فیس بُک پر اظہار خیال کی سزا 35 برس قید بامشقت

مختصر سی عدالتی کارروائی کے بعد اسے اس بھیانک جُرم کی پاداش میں ابتداً 70 برس قید کی سزا سنائی گئی۔


مختصر سی عدالتی کارروائی کے بعد اسے اس بھیانک جُرم کی پاداش میں ابتداً 70 برس قید کی سزا سنائی گئی۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں عوام کو سوشل میڈیا پر اظہار خیال کی مکمل آزادی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بُک، ٹویٹر اور دوسری سوشل میڈیا ویب سائٹس پر لوگ بلا جھجک اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔

سیاسی وابستگی رکھنے والے شہری اپنے پسندیدہ لیڈروں کی حمایت اور مخالفین پر دل کھول کر تنقید کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ اسی لیے فیس بُک پر حکمرانوں کے خلاف روزانہ متعدد پوسٹس ہوتی ہیں، مگر حکومت یہ پوسٹس کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔ تاہم ہر ملک میں شہریوں کو آزادی اظہار حاصل نہیں۔ ان ممالک میں حکمرانوں پر تنقید کی جرأت کرنے والوں کو سزا بھگتنی پڑتی ہے۔

آزادی اظہار پر قدغن لگانے والے ممالک میں تھائی لینڈ بھی شامل ہے۔ گذشتہ دنوں یہاں ایک شخص کو 35 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے حکمران شاہی خاندان کی خلاف فیس بُک کو اظہار رائے کا ذریعہ بنا لیا تھا۔ اس کے خیالات کو شاہی خاندان کی ہتک تصور کرتے ہوئے ' مجرم' کو گرفتار کرلیا گیا۔ مختصر سی عدالتی کارروائی کے بعد اسے اس بھیانک جُرم کی پاداش میں ابتداً 70 برس قید کی سزا سنائی گئی۔ پھر جب مجرم نے اپنا 'جُرم' تسلیم کرتے ہوئے رحم کی التجا کی تو سزا نصف کردی گئی۔

سوشل میڈیا پر حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بنانے پر دنیا بھر میں دی گئی یہ سب سے بڑی سزا ہے۔ طویل ترین سزا کا سابقہ ریکارڈ بھی تھائی لینڈ کے پاس ہے۔ 2015ء میں ایک شخص کو اسی جُرم کا ارتکاب کرنے پر 30 سال کی قید سنائی گئی تھی۔

2014ء سے تھائی لینڈ میں فوج کی حکومت ہے۔ اُس برس جنرل پرایوت چان اوچا کی سربراہی میں شاہی فوج نے نگراں حکومت کا خاتمہ کرکے ملک کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ بعدازاں جنرل پرایوت چان اوچا نے وزیراعظم کا منصب بھی سنبھال لیا تھا۔ فوجی حکومت نے شاہی خاندان پر کسی بھی طرح کی تنقید کو جرم قرار دیتے ہوئے اس کی سزا تین سے پندرہ سال مقرر کی تھی۔ اس قانون کو تھائی ناقدین ' سیاہ قانون' قرار دیتے ہیں جس کا مقصد مخالفین کی آواز کو دبانا ہے۔

فوج کے برسراقتدار آنے کے بعد ہتک عزت کے مقدموں اور فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ شاہی خاندان اور فوج سے نالاں تھائی شہری اکثروبیشتر جذبات کے اظہار کے لیے فیس بُک کا سہارا لیتے ہیں۔ چونتیس سالہ وچائی تھیپ وونگ نے بھی دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے اسی ذریعے کا انتخاب کیا تھا۔ 2015ء میں اس نے ایک فیس بُک پوسٹ میں شاہی خاندان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کچھ عرصے بعد اسے چیانگ مائی کے شہر سے حراست میں لے لیا گیا۔ اسی وقت سے وہ دارالحکومت بنکاک کی جیل میں تھا۔ فوجی عدالت میں اس کے مقدمے کی کارروائی چند ماہ تک جاری رہی۔ بالاخر اسے پہلے 70 اور پھر 35 کی سزا سنائی گئی۔

وچائی کے وکیل کے مطابق انھوں نے اس فیصلے کے خلاف اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے بجائے شاہی خاندان سے معافی کی التجا کی جائے گی۔

حکمرانوں کی ہتک عزت کے خلاف قانون تھائی لینڈ میں سب سے زیادہ سخت ہے جس پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی جانب سے تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔ رواں برس فروری میں اقوام متحدہ نے اسے بین الاقوامی انسانی حقوق سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک جمہوری ملک میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ جواباً فوجی حکومت نے اس قانون کو شاہی خاندان کی حفاظت اور قومی سلامتی کے لیے ناگزیر قرار دیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں