’’برننگ ایشو‘‘
افواج کے اہلکار اور خصوصاً آرمرڈ فورسز میں کام کرنے والوں کو شدید جھلسنے کے خدشات کا سامنا رہتا ہے
عید الفطر سے ایک روز قبل 25جون کو کراچی سے لاہور 40ہزار لیٹر پیٹرول لے کر جانے والا ٹینکر بہالپور میں موڑ کاٹتے ہوئے اُلٹ گیا۔ ایندھن سے بھرا یہ ٹینکر کس قدر خطر ناک تھا، اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے، جائے حادثہ کے قریبی علاقوں سے سیکڑوں افراد بوتلیں، کین، اور برتن لیے بہنے والا پیٹرول حاصل کرنے کے لیے جمع ہونے لگے۔ موٹروے پولیس نے اس ہجوم کو روکنے کی کوشش کی لیکن کسی نے ان کی ایک نہ سنی۔ آخر کار حادثہ ہوگیا، آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں 180افراد جان سے گئے اور 200 سے زاید زخمی ہوئے، جن کی بڑی تعداد تشویش ناک حالت میں ہے۔ حادثے کے متاثرین کو وکٹوریہ ہاسپٹل (جہاں برنز یونٹ نہیں تھا)، سی ایم ایچ بہاولپور، اور شدید جھلسنے والے مریضوں کو لاہور، ملتان اور فیصل آباد منتقل کیا گیا۔
ملتان، لاہور، فیصل آباد ، بہاولپور، راولپنڈی، پشاور، اور کراچی سمیت ملک کے تمام ٹیچنگ اسپتالوں میں قائم برنز وارڈ میں دستیاب سہولتیں ناکافی ہیں اور صرف بنیادی علاج معالجہ ہی ممکن ہے، اسی وجہ سے وہاں آنے والے مریضوں کی شرح اموات بھی زیادہ ہے۔ برسوں بیت المال سے ملنے والے عطیات کے باجود وسیع عمارت میں قائم برنز سینٹر جناح اسپتال لاہور میں بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث پیچیدہ اور نازک کیسز کا علاج ممکن نہیں۔کیا یہ شہباز شریف کی ''دوراندیشی'' تھی جو انھوں نے علامہ اقبال میڈیکل کالج، جناح اسپتال لاہور کے پرنسپل محمود شوکت کو (جو اب ریٹائرڈ ہوچکے) لاہور میں ان سہولیات کی بہتری کے لیے پمز برنز سینٹر بھیج دیا؟
''انٹرنیشنل سوسائٹی آف برن انجریز'' کے پروٹوکولز کے مطابق، برنز سینٹر میں داخلے کے لیے چند معیارات مقرر کیے گئے ہیں۔1) تھرڈ ڈگری برن جس سے جسم کی بیرونی سطح (BSA)پانچ فیس فی صد متاثر ہوئی ہو، مریض کسی بھی عمر کا ہو۔ 2) دس سے پچاس برس کے مریض جن کے زخم دوسرے اور تیسرے درجے کے ہوں اور دس فی صد BSAمتاثر ہو۔ 3) دیگر عمر کے افراد میں سیکنڈ اور تھرڈ ڈگری برنز جن میں 20فی صد بی ایس اے متاثر ہو۔ 4)جھلسنے کے باعث ہونے والے زخموں کی شدت دوسرے اور تیسرے درجے کی ہو اور چہرہ، ہاتھ، پاؤں، اعضائے تناسل اور جسم کے بڑے جوڑ متاثر ہوچکے ہوں۔
5) کرنٹ اور آسمانی بجلی سے متاثرہ افراد۔ 6)کیمیکل سے جھلسنے والے مریض۔ 7) بھاپ سے جھلسنے والے مریض۔ 8)ایسے مریض جو جھلسنے کے ساتھ ساتھ پہلے ہی کسی طبی پیچیدگی کا شکار ہوں جس کی وجہ سے ان کی صحت یابی میں شدید رکاوٹیں حائل ہوں اور موت کا خدشہ پیدا ہوجائے۔9) ایسے مریض جو جھلسنے کے ساتھ ساتھ شدید صدمے(ٹراما) کا بھی شکار ہوں اور اس وجہ سے مریض کو لاحق خدشات میں تشویش ناک اضافہ ہوچکا ہو۔ ٹراما کی شدت کو دیکھتے ہوئے، ایسے مریض کو پہلے ٹراما سینٹر میں داخل کیا جاتا ہے اور بعدازاں برنز سینٹر منتقل کیا جاتا ہے۔ جھلسنے والے افراد کے علاج کے لیے تین سطح کی سہولتیں دستیاب ہونی چاہییں۔ کسی بھی پلاسٹک یا جنرل سرجری وارڈ میں ایک برن وارڈ ہونا چاہیے۔ برن یونٹ جس میں الگ تھلگ وارڈ ہو اور وہاں معمولی اور شدید زخموں کے علاج معالجے کی سہولتیں بھی دستیاب ہوں۔ برنس سینٹر کے بہترین سہولت جہاں شدید ترین جھلسنے والے مریضوں کے علاج کے بنیادی سہولیات اور تربیت یافتہ عملہ موجود ہو۔
افواج کے اہلکار اور خصوصاً آرمرڈ فورسز میں کام کرنے والوں کو شدید جھلسنے کے خدشات کا سامنا رہتا ہے۔ سی ایم ایچ کھاریاں، نیسکوم اسلام آباد اور پی او ایف واہ میں ان کے لیے برنز سینٹر قائم ہیں۔ جب کہ عام شہری کو ان اداروں میں یہ علاج ایک لاکھ روپے یومیہ تک پڑسکتا ہے۔
صدر مملکت نے 6دسمبر کو پمز میں بیس بستروں کے بہترین برن کیئر سینٹر کا افتتاح کیا۔ یہ سینٹر عالمی معیارات کے عین مطابق اور پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا سرکاری ادارہ ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں اس سینٹر میں 77ہزار مریضوں کا علاج کیا گیا، جن میں صحت یابی کی شرح کا موازنہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے اداروں کی کارکردگی سے کیا جاسکتا ہے۔
پمز میں جھلسنے والے مریضوں کو بلامعاوضہ علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے جس میں بائیو ڈریسنگ کی مدد سے جلد کی پیوند کاری بھی شامل ہے۔شدید متاثرہ افراد کے لیے سنتھیٹک اسکن اور بائیولوجیکل ڈریسنگ کے لیے مطلوبہ جدید ترین ٹیکنیکس اور سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں۔ یہاں بستروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے دیگر شہروں سے آنے والے مریضوں کا داخلہ نہیں ہوپاتا۔ جنوری 2008ء سے دسمبر 2016ء تک 77ہزار مریض یہاں لائے گئے جن میں سے 3918 کو داخل کیا گیا۔ 2908مریض صحت یاب ہوئے، یہ شرح 74فی صد بنتی ہے جب کہ 26فی صد (1010مریض) جانبر نہیں ہوسکے۔
کم شرح اموات کے اعتبار سے یہ کارکردگی قابل تحسین ہے۔ 51سے 60فی صد جھلسے ہوئے افراد کی شرح اموات امریکا میں سات جب کہ پمز میں 12فی صد ہے، جب کہ پاکستان کے دیگر سرکاری اسپتالوں میں یہ شرح 90فی صد ہے۔ 41سے 50فی صد تک جھلسے ہوئے افراد کی امریکا میں شرح اموات پانچ جب کہ پمز میں 10فیصد ہے جب کہ دیگر اسپتالوں میں یہ شرح 86فی صد ہے۔ تیس سے چالیس فیصد تک جھلسنے والوں کی اموات کی شرح امریکا میں 2اور پمز میں 4فی صد ہے جب کہ دیگر اداروں میں یہ 70فی صد تک ہے۔
ڈاکٹر طارق اقبال وہ غیر معمولی معالج ہیں جنہوں نے اس شاندار سینٹر کے لیے اگست 2003ء میں پی سی ون کی منظوری لی اور 2008ء سے ادارے کے قیام کے بعد سے اس کے ساتھ منسلک ہیں۔ انھوں نے متعلقہ ماہرین کی مشاورت سے اس ادارے کا ڈھانچا کھڑا کیا۔ 2008ء میں انھیں اس منصوبے کا سربراہ بنایا گیا اور انھوں نے مقررہ وقت اور مختص وسائل میں یہ ادارہ قائم کردکھایا۔ تربیت اور تجربات کے مشاہدے کے لیے ڈاکٹر طارق نے نیدرلینڈ، برطانیہ اور امریکا میں متعدد عالمی معیار کے برنز سینٹرز کا دورہ کیا۔ برنز یونٹ کے سربراہ اور پُرخلوص معالج نے خود کو مکمل طور پر جھلسنے کے واقعات سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے وقف کردیا۔
موٹر ویز اور ہائی ویز کی تعمیر میں کھربوں روپے جھونک دیے جاتے ہیں لیکن پاکستان کی اہم شاہراہوں کے ساتھ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے سہولیات کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ بہاولپور سانحے میں آگ کیسے بھڑک اٹھی؟ اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ایسے کسی حادثے سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ تربیت، آلات اور صلاحیتیں موجود تھیں۔ خدانخواستہ کسی جوہری حادثے کی صورت میں کیا قیامت ٹوٹے گی؟ مستقبل میں زندگیوں کو محفوظ بنانا ہے تو جھلسنے والے مریضوں کے علاج کے لیے پہلی فرصت میں علاج معالجے کی سہولیات پر کام کی ضرورت ہے۔ ملک کے تمام بڑے شہروں میں برن سینٹر قائم کرنے ہی سے یہ ممکن ہوگا۔