں آپ کو تاجر ہی تاجر ملیں گے، صبح دوپہر شام وہاں پر تجارتی معاہدے ہو رہے ہوتے ہیں۔ لوگ آپ کو اپنے لیپ ٹاپ اور کیلکولیٹرز لیے گھومتے ہوئے نظر آئیں گے، سچ یہ بھی ہے کہ ہم ان سے لڑ نہیں سکتے اور نہ ہی ہم لڑنا چاہتے ہیں۔ ہمیں تو انھیں ایک امن پسند ہمسایے میں بدلنے کے لیے کام کرنا ہے۔ دنیا میں ملک کیا، گھر کی مثال لے لیں اگر آپ کے محلے میں، ہمسایے میں، امن نہیں ہوگا تو آپ کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ آپ یہ سب کچھ کتنی دیر افورڈ کریں گے۔ یہ دور جنگوں کا نہیں بل کہ معاشی جنگ کا دور ہے۔

اگر یورپ جنگ عظیم کے بعد آپس میں مل کر رہ سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ہم بھی رہ سکتے ہیں صرف دلوں سے کھوٹ گنوانا ہوگا۔ اگر وہ بھی امن کے ساتھ زندگی گزاریں، ہم بھی سکون کے ساتھ رہیں اِس میں کسی کا کیا نقصان ہوگا؟بھارت کے بھی یہی مسائل ہیں مگر ہمارے تو ان سے کہیں زیادہ ہیں۔ میرے خیال میں بھارت کے ساتھ تجارت ہونی چاہیے اور ہمیں اچھے ہمسائیوں کی طرح رہنا چاہیے۔ رہا کشمیر کا مسئلہ تو اُس کو بھی پرامن طریقے کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ہی حل کرنا پڑے گا۔

کشمیر کے مسئلے کا حل بندوق ہرگز نہیں، کیوں کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اگر بندوق اٹھائی جائے گی تو پھر یہ خطہ بہت بڑی تباہی سے دوچار ہو جائے گا۔ ہم دونوںکو عالمی برادری میں اپنا کردارادا کرنا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم دونوں یہ کردار ادا نہیں کر رہے۔ عالمی برادری کی دل چسپی اِس وقت بھارت میں زیادہ اِس لیے ہے کہ انھوں نے معاشی استحکام حاصل کرنے کے لیے پائیدار اقدام کیے ہیں جب کہ ہم اس کے برعکس چل رہے ہیں اس لیے ہم عالمی برادری کی نظروں میں دن بہ دن مشکوک ہو رہے ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے معاشی سطح پر مضبوط ہونا ہوگا۔ عالمی برادری کو دکھانا ہوگا کہ ہم خود کفیل ہو چکے ہیں پھر وہ ہماری بات سنے گی ورنہ تو ہم بھکاری ہی تصور ہوں گے۔

ایکسپریس: بیگ صاحب ہماری فوج نے جو حال ہی میں سرحدوں سے متعلق حکمت عملی بدلی ہے، کیا آپ اِس کو درست تصور کرتے ہیں؟
انور بیگ: دیکھیں افغانستان میں مسائل تو ہیں اِس سے انکار نہیں کیاجا سکتا، سرحد سے آر پار ہونے والی دہشت گردی سے ہزاروں کی تعداد میں جانیں ضایع ہو چکی ہیں، ہماری افواج، سکیورٹی فورسز اور دیگر اداروں کے لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں اور نہ جانے کب تک دیتے رہیں گے، سول سوسائٹی کے لوگ مارے جارہے ہیں، پاکستان کا مشرقی بارڈر جو ہمارا روایتی بارڈر تھا اس پر تو کبھی کبھار ہی کشیدگی ہوتی ہے جیسے آج کل ہو رہی ہے۔ امید ہے اس کا بھی حل نکل آئے گا مگر افغانستان کا بارڈر تو گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل کشیدگی کا شکار ہے۔ اِس بارڈر پر کبھی ہمارے دوست کھڑے ہوتے تھے مگر اب وہاں ہمارے دشمن کھڑے نظر آتے ہیں، دوسری طرف جہاں ہمارے جانی دشمن تھے وہاں پر امن کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے بات چیت ہو رہی ہے۔ کیا اس تبدیلی کو ہم سب محسوس نہیں کر رہے ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اگر فوج نے اپنی ڈاکٹرائن (نظریہ) بدلی ہے تو میرے خیال میں حقیقی عوامل کو سامنے رکھ کر ہی انھوں نے ایسا کیا ہوگا۔

ایکسپریس: دہشت گردی کا جن بوتل میں بند ہو سکے گا؟ کیا آپ کی حکومت اِس پر قابو پا لے گی؟
انور بیگ: میں ایمان داری سے کہوںگا کہ میں دہشت گردی کے شعبہ کا ماہر نہیں ہوں لیکن میں نے عالمی سطح پر جو دیکھا ہے وہ ضرور بیان کروں گا۔ دہشت گردی دنیا کے دیگر ممالک میں بھی طویل عرصہ تک رہی ہے۔ جب وہ اس ایشو پر قابو پا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں پا سکتے۔ اصولی طور پر تو اِس مسئلے کو ہمیں بھی حل کر لینا چاہیے اگر ہماری نیتیں درست ہوں گی اور ہم ''انڈر دی ٹیبل'' کچھ نہیں کریں گے تو اس وقت ہی اِس مسئلے کو حل کیا جا سکے گا، اگر ہمارے معیار دوہرے ہوں گے تو ہم اِس تکلیف سے کبھی باہر نہیں نکل سکیں گے۔ اِس جن کو قابو میں لانے کے لیے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی، اپنی نیتوں اور اپنی سوچوں سے دوہرے معیار باہر نکالنے ہوں گے، میاں نواز شریف اِس مسئلے پر بہت حد تک کلیئر ہو چکے ہیں کیوں کہ اسی دہشت گردی نے ہماری زندگیوں کو مشکل بنا دیا ہے۔ ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری یہاں سے واپس جا چکی ہے، نئے لوگ یہاں آنے کے لیے تیار نہیں، یہاں تک کہ ہمارے مقامی سرمایہ کار باہر بھاگنے لگے ہیں۔

ایکسپریس: پھرکس سطح پر نیتوں کا فتور درست ہونا چاہیے؟
انور بیگ: ایک مضبوط سیاسی حکومت، فوج اور ہماری خفیہ ایجنسیوں کی سطح پر ایک ہی موقف ہو گا تو یہ مسئلہ حل ہو گا۔ اِن تینوں شراکت داروں کے مربوط تعاون اور ہم آہنگی سے ہی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے۔

ایکسپریس:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ دور میں یہ کام نہیں ہو سکا؟
انور بیگ: مشرف دور اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اِس نہج پر بالکل کام نہیں ہوا یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ پی پی پی کی حکومت کام کر سکتی تھی مگر انھوں نے ہر چیز کو ملٹری پر چھوڑ دیا، بھئی ملٹری کا ایک اپنا کام ہے، انھیں وہی کام کرنے دیا جائے، یہ کام تو حکومتوں کے ہوتے ہیں کہ وہ سیاسی سطح پر بات چیت کے ذریعے راستہ نکالیں، اِس کام کے لیے جس پولیٹیکل وزڈم (سیاسی بصیرت) کی ضرورت ہوتی ہے، اِس حکومت میں وہ مجھے نظر نہیں آئی یہ پوری قوم کی بدقسمتی ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہو گئیں، ان کو آج سے کئی سال پہلے اس بات کا بھرپور احساس تھا جو آج میں یہاں کہہ رہا ہوں۔

ایکسپریس: اگر یہ قومی سطح پر بدقسمتی ہے تو اِس میں عوام کا بھی کوئی قصور دکھائی دیتا ہے، عوام کو کیا پیغام دیں گے؟
انور بیگ: ہمارے عوام میں بہت پوٹینشل ہے، میں اپنے عوام سے درخواست کروں گا کہ نئے الیکشن آنے والے ہیں وہ سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالنے کی تیاری کریں، جو امیدوار انھیں مناسب دکھائی دے اُس کو ووٹ ڈالیں۔ قوم، برادریوں سے بالاتر ہو کر اپنے اور ملک کے مستقبل کے لیے سوچے، گزشتہ 5 سالوں کا تجزیہ کرکے اپنے لیے نیا لائحہ عمل تیار کرے۔ پانچ سال پہلے ہم کہاں تھے؟ اب کہاں ہیں؟ پوری ایمان داری سے موازنہ کریں، کرپشن، بیڈگورننس، توانائی بحران، بے روزگاری، مہنگائی میں اضافے یا کمی کا موازنہ کیا جائے... اور جب آپ اپنے ذہن کو تیار کر لیں تو پھر الیکشن والے دن گھر مت بیٹھیں، ووٹ ڈالنے کے لیے باہرضرور نکلیں، اگر آپ گھر بیٹھے رہیں گے تو ملک کے حق میں ہر گز بہتر نہیں ہوگا،یہی میرا پیغام ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ (ن) کا سفر

4 اگست 2011 کو پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر انوربیگ کی پارٹی رکنیت اِس وجہ سے معطل کر دی گئی تھی کہ وہ اجازت کے بغیر میاں نواز شریف سے رائے ونڈ میں ملاقات کرنے کی جسارت کر بیٹھے تھے۔ سینیٹر نیّر بخاری نے جو اِس وقت سینیٹ کے چیئرمین بھی ہیں، پیپلزپارٹی اسلام آباد کے صدر کی حیثیت سے انور بیگ کو معطل کیا تھا، انوربیگ 3 اگست 2011 کو لاہور میں میاں نواز شریف سے ملاقات کر چکے تھے جس کی خبریں میڈیا کی زینت بن چکی تھیں، 4 اگست 2011 کو انور بیگ نے ذرائع ابلاغ کے نام اپنے پیغام میں کوئی جواز پیش کرنے کی بجائے اپنے استعفیٰ کی نقل ارسال کر دی۔

انھوں نے پارٹی رکنیت سے استعفیٰ پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر کو بھجوایا تھا، جس میں انور بیگ نے لکھا تھا کہ وہ اپنی رکنیت معطل ہونے کے خط پر وضاحت دینا پسند نہیں کرتے اور پارٹی سے فوری طور پر الگ ہو رہے ہیں۔ اِس سے قبل 9 مارچ 2009 کو سینیٹر انور بیگ نے پاکستان پیپلز پارٹی کی خارجہ امور کی رابطہ کمیٹی کی سربراہی سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا تاہم انھوں نے استعفے کی وجوہات نہیں بتائی تھیں مگر اتنا ضرور کہا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی میں ان کا جتنا کردار تھا وہ ادا کر چکے۔

ان دنوں یہ بات عام ہوئی تھی کہ انور بیگ نے شریف برادران کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ شریف برادران کی انتخابی نا اہلی اور پنجاب حکومت کے خاتمے کے بعد کی، سیاسی صورت حال کے باعث پارٹی قیادت میں بے چینی ہے اور خدشہ ظاہر کیاجا رہا ہے کہ موجودہ صورت حال کی وجہ سے کسی تیسری طاقت کی مداخلت کی راہ ہم وار ہو رہی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پارٹی (پی پی پی) کی اعلیٰ قیادت کچھ نہ کچھ سوچ کر ہی سیاسی فیصلے کر رہی ہو گی مگر موجودہ زمینی حقائق سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ ہم محاذ آرائی کی جانب جا رہے ہیں۔

پاکستان کے آئین کا آرٹیکل۔6 کیا ہے!
سنگین غداری

-(1 کوئی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت سے یا دیگر غیر آئینی ذریعے سے دستور کی تنسیخ کرے یا تنسیخ کرنے کی سعی یا سازش کرے، تخریب کرنے یا تخریب کرنے کی سعی یا سازش کرے وہ سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔

-(2 کوئی شخص جو شق نمبر1 میں مذکورہ افعال میں مدد یا معاونت کرے گا، اسی طرح سنگین غداری کا مجرم ہوگا۔

-(3 مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) بذریعہ قانون ایسے اشخاص کے لیے سزا مقرر کرے گی جنہیں سنگین غداری کا مجرم قرار دیا گیا ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں