ضمیر فروشوں کی زبردست سیل
اب ضمیر فروشی کرتے ہوئے کسی کوکوئی حیا بھی نہیں آتی۔
یہ 2002ء کی بات ہے، ملک پر فوجی انقلاب کی نتیجے میں ایک آمرکی حکومت تھی۔اپنے دوراقتدارکو قانونی جواز بخشنے کے لیے اُس آمرکوکچھ موقعہ شناس مفاد پرست سیاسی مہروں کی ضرورت تھی۔اِس غرض سے اُس نے مختلف سیاسی جماعتوں کی ایسے کمزور دل اور کم ہمت افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیاجو یہ سمجھتے تھے کہ جنرل پرویز مشرف کو اب اگلے دس سالوں تک کوئی ہٹا نہیں سکتا اور وہی بلا روک ٹوک اِس ملک کے سیاہ وسفید کے مالک ومختار ہیں۔لہذا سیاست میں خود کو زندہ اور متحرک رکھنے کیلیے یہ تمام لوگ مسلم لیگ (ق) کی چھتری تلے یکجا ہوگئے۔
یہ سارے لوگ وہ تھے جن کے نظریات اور خیالات گرچہ ایک دوسرے سے ہرگز ملتے نہیں تھے لیکن حالات اوروقت کی گردش نے اُنہیں ہم خیال بننے پر مجبورکردیا تھا۔ویسے بھی عالمی افق پر ایک سپر طاقت کی حیثیت سے سویت یونین کے ٹکڑے ہوجانے کے بعد ہمارے یہاں نظریاتی سیاست کا خاتمہ ہوچکا تھا۔
سوشلزم اور کمیونزم یا سرخ اور سبز انقلاب کی باتیں پرانی ہوچکی تھیں۔اب ساری سیاسی پارٹیاں صرف اور صرف مفادات کی سیاست ہی کی اسیر بن چکی تھیں۔اِس لیے پارٹیاں بدلنا یا وفاداریاں تبدیل کرنا کوئی معیوب عمل تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ جنہوں نے اپنی پارٹیوں سے عہد وفاداری نبھائی وہ بے چارے اُس وقت کے حکمرانوں کے ظلم و ستم کا شکار اور قیدو بند کی صعوبتیں اُٹھاتے رہے اور جنہوں نے موقعے کو بھانپتے ہوئے وقت کے حاکموں سے سمجھوتہ کرلیا وہی کامیاب قرار پائے۔وقت اور حالات کی اِس بے رخی اور ستم ظریفی نے کئی مخلص کارکنوں کو مایوس اور نااُمید کردیا اور اب طے یہ پایا ہے کہ طوطاچشمی کے اِس ماحول میں ذہین ودانا اورعقلمند وہی ہوگا جو موقعے کی مناسبت سے اپنے نظریات اور اُصول بدلتا رہے گا۔
پارٹی کی قیادت پر اگرکوئی برا یا مشکل وقت آجائے تو بلاوجہ خود کو اُس کی محبت اور چاہت میں ضایع اورقربان نہ کیا جائے۔اِسی اصول اور ضابطے کے تحت ہمارے یہاں اب بھی پارٹیاں بدلنے کاسلسلہ پوری آب وتاب کے ساتھ جاری ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگاکہ آج کل ہمارے یہاں ایسے مفاد پرست ضمیرفروشوں کی زبردست سیل لگی ہوئی ہے۔
پاکستان تحریک ِانصاف نئی سوچ اور افکار پر مشتمل اِس ملک کی ایسی انقلاب پسند سیاسی جماعت بن کر اور ابھر کر سامنے آئی ہے جو ہمارے اِن تمام مطلب پرست سیاسی کارندوں کے لیے جنت نشاں نئی پناہ گاہ تصورکی جارہی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب تحریک انصاف 1996ء سے 2011ء تک اِس ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بننے کی تگ ودوکررہی تھی مگر کپتان کی کرشماتی اور دل آویزشخصیت بھی اُسے دوچار سیٹوں سے زیادہ کامیاب نہ کر پائی۔بلکہ یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ سوائے خود عمران خان کے کوئی اور اِس پارٹی کے ٹکٹ پر عوام کی حمایت اور پذیرائی حاصل نہ کرپایا۔
پھر ایک وقت ایسا بھی آن پڑا کہ خان صاحب کو قومی اسمبلی کی تمام سیٹوں پر کھڑا کرنے کیلیے پارٹی میں نیک صفات کے حامل صاف و شفاف مناسب اُمیدوار بھی نہ مل پائے، لیکن پھر 2011ء میں اچانک کیاہوگیا، حالات وواقعات نے ایسا پلٹا کھایا اور کچھ طلسماتی ہاتھوں کی برکتوں سے اِس پارٹی کے سر پر ایسے سرخاب کے پر لگ گئے کہ وہ اِس ملک کی تیسری سیاسی قوت بن کر سامنے آگئی۔
دوسری پارٹیوں سے بڑے بڑے برج الٹ کر اِس میں شامل ہوتے چلے گئے۔طے شدہ تمام نظریات اور اُصول بدل گئے۔پارٹی کے پرانے وفادار اورمخلص کارکن پیچھے ہوتے چلے گئے بلکہ غائب ہوکر پس منظر میں چلے گئے اور نئے لوگ جن میں بیشتر کا تعلق ماضی میں کسی نہ کسی دوسری سے سیاسی جماعتوں سے رہا تھا اب ہر محفل اور ہر مجلس میں پارٹی کی قیادت کے شانہ بشانہ سب سے آگے کھڑے دکھائی دینے لگے۔
2011ء کے بعد سے تحریک انصاف نے اپنے دروازے ہر اُس شخص کے لیے کھول رکھے ہیں جسے یا تو اُس کی پارٹی کوئی اہمیت و وقعت دینے پر تیار نہیں یا پھر وہ یہ سمجھتا ہے کہ اُس کی پارٹی میں ا ب کوئی دم خم نہیں رہاکہ وہ اگلا الیکشن جیت پائے۔پہلے جب بھی کوئی شخص سیاسی پارٹی بدلا کرتا تھا تو وہ پارٹی سے اختلاف کی وجہ سوئے ہوئے ضمیر کے جاگنے کو قرار دیتا تھا، لیکن اب شاید اِس کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی ۔ضمیرکیا ہے اور ضمیر کا قیدی کسے کہتے ہیں یہ ساری باتیں اب عہدگم گشتہ کی داستانیں بن چکی ہیں۔
اب ضمیر فروشی کرتے ہوئے کسی کوکوئی حیا بھی نہیں آتی بلکہ وہ خود کو نہایت ہشیار،چالاک اورداناتصورکرتے ہوئے باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے اِس فعل قبیحہ کا اعتراف ببانگِ دہل کررہا ہوتا ہے۔ حیران کن لمحہ یہ ہے خود ایسے منحرف سیاسی کارندے کو اپنی پارٹی میں لینے والی جماعت کو بھی اِس سے کوئی واسطہ یا سروکار نہیں ہوتا کہ اُس نے ماضی میں کتنی کرپشن یا بدعنوانی کی ہے یا وہ کتنا شہرت یافتہ (سرٹیفائڈ) کرپٹ اور بدعنوان شخص ہے۔ خاص کر تحریک انصاف تو اِس معاملے میں بہت ہی لبرل اور آزادنہ طرزفکرکی مالک ہے۔ وہ زمانے لد گئے جب تحریک انصاف صرف پاک صاف، نیک اور اچھے کردار کے لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کیاکرتی تھی۔
لگتا ہے 20 سالہ سیاسی جدوجہد اور تجربے نے عمران خان پر یہ حقیقت اب آشکارکردی ہے کہ جوجتنا بڑا کرپٹ اور بدعنوان ہوگا پارٹی کیلیے اُتنا ہی مفید اور سودمند ثابت ہوگا۔ موجودہ انتخابی سیٹ اپ اور جمہوری نظام میں پارٹی کوچلانے کیلیے پیسوں کی اشد ضرورت ہواکرتی ہے اور یہ پیسہ ایسے ہی لوگوں سے حاصل کیاجاسکتا ہے۔
کوئی شریف النفس اور ایماندار شخص تو ایک کوڑی بھی اپنے پاس سے نہیں لگاسکتا ۔اُس کے تو اپنے جینے کے لالے پڑے ہوتے ہیں۔قطع نظر اِ س کے کہ پارٹی کے نظریاتی اور مخلص کارکن پارٹی قیادت کے اِس طرز عمل سے مایوس اور متنفر ہوتے جارہے ہیں خان صاحب مسلسل اپنی پارٹی کو ایسے مفاد پرست لوگوں سے بھرتے جارہے ہیں۔
صمصام بخاری، راجہ ریاض، فواد چوہدری، غلام مصطفی کھر، ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان کے بعد اب نذرمحمد گوندل اور ڈاکٹر بابر اعوان کو بھی تحریک انصاف شامل ہوتا دیکھ کریہ بات اب بعید از قیاس بھی نہیں رہی جب پیپلز پارٹی کے تمام لوگ کرپشن کی گنگا میں خوب اشنان کرلینے کے بعد احتساب اور سزا سے بچنے اور نئے سرے سے مزید کارنامے سرانجام دینے کیلیے تحریک ِانصاف میں شامل ہوجائیں گے۔
ایسا لگتا ہے خان صاحب ہر کسی سے سمجھوتہ کرسکتے ہیں ماسوائے نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ۔کیونکہ اگر اُنہوں نے اِن دونوں سے بھی سمجھوتہ کرلیا تو پھر سیاست کیلیے اُن کے پاس کیاایشو بچے گا۔ وہ توبلاول زرداری کو بھی اپنانے پرتیار ہیں بشرطیکہ بلاول دوسروں کی طرح اُن کی لیڈرشپ میں کام کرنے پر رضا مند ہوجائیں۔
جوں جوں نئے الیکشن قریب آتے جارہے ہیں دیکھا یہ جارہا ہے کہ سیاسی وفاداریاں بدلنے والوںمیں اچانک تیزی آتی جارہی ہے۔ایسا لگتا ہے پاناما اسکینڈل کے تمام مضر اثرات مسلم لیگ (ن) کی بجائے پیپلز پارٹی پر پڑتے جارہے ہیں اور وہ صوبہ پنجاب سے تقریباً مکمل صاف ہوچکی ہے۔ یہ صورتحال خود پی ٹی آئی کیلیے بھی خوش آئند نہیں ہے۔
سیاست کے پراگندہ مال پرمشتمل چھابڑی لگا کر تحریکِ انصاف کو بھی کچھ حاصل نہ ہوگا بلکہ سو فیصد یہ نقصان ہی کا سودا ہوگا۔ایسے لوگ ذاتی مفادات کے اسیر اورغلام ہواکرتے ہیں۔ اُنہیں کسی سے محبت اور الفت نہیں ہوتی وہ صرف اور صرف اپنی ذاتی اور نفسانی خواہشوں کے پیروکارہوا کرتے ہیں۔جس طرح آج برے وقت میں اُنہوں نے اپنی سابقہ پارٹی کو خیر باد کہہ دیا ہے کل وہ تحریک ِ انصاف کو بھی مشکل اور طوفان میں گھرا دیکھ کر بیچ منجدھار میں اُسے چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہونگے۔ خود غرضانہ سیاست کے یہ اسرارو رموز خان صاحب پر جتنی جلدی منکشف ہوجائیں خود اُن کے لیے بہتر ہوگا۔