مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال

معزز صدرکا دورہ مکمل ہونے پر سعودی عرب کی جانب سے قطر کے خلاف بائیکاٹ کا بم گرایا گیا


قمر عباس نقوی June 30, 2017

ISLAMABAD: گزشتہ کئی دہائیوں سے 17 عرب خود مختار ریاستوں پر مشتمل اہم خطہ مشرق وسطی شدید پراکسی وار کی زد میں رہا۔ مسلمانوں ہی کے ہاتھوں مسلمانوں کی خوں ارزانی کا طویل سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے۔ آیت ﷲ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب ایران کے نتیجے میں امریکا بہادرکی طرف سے زبردستی مسلط عراق و ایران جنگ اور قدرتی تیل کے ذخائر پر قبضہ، عراق کا امریکا کی شے پرکویت پر غاصبانہ قبضہ ،امریکا کا عراق پر حملہ جو صدرصدام حسین کی پھانسی پر اختتام پذیر ہوا۔

شام اورفلسطین میں ایک عرصہ سے جاری خانہ جنگی ، یمن کے حوثی قبیلے کا سعودی عرب سے ٹکراؤ،امریکا کی لیبیا میں مداخلت اورکرنل معمر قذافی کا خاتمہ، بیت المقدس پراسرائیل کا ناجائز قبضہ اورمسلمان آبادیوں پر اسرائیل کے خونی حملے، درحقیقت مشرق وسطیٰ اپنے بے پناہ قدرتی وسائل کی وجہ سے امریکا اورمغربی دنیا کے لیے سونے کی چڑیا رہا ہے ۔ پوری عرب و عجم دنیا اپنے اس منفرد اثاثے پر نازاں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قطر پر پابندیوں کا فوری نفاذ امریکا اور سعودی عرب کا ایران سے دشمنی کا پیش خیمہ ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ سعودی امرا نے اپنی بادشاہت کو قائم رکھنے کے لیے کیا ہے۔

مشرق وسطیٰ کی امیر ترین خلیجی ریاست قطر کے بارے میں جاننے سے پہلے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ مشرق وسطی آخر ہے کیا؟ اس کی وسیع جغرافیائی حدود کا تعین کہاں کہاں تک ہے ؟ اس ضمن میں آپ نے مشرق قریب (Near East) اور مشرق بعید (Far East) کے نام بھی سنے ہوں گے۔ خلیجی ریاستوں (Gulf States) کے بارے میں بھی لازمی سنا ہوگا۔ سلطنت آف عمان کی مشہور ہوائی کمپنی گلف ایر (Gulf Air)کا بھی نام سنا ہوگا۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل مشرقی ممالک کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ان کا نام مشرق قریب اوردوسرے کا مشرق بعید رکھا گیا۔ جغرافیائی اعتبار سے ایران، افغانستان اور بھارت مشرق قریب کا حصہ تھے اور چین ، جاپان ، ہند چینی اورہانگ کانگ مشرق بعید کے زمرے میں آتے تھے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرق قریب کی اصطلاح تبدیل ہو کر مشرق وسطیٰ کا نام دے دیا گیا جو ایک طویل عرصے سے دنیا کے نقشے پر مشرق وسطیٰ (Middle East)کے نام سے مشہور ہے، جو اپنے اندر 17ممالک کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ ان 17ممالک میں مصر، سعودی عرب، شام، اردن ، اسرائیل ، لبنان، عراق ،کویت، ایران، مراکش، تیونس، قطر، الجیریا، لیبییا اور سوڈان وغیرہ قابل ذکر ہیں جن میں سے 8 ریاستیں بحرین، ایران ، عراق، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ایسی ہیں جن کا ایک حصہ خلیج فارس (بحیرہ روم یا Mediterranean Sea ) سے ملتا ہے۔

ان کو خلیجی ریاستوں کا نام دیا گیا ہے۔ ان خلیجی ریاستوں کے انتظام و انصرام کو چلانے کیلیے ان ریاستوں کی امداد باہمی کی تنظیم ''خلیج تعاون کونسل'' کے نام سے قائم ہے۔ مشرق وسطیٰ کے اہم شہر ان ہی خلیجی ریاستوں میں واقع ہیں۔ مشرق وسطیٰ کسی ایک ملک کا نام نہیں بلکہ یہ اصطلاح اپنے جدید معنوں میں مصر، سوڈان، اریٹیریا، حبشہ ، سومالی لینڈ، سعودی عرب، یمن، خلیج فارس، فلسطین ، اردن، شام، لبنان ، عراق اور ایران کے اسلامی ممالک کیلیے مجموعی طور پر استعمال ہوئی ہیں۔ براعظم ایشیا ، یورپ اور افریقہ کی ہوائی اور بری شاہراہیں مشرق وسطی ہی سے گذرتی ہیں۔ روس کے خلیج فارس اور مشرقی بحیرہ روم میں داخل ہونے کے راستے بھی مشرق وسطی ہی میں واقع ہیں۔

اللہ تعالی کی پاک ذات نے جہاں مشرق وسطی کو قدرتی وسائل کی بے کراں دولت، زرعی پیداوار، قدرتی تیل و گیس جیسی دولت سے مالا مال کیا وہاں اپنے محل و وقوع کے اعتبار سے یہ خطہ عرصہ دراز سے مغربی اور روسی طاقتوں کے درمیان ایک مستقل نزاع کا باعث بنا رہا۔ یہ خطہ نہ صرف مختلف اقوام کی سیاسی اور تجارتی کشمکش کا اکھاڑہ رہا بلکہ برطانیہ ، فرانس ، روس اور امریکا میں سے ہر ایک مشرق وسطی کے ممالک سے گہرے روابط قائم رکھنے کا بھی خواہاں رہا ہے اور ان ممالک کو اپنے حلقہ اثر میں رکھنے کا سہانے خواب دیکھتے رہے ہیں۔ مشرق وسطی کا تقریبا 11437 مربع کلومیٹر پر محیط جزیرہ نماملک '' قطر'' کی سرحدیں خلیج فارس اور سعودی عرب سے جا ملتی ہیں۔

قریبی ہمسایہ ممالک میں کویت اور بحرین ہیں۔ 1916 سے 1971 تک قطر اس وقت کی عا لمی طاقت برطانیہ کے زیر حفاظت رہنے کے بعد 1971ہی میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس کی سر زمین ہموار اور بارانی صحرائی سطح پر منحصر ہے، ریلوے کا نظام نہیں ہے۔ اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے جو لگ بھگ 95 فیصد ہے۔ بقیہ پانچ فیصد آبادی ہندو اور عیسائیوں کی ہے جن کو عموماً غیر ملکی بتایا جاتا ہے۔ شرح خواندگی 89 فیصد ہے۔یوں تو قطر میں سرکاری اور قومی زبان عربی ہے مگر انگریزی ثانوی طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ طرز حکومت روایتی بادشاہت ہے اور اس وقت تمیم بن حماد الثانی قطر کے شاہی حکمران ہیں جن کا تعلق ثانی شاہی خاندان سے ہے۔ 'دوہا ' قطرکا دارالحکومت ہے۔

حال ہی میں امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض کا دورہ اور صدر امریکا کی میزبانی میں سعودی اماراتی بادشاہوں کی طرف سے اربوں کھربوں ڈالرز پر مبنی نہایت قیمتی نوادرات بطور تحائف پیش کیے جانا اور اس کے جواب میں معزز صدر صاحب امہ مسلمہ کو اپنے ہی مسلمان ریاست پر سفارتی ، معاشی و اقتصادی، سماجی، تجارتی پابندیاں لگوا کر قطر کو کھڈے لائن لگا کر پتلی گلی سے نکل لیے اور یوں پوری عرب دنیا اختلافات و انا کے ڈھیر تلے دب کر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

جوں ہی معزز صدر دورہ مکمل کرکے رخصت ہوئے سعودی عرب کی جانب سے قطر کے خلاف بائیکاٹ کا بم گرایا گیا ۔ سعودی عرب کے اتحادی ممالک مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین ، مالدیپ، یمن ، اماراتی حمایت یافتہ مشرقی لیبیا، ماریطانیہ اور اردن نے بھی اپنے دوست و خیر خواہ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے قطر کے ساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کرتے ہی قطر کے ساتھ فضائی ، سمندری اور زمینی رابطہ بھی منقطع کر دیا۔ علاوہ ازیں سعودی عرب اور اتحادی ریاستوں نے اپنی ایر سپیس استعمال کرنے پر بھی پابندی عاید کر دی جو مسائل کو مزید پیچیدہ کرنے میں مدد گار ہوں گے۔ بحرین میں موجود قطری فوجی جو داعش کے خلاف عسکری اتحاد کا حصہ تھا اپنے ملک سے جلد نکل جانے کا حکم صادر فرما دیا ۔اس ضمن میں قطرکی جانب سے نہ ہی مزاحمتی بیان جاری ہوا اور نہ ہی کسی قسم کی مزاحمتی جوابی کارروائی عمل میںآئی۔

البتہ قطری خزانہ کے منصب پر فائزعلی شریف العمادی اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ'' وہ اپنے ہمسایہ ممالک پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ ان کے تعاون کے بغیر زندہ رہنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں'' ان پابندیوں کے باوجود قطری حکومت نے دو ٹوک الفاظ میں 'حماس' کے حوالے سے اپنے موقف کا کھل کر واضح اظہار کیا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل سے نبرد آزما تنظیم 'حماس' کو آئینی دائرے میں مزاحمت کرنے والی تنظیم قرار دینے کے موقف پر قائم ہے اور اسے دہشت گرد نہیں سمجھتا''ان پابندیوں سے پیدا ہونے والی صورت حال سے خدشہ ہے کہ قطر کواشیائے خورو نوش کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔اس اثنا میں ایران اور ترکی نے فوری طور پر قطرکو غذائی اجناس کی فراہمی کو ممکن بنایا ہے۔ خلیجی ممالک کو نظر انداز کرتے ہوئے اشیائے خورو نوش کی درآمد کے لیے نئے سمندری راستے دریافت کر لیے گئے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر ترکی ، مشرق بعید اور یورپ سے درآمدات کا سلسلہ عنقریب شروع ہو جائے گا۔

حالیہ تازہ خبر کے مطابق قطر میں دودھ کا شدید بحران پیدا ہونے کے اندیشے کے پیش نظر آسٹریلیا اور امریکا سے غیر سرکاری ذرایع سے چار ہزار گائے کی درآمد کا فیصلہ کیا گیا ہے جو قطر ائرویز کی 60 پروازوں کے ذریعے قطر پہنچائی جائیں گی۔ (جاری ہے۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں