چند روز اور میری جان فقط چند ہی روز
برسوں گزر جانے کے باوجود اس فارمولے پر عوام نے پھر عمل نہ کیا بلکہ ہر وقت مہنگائی کا رونا روتے رہے
''عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں'' کس قدر خوبصورت معقول اور حقیقت پر مبنی نعرہ ہے مگر طاقت کے اس سرچشمے کے سر کو کچلنے کے لیے کیا کیا حربے بروئے کار نہ لائے گئے؟ جس عوامی لیڈر نے یہ عظیم عوامی نعرہ قوم کو دیا خود اس نے ہی اس نعرے کو کبھی عملی شکل اختیار نہ کرنے دی اور آج ان کی پارٹی وڈیروں، جاگیرداروں، میروں اور شاہوں کی پارٹی کہلاتی ہے۔ عوام کو تو ان وڈیروں کی جوتیاں سیدھی کرنے سے ہی فرصت نہیں اگر ذرا سی فرصت زندگی میں مل جائے تو وہ اپنی طاقت کا احساس کرنے کے قابل نہ ہوجائیں؟ لہٰذا صاحبان اقتدار و اختیار نے پس پردہ یہ معاہدہ کر رکھا ہے کہ عوام کو اول تو ملک میں ہونا ہی چاہیے ملک تو صرف خواص کے لیے ہے، مگر مجبوری یہ آ پڑی ہے کہ پھر خواص بغیر عوام کے خواص کیسے رہ سکتے ہیں۔
ان کی بڑی بڑی زرعی زمینوں پر کاشت کون کرے گا؟ ان کی اوطاقوں کی صفائی ان کے مویشیوں کی دیکھ بھال ان کے شکارکیے ہوئے پرندوں اور جانوروں کو اٹھا کرکون لائے گا؟ ان کی ملوں اور کارخانوں، فیکٹریوں میں بلا طبی سہولت، بلا الاؤنس، بلا حفاظتی سہولت، بلا اوور ٹائم کے وقت سے زیادہ انتہائی معمولی معاوضے پر کام کون کرے گا؟ اور یہ معاوضہ بھی کئی کئی ماہ کے بعد بڑے صاحب کے جی میں آجائے یا پھر کوئی اخبار یا چینلز پہ اطلاع منظر عام پر لے آئے کہ فلاں فیکٹری یا ادارے کے کارکنان کو گزشتہ چھ یا آٹھ ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہ ہونے کے باعث ان کے گھروں میں فاقے کی نوبت آگئی ہے تو بمشکل آدھی یا چوتھائی رقم دے کر مکمل ادائیگی کی خبر لگوائی جاتی ہے۔
اس صورتحال کو پیش کرنے کا مقصد قارئین کو یہ بتانا ہے کہ ایسی حالت میں عوام کو اپنی طاقت کا احساس ہونا کیسے ممکن ہے اور سچی بات تو یہ کہ ایسے میں وہ طاقتور تو کیا اتنے کمزور کہ خود اپنا سر اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھنے کے قابل بھی نہیں رہتے یہی وجہ ہے کہ یہ سرچشمہ ہر کس و ناکس کے سامنے جھکا ہی رہتا ہے۔
بڑی پرانی بات ہے اس وقت ہم اسکول کی طالبہ تھے تو ہم نے پڑھا کہ پشاور میں قصابوں نے گوشت کے نرخ ایک دم بہت بڑھا دیے اور یہ بھی اسی خبر میں تھا کہ بھلا پٹھان گوشت کھائے بنا رہ سکتا ہے؟ کہ ان کا کہنا ہے کہ ہم مسلمان تو ہیں ہی گوشت خور، مگر جناب پشاور کے تمام افراد نے ایک دم فیصلہ کیا کہ جب تک گوشت پرانی قیمت پر دستیاب نہ ہوگا کوئی ایک فرد بھی گوشت نہیں خریدے گا، قصابوں نے سوچا ایک دو روز بعد یہ اپنا فیصلہ خود ہی واپس لے لیں گے، مگر عوام اپنے فیصلے پر قائم رہے دو تین دن جب تمام گوشت خراب ہوکر شہر بھر میں بدبو پھیلانے لگا تو مجبوراً اس کو دفنا کر تیسرے دن پرانی قیمت پر گوشت فروخت ہونے لگا۔ میری اپنی ادنیٰ سی معلومات میں شاید پاکستان میں عوام نے اپنی طاقت کا بذریعہ اتحاد پہلی بار مظاہرہ کیا اور جو مکمل کامیاب رہا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ذرایع ابلاغ محض اخبارات و رسائل پر مشتمل تھے برقی ذرایع ابلاغ کا آغاز نہ ہوا تھا۔
برسوں گزر جانے کے باوجود اس فارمولے پر عوام نے پھر عمل نہ کیا بلکہ ہر وقت مہنگائی کا رونا روتے رہے۔ دوسری جانب عوام کو ان کی حیثیت و طاقت کا احساس دلانا ملکی ذرایع ابلاغ کا ایک ناگزیر فرض ہونا چاہیے تھا مگر جانے کن کن مصلحتوں کے پیش نظر ذرایع ابلاغ نے کوئی اور ہی راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔ کچھ حکمرانوں کو مظلوم اور کوئی ظالم بناکر پیش کرنے کا فرض بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ حکومت کے وہ زاویے جن پر کھل کر لکھنا اور بولنا ہی صحافت اور دانشوری ہے ان پر کوئی کچھ نہیں کہتا مثلاً ایک ملک تقریباً چار سال سے بغیر وزیر خارجہ کے چل رہا ہے اور دنیا میں دن رات کے حساب سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن پر ردعمل اور مکمل عملدرآمد کے لیے باقاعدہ واضح خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ بے حد مدبر وزیر خارجہ کا ہونا بہت ضروری ہے مگر پورے ملک میں ایک بندہ ایسا دستیاب نہیں جو یہ کارخیر انجام دے سکے۔ اس لیے ذرایع ابلاغ سے ناامید ہوکر عوام میں سے چند پڑھے لکھے عالمی حالات کا شعور رکھنے والے افراد (نوجوانوں) نے سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی بیداری کی کوشش ضرور کی ہے۔
اسلامی ملک میں ہر سال رمضان المبارک سے پہلے اور دوران ہر شے کی قیمت عوام تو عوام اچھے بھلے سفید پوش (ہوتے وہ بھی عوام ہی ہیں مگر۔۔۔۔) افراد کی بھی قوت خرید سے باہر ہوتی رہی ہے بعض گھرانوں میں تو کھجور تک خریدنے کی استعداد نہیں ہوتی مگر اس سال سوشل میڈیا پہ گراں فروشی خصوصاً پھلوں کی قیمتوں میں اضافے پر جو مہم چلائی گئی وہ بے حد کامیاب رہی۔ جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اگر ہر برائی اور عوام دشمن رویے پر اسی جذبے سے ردعمل کا مظاہرہ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ عوامی طاقت بحال نہ ہو اور خود عوام اپنی قوت، حیثیت اور طاقت سے آگاہ ہوجائیں تو حکمران اپنی چال خود بھول جائیں گے عوام کو صرف ووٹ کے لیے استعمال کرنے کے بجائے ان کے مسائل کے حل پر بھی توجہ دینا ہوگی۔
بات محض عوام کو غلام کی بجائے عوام سمجھنے اور سمجھانے کی ہے۔ جس کام کو ستر برس سے بے حد دشوار سمجھ کر چھوڑ دیا گیا تھا اب وہ آسان اور بے حد ممکن نظر آرہا ہے اور وہ دن دور نہیں کہ یہ کچلے ہوئے عوام ملک کے باشعور، غیرت مند اور ملکی مفاد کے نہ صرف خواہاں بلکہ رکھوالے ثابت ہوں گے انشا اللہ۔
ہمارے ایک معروف صحافی نے 2022 کا جو منظر اپنے کالم میں پیش کیا ہے وہ اسی امید اور اسی رویے کو مدنظر رکھ کر پیش کیا ہے مگر ہمارا خیال ہے کہ نیند سے بیدار ہونے میں دیر نہیں لگتی ہوسکتا ہے کہ یہ صورتحال 2018 تک ہی تبدیل ہوجائے اب تو نوے یا اسی برس کے بوڑھے بھی یہ دعا کر رہے ہیں کہ خدا کرے وہ 2022 تک عوامی راج اور عوامی عظمت کا دور دیکھنے کے لیے زندہ رہیں۔ بہرحال اب ظلم و استحصال کے دن گنے جا چکے ہیں۔