دعا کی فضیلت اورآداب

واقعی رب تعالیٰ ہماری پکار کا جواب دیتا ہے اور وہ جواب ہم سنتے بھی ہے مگر دل کے کانوں سے۔


ارشاد باری تعالی ہے: ’’ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے یا بلاتا ہے، میں فورا اُس کی پکار کے جواب میں لبیک فرماتا ہوں۔ اکیلے میں پکارتا ہے تو اس کا جواب اکیلے میں دیتا ہوں اور جماعت میں پکارتا ہے تو اس کا جواب بھی فرشتوں کی جماعت میں ہی دیتا ہوں۔‘‘ ۔ فوٹو : فائل

ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے کہ : '' اے محبوب ( ﷺ) ! جب تم سے میرے پیارے بندے میرے متعلق پوچھیں تو فرما دو کہ میں نزدیک ہی ہوں۔ پکارنے والے کی پکار کا، جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے جواب دیتا ہوں، انہیں بھی چاہیے کہ میری سنیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ ہدایت پاجائیں۔''

شان نزول: اس آیت کریمہ کی شانِ نزول کے بارے میں بہت روایات ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ بعض صحابہؓ نے جوش عشق الہٰی میں تڑپ کر بارگاہِ رسالتؐ میں عرض کیا کہ ہمارا رب کہاں ہے ؟ اور وہ کیسی پکار اور کسی طرح کی فریاد سنتا ہے۔ آہستہ یا بلند آواز کی، تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

رب تعالیٰ مکانی اور زمانی قرب سے پاک ہے۔ اس لیے کہ وہ نہ کسی مکان میں ہے نہ زمانے میں۔ جب مکان اور زمان نہ تھا، تب بھی وہ تھا اور جب یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا تب بھی وہ رہے گا۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر وہ آیت ہے : ''اﷲ تعالیٰ کی رحمت نیکو کاروں کے قریب ہے ۔'' اس آیت نے بتا دیا کہ ان جیسی آیتوں میں قرب ربی سے مراد رحمت کا قرب ہے نہ مکانی نہ زمانی۔

خیال رہے کہ اﷲ کا علم اس کی قدرت اُس کی رزاقیت ہر بندے سے قریب ہے اس کے متعلق ارشاد ہوا: '' تم جہاں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔'' اور ارشاد ہوا : ''ہم بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔''

یاد رہے کہ یوں تو اﷲ تعالیٰ اپنے نیک بندوں سے ہر وقت ہی قریب رہتا ہے۔ مگر چند اوقات میں خصوصیت سے بہت قریب ہوتا ہے۔ تہجد کے وقت، جب بندہ اپنے گناہ اور اس کی رحمت کو یاد کر کے روتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ کون سا گناہ ہے جو میں نے نہیں کیا اور وہ کون سا کرم ہے جو تو نے نہیں کیا۔ جس لائق میں تھا میں نے کر لیا اور جو تیری شان کے لائق ہے وہ تو کر۔ گناہ میں نے کرلیے بخش تو دے ۔

مبارک ہیں وہ بندے جو رب سے قریب ہیں اور سعید ہیں وہ ساعتیں، جس میں بندہ رب سے قریب ہو۔ اس قرب کی دو نوعیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ بندے کو محسوس ہونے لگتاہے کہ رب میرے ساتھ ہے اور مجھے دیکھ رہا ہے۔ اس تصور کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ گناہ کرنے پر دلیری نہیں کرتا اور دنیا کا کوئی حال بندے کو رب سے غافل نہیں کرتا، یہ بہت بڑا مقام ہے ۔

دوسرا یہ کہ بندے کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں رب کو دیکھ رہا ہوں۔ اس کا جمال میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بندے کی آنکھیں تر رہتی ہیں۔ دل میں سوز و گداز رہتا ہے، عبادت میں لذت آتی ہے، یہ قرب پہلے سے بلند و بالا ہے۔

اﷲ تعالیٰ خود فرماتا ہے: جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے یا بلاتا ہے میں فورا اُس کی پکار کے جواب میں لبیک فرماتا ہوں۔ اکیلے میں پکارتا ہے تو اس کا جواب اکیلے میں دیتا ہوں اور جماعت میں پکارتا ہے تو اس کا جواب بھی فرشتوں کی جماعت میں ہی دیتا ہوں۔ پھر جس نوعیت سے مجھے پکارتا ہے اسی نوعیت سے میں اسے جواب دیتا ہوں۔ بندہ کہتا ہے۔ یَارَبِّ اے میرے پالنے والے، میں جواب دیتا ہوں۔ یَا عَبَدِیْ۔ اے میرے پالے ہوئے۔

اس کی شرح میں وہ حدیث قدسی ہے کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے: کہ جب بندہ مجھے اپنے تنہائی میں یاد کرتا ہے۔ میں بھی اسے تنہائی میں یاد کرتا ہوں اور جب بندہ مجھے جماعت میں یاد کرتا ہے تو۔ تو میں بندے کو اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں۔

واقعی رب تعالیٰ ہماری پکار کا جواب دیتا ہے اور وہ جواب ہم سنتے بھی ہے مگر دل کے کانوں سے۔ اس وقت دل پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے وہ کیفیت ہی اس آواز کا سننا ہے۔ دعا مانگنا بھی بڑی بہترین عبادت ہے ۔

فضائل دعا: دعا کے فضائل بے شمار ہیں۔ جن میں سے چند یہاں ذکر کیے جاتے ہیں :

٭ دعا مانگنا سنت انبیائے کرامؑ ہے کہ از حضرت آدم علیہ السلام تا حضور محمد مصطفیٰ ﷺ سارے نبیوں نے بہت سی دعائیں مانگیں۔ جن پیغمبروں نے بعض اوقات دعا نہ مانگی اس میں خاص حکمت تھی اور وہ یہ کہ انہوں نے محسوس فرمالیا کہ یہ رب کی طرف سے ہمارا امتحان ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس وقت اس کے دفعیہ کی دعا مانگنے سے بے صبری میں شمار ہوجائیں۔

٭ دعا مانگنے میں اظہار عبدیت ہے۔ بندے کی شان ہی یہ ہے کہ اس کے ہاتھ اپنے مولا کے دروازے پر پھیلے رہیں۔ فرشتے تو معصوم ہوتے ہیں، جنہیں کھانے پینے بیماری وغیرہ کی کوئی حاجت نہیں وہ بھی دعائیں مانگتے ہیں۔

٭ بہت دعا مانگنے سے دل میں عجز و طبیعت میں انکسار پیدا ہوتا ہے اور عجز و انکساری ہی دریائے رحمت الہٰی کے جوش میں آنے کا سبب ہے۔

٭ دعا مانگنے سے گناہوں سے مغفرت اور اطاعت الہٰی کی رغبت پیدا ہوتی ہے کیوں کہ جب ہر وقت رب سے مانگنا ہو تو اسے راضی رکھنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔

٭ رب غنی ہے اور ہم محتاج، اسے ہماری پروا کیا، لیکن دعا ہی وہ چیز ہے جس سے وہ ہماری پروا بھی کرتا ہے اور ہم پر کرم بھی فرماتا ہے۔ جو بندہ چاہتا ہو کہ میں ہر وقت رب کی نظر کرم میں رہوں، وہ ہمیشہ دعا مانگتا رہے۔

دعا کے مسائل: دیگر عبادات کی طرح دعا کے لیے بھی کچھ اوقات ہیں جن میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔ کچھ جگہیں ایسی ہیں، کچھ شرائط، کچھ آداب ہیں، اگر ان کی پابندی کی جائے تو انشاء اﷲ وہ ضرور قبول ہوں گی۔

رب نے وعدہ فرمایا ہے : '' تم مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا۔'' اگر ہماری کوئی دعا قبول نہ ہو سمجھ لو کہ ہماری طرف سے کوئی کمی ہے۔ رب کا وعدہ سچا ہے۔

دعا کے اوقات : چند وقتوں میں دعا قبول ہوتی ہے۔ جمعے کے دو خطبوں کے درمیان، خطبے اور نماز کے بیچ میں۔ آفتاب ڈوبتے وقت، ماہ رمضان میں سحری اور افطاری کے وقت، شب قدر میں تمام رات، روزانہ اخیر رات یعنی تہجد کے وقت، ختم قرآن کے وقت آب زم زم پی کر۔

دعا زیادہ کن کی قبول ہوتی ہے، چند اشخاص کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے، جیسے اولاد کے لیے ماں باپ کی۔ ایک شخص حاضر بارگاہ شریف ہوا۔ عرض کیا یا حبیب اﷲ ﷺ میرے لیے دعا فرمائیں ۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں۔ اس نے عرض کیا، ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: جا کر ان سے اپنے حق میں دعا کراؤ۔

حضرت طلحہ رضی اﷲ عنہ نے ایک سفر میں دیکھا کہ حضور انور ﷺ اونٹنی پر سفر کر رہے ہیں مگر نیند کا غلبہ ہے۔ جھونکے آرہے ہیں خیال کیا کہ شاید حضور ﷺ کو تکلیف پہنچ جائے۔ حضور ﷺ کے ساتھ چل دیے جب حضور ﷺ کو تیز جھونکا آتا تو حضرت طلحہٰ (رضی اﷲ عنہ ) ہاتھ دے دیتے۔ رات بھر یہی خدمت کرتے رہے۔ آخر شب میں سرکار نے پوچھا کون ؟ عرض کیا حضور کا غلام طلحہ (رضی اﷲ عنہ) آپ ؐ نے فرمایا کیا ہے۔ سارا ماجرا عرض کیا۔ فرمایا جنت تیرے واسطے واجب ہو گئی۔ یہ ہے دعا لینا۔ حضرت ربیعہؓ سے فرمایا کہ مجھ سے کچھ مانگ لے۔ عرض کی کہ جنت میں آپؐ کا ساتھ مانگتا ہوں۔

اگر آپ سب بھی اپنے پیارے نبی ﷺ کی دعا لینا چاہتے ہوں تو ان کی ساری سنتوں پر عمل کریں۔ خصوصاً تین چیزوں پر۔ لڑے ہوئے مسلمانوں کو ملانا۔ حضور ﷺ کے احکام اُمت تک پہنچانا۔ نماز تہجد کی پابندی کرنا کہ نبی کریم ﷺ نے ان تین کے لیے فرمایا: اﷲ انہیں بھرا رکھے۔ عادل بادشاہ کی دعا، مظلوم کی دعا، حدیث شریف میں ہے کہ مظلوم کی دعا کو ندائے الہٰی لبیک فرماتی ہے۔

قبولیت کی اُمید رکھے۔ نااُمید کی دعا قبول نہیں ہوتی، پھر حمد الہٰی کرے پھر نبی کریم ﷺ پر درود بھیجے۔ پھر اپنے گناہوں کا اقرار کرے۔ پھر عرض حاجات کرے۔ عرض حاجات میں خیال رکھے کہ صرف دنیا کی دعا نہ کرے بل کہ دین اور دنیا دونوں کی دعا مانگے کہ ایسا کرنا رب کو پسند ہے۔

بہتر یہ ہے کہ دعا صرف اپنے واسطے نہ کرے بل کہ سارے مسلمانوں کے لیے بھی کرے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے سے ان تینوں چیزوں پرعمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں