بلوچستان دشمن کے نشانے پر

وطن عزیز کی مخالف قوتیں اندرونی دشمنوں کو مالی و عسکری امداد دے رہی ہیں


وطن عزیز کی مخالف قوتیں اندرونی دشمنوں کو مالی و عسکری امداد دے رہی ہیں تاکہ سی پیک منصوبہ ناکام ہو سکے…تحقیقاتی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

یہ 24 مئی کی بات ہے کہ نامعلوم افراد نے کوئٹہ کے علاقے جناح ٹائون سے ایک نوجوان چینی جوڑے کو اغوا کرلیا۔ یہ جوڑا علاقے میں قائم ایک ادارے میں بہ حیثیت استاد ملازم تھا۔ اس ادارے میں مزید آٹھ چینی بھی کام کررہے تھے۔ ادارے میں داخلہ لینے والوں کو چینی، کوریائی اور اردو زبانیں سکھائی جاتی تھی۔

چینی اساتذہ کے اغوا کی خبر ملتے ہی انٹیلی جنس ایجنسیاں حرکت میں آگئیں۔ تاہم فوری طور پر یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کن لوگوں نے چینی جوڑے کو اغوا کیا ہے۔ تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ مستونگ کے نزدیک واقع ایک پہاڑی علاقے میں مشکوک مسلح افراد کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے فی الفور اس علاقے پر توجہ مرکوز کردی۔

یہ پہاڑی علاقہ مستونگ شہر سے 50 کلو میٹر دور واقع ہے۔ علاقے کے پہاڑوں میں جابجا غار واقع ہیں۔ نیز بکھرے پتھروں کی وجہ سے پہاڑوں کے درمیان چلنا بہت کٹھن ہے۔ صرف پہاڑی علاقوں کے مکین ہی ان دشوار گزار راستوں پر سفر کرسکتے تھے۔انٹیلی جنس ایجنسیوں نے چھان بین کی، تو انکشاف ہوا کہ مسلح افراد دہشت گرد تنظیم لشکر جھنگوی العالمی سے تعلق رکھتے ہیں۔ چناں چہ دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ایجنسیوں کے بعض افسروں کا خیال تھا کہ اغوا کردہ چینی جوڑا وہاں موجود ہو سکتا ہے۔

یہ عسکری آپریشن بہت کٹھن اور خطرناک تھا کیونکہ جدید ترین اسلحے سے لیس مسلح دہشت گرد غاروں میں چھپے ہوئے تھے۔ پھر وہ علاقے کے چپے چپے سے واقف تھے۔ وہ گھات لگا کر جوانوں کو نشانہ بناسکتے تھے۔ اسی لیے فیصلہ کیا گیا کہ جوانوں کی بہت بڑی تعداد بھیج کر دہشت گردوں کو گھیرے میں لے لیا جائے۔

ماہ جون کے اوائل میں پاک فوج کا 20 بریگیڈ علاقے میں پہنچ گیا۔ جوانوں کو فرنٹیئر کور کے سپیشل آپریشن ونگ ک دستوں کی مدد بھی حاصل تھی۔ مطلوبہ حفاظتی اقدامات کرنے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع ہوگیا۔ اس آپریشن کی قیادت بریگیڈیئر بلال کررہے تھے جبکہ پاک فوج کی سادرن کمانڈ کے سربراہ، لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے نگرانی کے فرائض انجام دیئے۔

دہشت گرد غاروں کے ایسے وسیع سلسلے میں مقیم تھے جو ایک کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا۔ شروع میں کوبرا ہیلی کاپٹروں اور فضائیہ کے طیاروں کے ذریعے کوشش کی گئی کہ غار تباہ کردیئے جائیں مگر بہت زیادہ پھیلائو کے سبب منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔ پھر یہ خدشہ بھی موجود تھا کہ چینی باشندے کسی غار میں محبوس ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بھی غاریں تباہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

آخر جوانوں نے دشمن پر ہلّہ بول دیا۔ دہشت گرد نہایت تربیت یافتہ تھے۔ انہوں نے زبردست مقابلہ کیا۔ دوران مقابلہ پاک فوج کے درجن سے زائد افسر و جوان زخمی ہوئے جن میں لیفٹیننٹ کرنل ماجد، میجر فہیم اور میجر عاصم شامل تھے۔اس آپریشن میں گیارہ دہشت گرد مارے گئے جن کا تعلق لشکر جھنگوی العالمی سے تھا۔اس آپریشن کے بعد عراق سے تعلق رکھنے والی جنگجو تنظیم،اسلامی ریاست المعروف داعش نے اعلان کیا کہ اس نے چینی جوڑے کو ہلاک کر دیا ہے۔

یاد رہے، داعش پاکستان میں کسی قسم کا آپریشنل و تنظیمی ڈھانچا نہیں رکھتی، تاہم لشکر جھنگوی العالمی اور پاکستانی طالبان کے کئی رہنما اس عراقی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوچکے ہیں۔ اب یہ لیڈر ہی اپنے دہشت گرد کارندوں کے ذریعے داعش کے نام پر وطن عزیز میں تخریب کارانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔

پاک فوج کے جوان دشوار گزار پہاڑی علاقوں اور انتہائی نامساعد حالات کے باوجود دہشت گردوں کا پامردی سے مقابلہ کررہے ہیں۔ ان دہشت گردوں کو پاکستان کے دشمنوں خصوصاً بھارت کا مالی اور عسکری تعاون بھی حاصل ہے۔ بھارت علی الاعلان سی پیک منصوبے کی مخالفت کرتا ہے۔ لہٰذا وہ پاکستان دشمن تنظیموں کو منہ مانگی امداد دے کر ان سے بلوچستان میں دہشت گردی کراسکتا ہے تاکہ سی پیک منصوبہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہونے پائے۔

لشکر جھنگوی العالمی بنیادی طور پر فرقہ وارانہ جماعت ہے۔ بلوچستان میں اس کے جنگجو شیعہ اور ذکریوں پر حملوں میں ملوث ہیں۔ اب چینی جوڑے کے اغوا سے اس خدشے کو تقویت ملی ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کے لیے بھارت سے مالی و عسکری امداد لینے لگی ہے ۔افغانستان میں موجود بھارتی ایجنٹ عموماً جہادی مسلمانوں کا بھیس بھر کر سرزمین پاکستان میں مصروف عمل جنگجو تنظیموں سے رابطہ کرتے اور اعتماد پا کر انھیں رقم و اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔

داعش اور لشکر العالمی جھنگوی بظاہر عالم اسلام میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی جدوجہد کررہی ہیں۔ مگر دونوں تنظیموں کی سرگرمیاں خاصی حد تک اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لشکر جھنگوی العالمی تو پاکستان دشمن طاقتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکی ہے۔اس دعویٰ کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ داعش پاکستان کے سربراہ، اعجاز بنگل زئی کا بھائی عبدالنبی بنگل زئی یونائیٹڈ بلوچ آرمی کا قائد ہے۔ یہ قوم پرست جنگجو تنظیم براہ راست بھارت سے مالی و عسکری مددد لیتی ہے۔ ان دونوں بھائیوں کا تیسرا بھائی، فاروق بنگل زئی افغان صوبے، ننگرہار میں مقیم ہے۔ وہ لشکر جھنگوی العالمی، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور داعش کے مابین سہولت کار کی ذمے داری انجام دیتا ہے۔

یونائیٹڈ بلوچ آرمی بلوچستان میں سی پیک منصوبوں کے خلاف نہایت متحرک ہے۔ 13 مئی 2017ء کو ضلع گوادر میں اسی تنظیم کے دہشت گردوں نے سی پیک منصوبے کے تحت سڑک تعمیر کرتے دس مزدور شہید کر ڈالے تھے۔ پھر 19 مئی کو تربت میں بھی ان دہشت گردوں نے تین بے گناہ مزدور قتل کردیئے۔بلوچستان میں بلوچ قوم پرستوں کی قائم کردہ تمام جنگجو تنظیمیں درحقیقت بھارت کے پراکسی ہتھیار ہیں۔یہ مل جل کر سی پیک منصوبوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں۔ ان قوم پرست تنظیموں کا نشانہ اکثردیگر صوبوں سے آئے ہوئے مزدور بنتے ہیں۔ اب تک یہ سی پیک منصوبوں پر کام کرتے 55 مزدوروں کو موت کے گھاٹ اتار چکی ہیں۔

یہ واضح رہے کہ یونائیٹڈ بلوچ آرمی کا علامتی سربراہ، نواب خیر بخش مری کا بیٹا، مہران مری ہے۔ مہران مری پہلے بلوچستان لبریشن آرمی کے لیڈروں میں شامل تھا۔ مگر 2000ء میں دیگر لیڈروں نے مہران مری پر الزام لگایا کہ وہ تنظیم کے فنڈز میں خرد برد کررہا ہے۔ چناں چہ اسے تنظیم سے نکال دیا گیا۔ مہران مری نے پھر اپنی تنظیم قائم کرلی۔

حکومت پاکستان نے یہ انکشاف کیا ہے کہ جنوری 2017ء سے بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور سی پیک منصوبوں میں کام کرتے افراد پر حملے بڑھ چکے ہیں۔ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ بھارت مذہبی جنگجو تنظیموں اور بلوچ قوم پرست تنظیموں، دونوں کو ہر طرح کی مدد فراہم کر رہا ہے تاکہ صوبے میں انہیں اپنا آلہ کار بناسکے۔ مدعا یہی ہے کہ ان کے ذریعے سی پیک سے منسلک منصوبے تباہ کیے جاسکیں۔

مارچ 2017ء میں حکومت بلوچستان نے صوبے کے مطلوب دہشت گردوں کی فہرست جاری کی تھی۔ اس کے مطابق لشکر جھنگوی العالمی کا غلام فاروق بنگل زئی مطلوب ترین دہشت گردوں میں شامل ہے۔ اس کے سر کی قیمت 20 لاکھ روپے ہے۔ قبل ازیں بتایا جا چکا کہ یہ شخص لاکھوں روپے تنخواہوں پر اپنی تنظیم کے لیے کارکن بھرتی کرتا ہے۔سچ یہ ہے کہ سبھی دہشت گرد تنظیمیں اب کاروباری کمپنیاں بن چکی ہیں۔ایسی ہر کمپنی کے ڈائریکٹر یعنی سربراہان غیر ملکی امداد پاکر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ کمپنی بھاری تنخواہ پر پیدل فوجی ملازم رکھتی ہے۔ یہ کارکن مذہب، قومیت یا زبان و نسل کے نام پر معصوم شہریوں کے لہو سے ہاتھ رنگتے اور سکیورٹی پر مامور جوانوں اور ا فسروں کو شہید کرتے ہیں۔

لشکر جھنگوی العالمی کا ایک اور لیڈر، عابد علی کے سر کی قیمت بھی 20لاکھ روپے مقرر ہے۔ یہ تنظیم کی کوئٹہ شاخ کا صدر ہے۔ تیسرا مطلوب ترین دہشت گرد، دلشاد بنگل زئی بھی اسی فرقہ وارانہ تنظیم کا مقامی لیڈر ہے۔ خاص بات یہ کہ تینوں دہشت گردوں کا تعلق ضلع مستونگ سے ہے۔ ممکن ہے کہ حالیہ آپریشن میں مطلوب دہشت گردوں میں سے بھی بعض لیڈر نشانہ بن چکے ہوں۔ تاہم پاکستانی حکومت نے ان کے نام جاری نہیں کیے۔

لشکر جھنگوی العالمی کے علاوہ صوبہ بلوچستان میں جیش اسلام، تحریک طالبان پاکستان، جنداللہ، جیش العدل، سپاہ محمد، لشکر بلوچستان اور القاعدہ بھی سرگرم ہیں۔ بعض تنظیمیں مذہبی ہیں اور دیگر نے قوم پسندی کا جھنڈا بلند کررکھا ہے۔ بعض اوقات سرکاری منصوبوں یا تنصیبات پر حملے کرتے ہوئے یہ تنظیمیں ایک دوسرے کی مدد بھی کرتی ہیں۔ اکرم زہری، عین الزمان اخوندزادہ اور شفیق رند صوبے کے دیگر مشہور دہشت گرد ہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق مستونگ پہاڑے علاقے پر حالیہ حملے کے وقت غاروں میں لشکر جھنگوی العالمی کے دو نامی گرامی دہشت گرد، حفیظ بروہی اور اس کا بھائی عبداللہ بروہی بھی موجود تھے جو مارے گئے۔ حفیظ بروہی کے بھائی، عبدالحکیم پندرانی نے ہی 19 دسمبر 2010ء کو صوبہ سندھ میں پہلا خودکش حملہ کیا تھا۔ اس نے ضلع شکار پور کے گائوں، نصیر آباد میں عاشورا مجلس میں دھماکہ کرنا چاہا تھا مگر پولیس نے اسے گولی مار کے ہلاک کردیا۔

بعدازاں حفیظ بروہی ہی نے اپنے گروہ سے جنوری 2015ء میں شکار پور کی امام بارگاہ میں خودکش حملہ کرایا جس میں اکسٹھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ پھر اکتوبر 2015ء میں بھی محرم کے جلوس میں خودکش دھماکے کرائے جنہوں نے اٹھائیس افراد کو موت کی نیند سلادیا۔

بلوچستان میں قوم پرست تنظیموں کے علاوہ مذہبی تنظیموں میں لشکر جھنگوی العالمی سب سے زیادہ متحرک ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق یوسف منصور خراسانی المعروف سید صفدر شاہ اس کا لیڈر ہے۔ یہ کراچی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ پُراسرار شخصیت جنگجو تنظیموں میں بہت مشہور ہے۔ نومبر 2016ء میں اس نے غزنی، افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے آٹھ گروہوں کا آپس میں اتحاد کرایا تھا۔

یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ سی پی منصوبوں کی وجہ سے بلوچستان چھوٹے پیمانے پر جاری ایک گریٹ گیم کا نشانہ بن چکا۔ بھارت، افغانستان اور امریکا اس گیم کے منفی کھلاڑی ہیں۔ ان کی سعی ہے کہ جس طرح بھی بن پڑے، سی پیک منصوبوں کو نقصان پہنچایا جائے جبکہ چین اور پاکستان تینوں قوتوں کی سازشوں کو ناکام بنا دینا چاہتے ہیں۔چین عام طور پر اپنے معاشی منصوبوں کو جنگ و جدل سے دور رکھتا ہے۔ مگر بلوچستان میں بھارت کی چھیڑی پراکسی جنگ اسے جواب دینے پر مجبور کرسکتی ہے۔ درحقیقت چینی حکومت میں شامل ''عقابوں'' کی خواہش ہے کہ بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے ۔بہرحال پاک فوج اور قومی اینٹلی جنس ایجنسیوں نے صوبے میں خصوصاً سی پیک منصوبوں سے منسلک مقامی باشندوں اور غیر ملکیوں کی سیکورٹی مزید سخت کر دی ہے۔

بلوچستان میں سی پیک منصوبوں کے خلاف بھارت کی پراکسی جنگ ناکام بنانے کی خاطر ہی چین نے حال ہی میں پاکستان اور افغانستان کے مابین ثالثی کرانے کی پیش کش کی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان اپنے اختلافات دور کرلیں۔ اگر دونوں ممالک کے مابین دوستانہ تعلقات قائم ہوجائیں، تو بھارت سرزمین افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرسکتا۔

مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا کی کٹھ پتلی حکومت براجمان ہے جسے افغانانوں کی اکثریت تسلیم نہیں کرتی۔ بھارت اس کٹھ پتلی حکومت کا حامی ہے لہٰذا کٹھ پتلی حکمرانوں، اشرف غنی اورعبداللہ عبداللہ، دونوں کا جھکائو بھارت کی سمت ہے۔ جبکہ پاکستان کابل میں ایسی حکومت دیکھنے کا متمنی ہے جو افغان عوام کی خواہشات اور امیدوں پر پورا اترے اور موجودہ حکمران طبقے کے مانند کرپٹ نہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں