سبز ہلالی پرچم کا سرسبز پاکستان

’’لوگ بیماری سے بچنے کے لئے غذا کا پرہیز کرتے ہیں لیکن دیرپا صحت کے لئے آلودگی سے پرہیز نہیں کرتے‘‘


رضوانہ قائد July 02, 2017
آج ہم کسی کے لگائے ہوئے درخت کے سائے میں ہیں، کل کوئی اور مسافر ہمارے لگائے گئے درخت کے سائے میں پناہ لے گا تو شاید شکر گزاری کا حق ادا ہوگا۔

الحمداللہ! ملک میں مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ میدانی علاقوں خصوصاََ کراچی میں اِس کا چرچا اِس لئے بھی زیادہ ہے کہ بہت عرصے بعد جل تھل کردینے والی بارش نصیب ہوئی۔ برسات اور بہار کا ایک بڑا اور خوبصورت فائدہ اِس موسم میں ہونے والی شجرکاری کی مہمات ہیں۔


اِس موسم میں حکومت اور عوامی تنظیموں کی جانب سے شجر کاری مہم کے اعلانات کئے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے خوش آئند منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں کہ دورانِ مہم اتنے اتنے ہزار یا لاکھ پودے لگائے جائیں گے۔ سالہا سال سے منائی جانے والی اِن مہمات کے نتیجے میں تو ملک کو ہر جانب سے سرسبز و شاداب ہوجانا چاہئیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ اِس کی اہم وجہ ہماری قوم کا غیرذمہ دارانہ مزاج ہے۔ عموماََ اِس قسم کے منصوبوں کے آغاز کا سِرا تو بڑے اہتمام سے تھاما جاتا ہے مگر انجام کا سرا مُعلّق چھوڑ دیا جاتا ہے۔ انجام پر گرفت نہ ہونے کے باعث ہر اگلی مہم پھر انتشار کا شکار ہی رہتی ہے۔


بہرحال، اب ایک بار پھر موسمِ برسات کا دُھلا دُھلا اور نکھرا نکھرا سبزہ، مزید شجرکاری کے لئے دعوتِ عمل دے رہا ہے۔ دوسری جانب شہروں میں پھیلی جابجا آلودگی بھی شجرکاری کی سنجیدہ کوششوں کی متقاضی ہے۔ ہمارے شہروں میں کارخانوں اور ٹریفک کے شور، دھوئیں، گندے پانی اور کچرے کے تعفن کا شہریوں کے صحت و نفسیات کے مسائل کو بڑھانے میں بڑا ہاتھ ہے۔ اِس کا ثبوت اسپتالوں اور کلینکس میں مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ یہاں لال، نیلی اور پیلی دواؤں کے مکسچرز کے ساتھ مہنگی اینٹی بائیوٹک ادویات تجویز کردی جاتی ہیں۔ یہ تجویز کرتے وقت نہ مریض کی مالی حالت کا خیال کیا جاتا ہے اور نہ ہی اِن قیمتی ادویات کے مضر اثرات کا۔ مریض اور معالج دونوں کا ہی بس پورا زور مرض اور تکلیف سے فوری نجات ہوتا ہے، پھر چاہے یہ وقتی ہی کیوں نہ ہو۔ امراض کی بنیادی وجوہات اور اُن کے مستقل سدِباب کی طرف توجہ شاید ہی کسی کی جاتی ہے۔


لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اِس جانب کیوں توجہ نہیں دی جاتی کہ مرض سے بچنے اور اِس کے علاج کے لئے متعلقہ غذا و دوا کے ساتھ صحت افزاء اور سرسبز ماحول بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ناجانے ہمارے معاشرے میں اِس بات کی اہمیت کیوں نہیں کہ جتنا ضروری اسپتال، کلینک اور فارمیسی کا قیام ہے اتنی ہی ضروری پودوں کی نرسریاں بھی ہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ ہمارے معالج اور فارماسسٹ صاحبان مرض کی تشخیص اور علاج کے لئے مشورے اور دوائیں دیتے وقت آلودہ ماحول کو صاف ماحول سے بدلنے کی لئے پودوں کی افادیت اور شجرکاری کا مشورہ بھی دیں۔


ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر ایک جملہ اکثر نظر آتا ہے،


''لوگ مرض کے ڈر سے غذا چھوڑ دیتے ہیں مگر دوزخ کے خوف سے گناہ نہیں چھوڑتے''

ہم اِس میں کچھ ترمیم کردیں تو یہ حقیقت کی عکاسی ہے کہ،


''لوگ بیماری سے بچنے کے لئے غذا کا پرہیز کرتے ہیں لیکن دیرپا صحت کے لئے آلودگی سے پرہیز نہیں کرتے''

مریض کی نفسیات ہوتی ہے کہ غیر ارادی طور پر ہی بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لئے دعا سے زیادہ ڈاکٹر کی دوا پر اِس کا اعتقاد ہوتا ہے، پھر جب قدرت کی جانب سے شفا نصیب بھی ہوجائے تب بھی زیادہ چرچا ڈاکٹر اور اِس کی دوا کا ہی ہوتا ہے۔ اِس رویے کو درستی کے ساتھ آلودگی کے خاتمے اور سبزے کے پھیلانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ غیر مضر اثرات اور اپنی اثرانگیزی کے باعث نباتاتی ادویات (ہربل میڈیسن)، کیمیائی (ایلوپیتھک) ادویات کے مقابلے میں صحت کے لئے زیادہ مفید ہیں۔ فارمیسی (ادویات کی تعلیم) میں بھی فارماکوگنوسی (pharmacognosy) کے نام سے نباتاتی ادویات کا مضمون شامل ہے۔ کیا ہی بھلا ہو کہ فارماسسٹ اور ڈاکٹر صاحبان دوائیں دیتے یا تجویز کرتے وقت ہر مریض کو کم از کم ایک پودا لگانے کا ترغیبی مشورہ ضرور دیں اور نہ صرف مشورہ دیں بلکہ اگلے وزٹ پر بیماری اور دوا کے فیڈ بیک کے ساتھ اُس کے لگائے ہوئے پودے کا فیڈ بیک بھی لے لیا کریں۔ ہمیں اُمید ہے مریض اور معالج دونوں ہی علاج کے اِس نئے پہلو میں خوشگوار تازگی اور بہتری محسوس کریں گے۔


گل دوپہری، رات کی رانی، گل چیں، جربرا ڈیزی، فائکس، پام اسپائڈر پلانٹ، منی پلانٹ اور ایلوویرا جیسی اقسام کے چھوٹے پودے اور بیلیں اپنے دلکش پھولوں، پتوں اور باآسانی نگہداشت کے باعث بہترین پودے مانے جاتے ہیں۔ ماحول کی خوبصورتی اور آلودگی سے نجات میں بھی اِن کا اہم کردار ہے۔ پھر یہ پودے لگانا بھی نہایت ہی آسان ہیں، کچی زمین میسر ہو یا چھوٹا گملا یا مختصر کیاری، ایک دفعہ لگانے کے بعد سالہا سال اِن کی خوشبو، دیدہ زیبی اور ایئر فلٹریشن کی خاصیت سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ بعض پودے مچھروں اور دیگر حشرات کو بھی دور رکھتے ہیں، اِن کو گھروں میں لگانے سے کیمیکل والے مضرِ صحت کیڑے مار اور ایئر فریشنر اسپرے سے بچا جاسکتا ہے۔


اِسی طرح گھروں میں لگائے جانے والے پودوں کے ذریعے غذائی اور معاشی فوائد بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ والدہ سے سُنا ہے کہ کبھی ہرا دھنیا، پودینہ، سبزی کے ساتھ بِنا حساب ہی دے دیا جاتا تھا مگر اب ایک وقت کے دعوتی کھانے کے لئے پچاس سے سو روپے تک کا ہرا مصالحہ آتا ہے۔ سبزیاں تو پہلے ہی مہنگی ہیں، وہ بھی کیمیائی کھاد اور کیڑے مار اسپرے کے باعث مہلک اثرات سے بھری، اِن نقصانات سے بچنے کی غرض سے بھی گھروں میں گملوں، کیاریوں اور کچی زمین پر روز مرہ استعمال کی سبزیوں اور پھلوں کے پودے کم خرچ سے اُگائے جاسکتے ہیں۔ اگر کچی زمین یا گملے میسر نہ ہوں تو گھر کے کباڑ میں پڑی پرانی میز، کرسیوں، ٹائر، خالی ڈبے اور بوتلیں وغیرہ گملوں کا بہترین نعم البدل بن سکتے ہیں۔


سبزی منڈیوں کے پاس عموماََ دیسی کھاد اور موسم کے سبزی پھلوں کے بیج نہایت سستے داموں مل جاتے ہیں۔ اسی طرح نرسری والوں کے پاس سے بھی موسمی اور سدابہار پودوں کی پنیریاں اور بیج باآسانی مل جاتے ہیں۔ یہ لوگ ان بیجوں اور پنیریوں کے لگانے سے متعلق اچھی رہنمائی بھی فراہم کرتے ہیں۔ پودے اُگانے کی رہنمائی کا اہم ذریعہ انٹرنیٹ بھی ہے۔ باغبانی اور زراعت سے متعلق پیجز یا گروپس کو جوائن کرلیا جائے تو وہاں بھی بروقت مشوروں اور رہنمائی کی سہولت موجود ہوتی ہے۔


جب ہم باہر ہوتے ہیں اور تیز دھوپ یا بارش میں باہر کھڑا ہونا پڑجائے تو اپنے یا گاڑی کے لئے نگاہیں فوراََ ہی کسی سائے کی متلاشی ہوجاتی ہیں، پھر قسمت سے سایہ مل جائے تو شکر کے ساتھ ضرورت بھی پوری کرتے ہیں مگر اِس زبانی شکر کے ساتھ عملی شکریے کا خیال کتنے لوگوں کو آتا ہے کہ آج ہم کسی کے لگائے ہوئے درخت کے سائے میں ہیں کل کوئی اور مسافر ہمارے لگائے گئے درخت کے سائے میں پناہ لے گا تو شاید شکر گزاری کا حق ادا ہوگا۔

ہمارے دین میں ہرے بھرے درخت کو بلا ضرورت کاٹنے کی ممانعت ہے۔ گھنے سایہ دار اور پھل دار درخت جنت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ قرآن میں درختوں کو بھی بندگی کی صفات کا حامل بتایا گیا ہے کہ
''وہ خدا کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اِس کے حکم سے اُس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں''

درختوں کو صدقۂ جاریہ بھی بتایا گیا ہے،


''جو شخص درخت لگائے یا کھیتی باڑی کرے پھر اُن میں سے انسان پرندے یا جانور کھائیں تو وہ اُس کے لئے صدقہِ جاریہ ہے''

ہمارے اطراف میں ہر گلی محلے میں بچے اور کڑیل جوان کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کے قریب کرکٹ کھیل رہے ہوتے ہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ اِن کے بڑے، والدین، اساتذہ، احباب اور وہ خود اِس گندے اور آلودہ ماحول کو صاف اور سرسبز و شاداب ماحول سے بدلنے کا احساس کریں۔ مِل جُل کر کوششیں ہوں گی تو برکت بھی ہوگی۔


آج آپ کے اور ہمارے چھوٹے گملوں، کیاریوں اور زمین کے مختصر حصوں پر لگائے گئے ننھے ننھے پودے جلد سرسبز ہوکر اِس ملک کے سبزے کو وسیع کریں گے، آپ کے جھنڈے کا سبز رنگ آپ کے لگائے سبزے سے ہم آہنگ ہوگا۔ روزِ قیامت آپ کے لگائے گئے یہ پودے درخت زمین سب ہی آپ کی اِس قومی نیکی کے گواہی بھی دیں گے۔


تو دوستوں پھر آپ بھی اپنے حصے کا پودا لگا رہے ہیں ناں؟



نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔