شاعری کے شہزادے خواجہ پرویز
خواجہ پرویز نے حبیب کی فرمائش پر گیت لکھا
کچھ لوگ اپنی زندگی امن اور محبت کا درس دیتے ہوئے گزار دیتے ہیں، آج میں شاعری کے ایوان کے شہزادے خواجہ پرویز پر اپنے ناتواں قلم کو اٹھا رہا ہوں۔ بحیثیت شاعر وہ فلمی صنعت کا بڑا مستند نام تھے۔ وہ 1932 میں بھارت کے شہر امرتسر کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور آگئے۔
1954 میں دیال سنگھ کالج سے بی اے کیا، پھر اردو ادب میں ایم کیا۔ راقم سے ان کا بہت محبت کا رشتہ تھا، انھوں نے ہمیشہ نوجوانوں کو تعمیری اور مثبت سوچ پیدا کرنے کا درس دیا۔ جب بھی لاہور جانا ہوتا اپنی صحافتی ذمے داری کے حوالے سے تو ان سے ضرور ملاقات ہوتی۔ اکثر وہ فلمی صنعت کی تاریخ پر ضرور باتیں کرتے جس سے میرے علم میں اضافہ ہوتا۔ ان کے کالج فیلو اور گہرے دوست ظفر اقبال جن کے والد ولی صاحب کا تعلق آگرے سے تھا، وہ فلمی صنعت میں فلم ساز اور ہدایت کار تھے، خواجہ پرویز نے ان کے توسط سے فلم انڈسٹری جوائن کی۔
ولی صاحب نے تین پنجابی فلمیں بنائیں، ایک فلم ''غریب کا دل'' اردو میں بنانے کی تیاری کر رہے تھے اور اس میں وہ آشا پوشلے (بھارتی نہیں) کو ہیروئن لینا چاہتے تھے۔ آشا پوشلے پاکستان کی پہلی فلم ''تیری یاد'' کی ہیروئن تھیں اور اپنے وقت کی سپرہٹ ہیروئن اور بہترین گلوکارہ تھیں۔ راقم کی جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو وہ اس وقت غالباً 70 برس کی تھیں، بڑی زندہ دل خاتون تھیں۔ خواجہ پرویز کو بحیثیت شاعر بہت پسند کرتی تھیں۔ ''غریب کا دل'' فلم نہ بن سکی اور ولی صاحب نے فلم انڈسٹری کو خیرباد کہہ دیا۔ ان کے جانے کے بعد خواجہ پرویز معروف شاعر سیف الدین سیف مرحوم کے ساتھ بطور اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے لگے۔
کچھ عرصہ بعد وہ مصنف و ہدایت کار اور فلم ساز شباب کیرانوی مرحوم کے ادارے شباب فلمز سے وابستہ ہوگئے۔ خواجہ پرویز بتاتے تھے کہ میں نے شباب کیرانوی جیسا باصلاحیت انسان نہیں دیکھا۔ انھوں نے شباب صاحب کی فلم کے لیے گیت لکھا جس کے بول تھے ''سن لے او جان وفا'' جسے احمد رشدی نے گایا تھا۔ یہ گیت اتنا سپرہٹ ہوا کہ نوجوانوں کی دل کی دھڑکن بن گیا اور سارا دن ریڈیو پاکستان اس گیت کو نشر کرتا تھا۔ ابھی یہ گیت لبوں سے ختم نہیں ہوا تھا کہ خواجہ پرویز نے فلم ''دور'' کے لیے گیت لکھا جس کے بول تھے ''سامنے آ کے تجھے پکارا نہیں، تیری رسوائی مجھ کو گواہ نہیں'' یہ گیت مہدی حسن نے گایا تھا۔
خواجہ پرویز بتاتے تھے کہ جب فلم ''انوارہ'' کا آغاز ہوا جس کے موسیقار طافو تھے تو میرے پاس اداکار حبیب آئے جو بہت سلجھے ہوئے اور تعلیم یافتہ شخص تھے، انھوں نے مجھ سے درخواست کی کہ خواجہ بھائی اتنا خوبصورت گیت لکھیں کہ فلم میں چار چاند لگ جائیں۔ فلم کی ہیروئن نغمہ تھیں اور حبیب نغمہ کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔
خواجہ پرویز نے حبیب کی فرمائش پر گیت لکھا، گیت کے بول تھے ''سن وے بلوری اکھ والیا'' یہ گیت اپنے وقت کا خوبصورت گیت تھا اور اسی گیت کی وجہ سے دو تبدیلیاں آئیں، ایک تو نغمہ پاکستان کی سپرہٹ ہیروئن ہوئیں، دوسری تبدیلی یہ تھی کہ اس فلم کی ریلیز کے بعد نغمہ اور حبیب نے شادی کرلی۔ خواجہ صاحب نے بتایا کہ ایک بہت ہی خوبرو لڑکے سے موسیقار نذیر علی نے میری ملاقات کروائی کہ خواجہ جی ان سے ملیے یہ نئی آنے والی فلم ''آنسو'' میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں اور ان کا نام شاہد حمید ہے۔
یہ شاہد کی پہلی فلم تھی جو انھوں نے ندیم کے ساتھ کی تھی۔ اس فلم کا یہ گیت بہت مقبول ہوا جسے مسعود رانا اور نورجہاں نے گایا تھا، گیت کے بول تھے ''تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں، جیسے صدیاں بیت گئیں''۔ قسمت کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ یہ کسی کسی پر مہربان ہوتی ہے، شاہد کے علاوہ ایک نیا چہرہ ارسلان بھی اس فلم میں متعارف ہوا تھا جو کامیاب نہ ہوسکا، جب کہ شاہد بعد میں سپراسٹار بنے۔
انھوں نے ایک واقعہ اداکار رحمان کے حوالے سے بتایا کہ وہ مشرقی پاکستان کے معروف ہیرو تھے اور ایک حادثے میں ان کی ایک ٹانگ ضایع ہوگئی، جس کے بعد فلم سازوں نے ان سے منہ موڑ لیا، میرے ان سے بہت دیرینہ تعلقات تھے۔ میں نے انھیں پاکستان آنے کی دعوت دی اور یوں وہ پاکستان چلے آئے۔ یہاں میرے کہنے سے انھوں نے فلم ''چاہت'' کا آغاز کیا جس کے لیے میں نے انھیں اداکارہ ممتاز کو کاسٹ کرنے کے لیے کہا، کیوں کہ اداکارہ ممتاز کی اردو بہت اچھی تھی جب کہ وہ پنجابی فلموں کی سپرہٹ ہیروئن تھیں، مگر ان کی اردو اس لیے اچھی تھی کہ ان کے والدین کا تعلق بھارت کے شہر آگرہ سے تھا۔
اداکار رحمان میری بہت عزت کرتے تھے، انھوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اس فلم میں شبنم کو لینا چاہتا ہوں کیوں کہ وہ بھی بنگالی ہیں اور میری بات کو وہ اچھی طرح سمجھ سکتی ہیں اور یوں فلم ''چاہت'' میں شبنم کو ہیروئن لے لیا گیا۔ اس فلم کا گیت خواجہ پرویز نے لکھا جس کے بول تھے ''پیار بھرے دو شرمیلے نین، ان سے ملا میرے دل کو چین'' اس فلم کی موسیقی آنجہانی روبن گھوش نے دی تھی اور اس گیت کی وجہ سے فلم ''چاہت'' کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اس گیت کو مہدی حسن نے گایا تھا۔
خواجہ پرویز کہتے تھے کہ مجھے محمد علی سے بہت محبت ہے، وہ بہت نفیس انسان تھے، لوگوں کا بہت خیال رکھتے تھے، ایک دن رات 2 بجے میرے گھر آئے، اس زمانے میں سپر اسٹار تھے، ویسے تو وہ آخری دم تک ہی سپر اسٹار رہے۔ انھوں نے کہا کہ فلم ''انجان'' میں آج سائن کرکے آرہا ہوں اور آپ کو اس کا گیت لکھنا ہے جو علاؤالدین بھائی کے ساتھ فلم بند ہوگا اور میں اپنی ذاتی فلم ''زندگی کتنی حسین ہے'' بھی شروع کرنے والا ہوں اس کے گیت بھی آپ لکھیں گے۔
علی کی بات کو میں کیسے ٹال سکتا تھا، میں نے گیت لکھ دیا، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ فلم ''انجان'' کا یہ گیت مجھے اپنے گیتوں میں سب سے زیادہ پسند ہے، گیت کے بول ہیں ''اپنوں نے غم دیے مجھے تو وہ یاد آگیا'' اس گیت کو مہدی حسن نے گایا تھا اور پھر اس گیت کے بعد میری مہدی حسن سے بہت زیادہ دوستی ہوئی۔ خواجہ پرویز نے مزید بتایا کہ مسرت نذیر ماضی کی پاکستان میں سپرہٹ ہیروئن تھیں، انھوں نے اپنے عروج کے دور میں فلم انڈسٹری چھوڑ دی تھی اور ایک ڈاکٹر سے شادی کرلی اور لندن شفٹ ہوگئی تھیں، کافی عرصے کے بعد وہ پاکستان آئیں اور میرے پاس خصوصی طور پر لاہور آئیں اور مجھے ایک گیت لکھنے کے لیے کہا۔
میں نے پوچھا کیا فلم بنا رہی ہیں؟ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا نہیں اپنی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کروانا ہے۔ اب یہاں میرے لیے ایک امتحان تھا کہ یہ تو اداکارہ تھیں اب گیت کیسے ریکارڈ کروائیں گی، خیر پرانے تعلق کی وجہ سے انھیں ایک گیت لکھ کر دے دیا۔ پھر وہ گیت ٹی وی سے آن ایئر ہوا اور کراچی سے لے کر خیبر تک اس گیت نے ٹی وی کے توسط سے دھوم مچادی، گیت کے بول تھے ''میرا لونگ گواچا'' اور یہ گیت بحیثیت گلوکارہ ان کی وجہ شہرت بنا۔
قارئین ایک بات آپ کو اور بتاتے ہیں کہ انھوں نے ایک فلم جس کے ہدایت کار مسعود اختر تھے ''گاما بی اے'' لکھی تھی، جو اپنے وقت کی کامیاب فلم تھی، جس کی طرز پر بھارت میں ''منا بھائی ایم بی بی ایس'' کے نام سے فلم بنی، جس کا مرکزی کردار سنجے دت نے کیا تھا اور سنجے دت نے بھارتی میگزین ''شعلے'' میں اس کا تذکرہ بھی کیا کہ یہ پاکستانی شاعر خواجہ پرویز کی تخلیق تھی، جس پر ہم نے فلم بنائی اور ان کی طرح کامیاب رہے۔
سینئر اور پرانے گلوکاروں نے خواجہ پرویز کا کلام خوب گایا اور خواجہ پرویز کی شاعری کے سمندر میں آج کی نوجوان نسل نے بھی تیراکی کی۔ خواجہ پرویز کا اصلی نام غلام محی الدین تھا، پرویز ان کا تخلص تھا، ان کے چھ بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں، وہ 80 برس کی عمر میں اپنے پرستاروں کو 20 جون 2011 کو روتا دھوتا چھوڑ گئے۔