میں اور مسرور انورحصہ سوئم

جب میں لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوا تو مسرور انور نے ہی قدم قدم پر میری رہنمائی کی تھی


یونس ہمدم July 01, 2017
[email protected]

یہ وہ دور تھا جب مسرور انور کے گیتوں کا جادو لاہور کی فلم انڈسٹری میں سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اسی دوران شمیم آرا نے بحیثیت فلمساز و ہدایت کار اپنا ذاتی پروڈکشن ہاؤس قائم کیا اور اس نے بطور مصنف اور نغمہ نگار مسرور انور کو اپنے ادارے میں شامل کرلیا۔ اداکارہ شمیم آرا نے پہلے بطور فلمساز رضیہ بٹ کے ناول ''صاعقہ'' کو فلم کا روپ دیا تو مسرور انور نے ہی فلم کے مکالمے اور گیت لکھے تھے اور ''صاعقہ'' کو ایک سدابہار فلم کی حیثیت سے ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔ ''صاعقہ'' کے گیتوں نے بھی بڑی دھوم مچائی تھی اور خاص طور پر یہ سب گیت۔

اِک ستم اور مری جاں، ابھی جاں باقی ہے
اے بہارو گواہ رہنا، اے نظارو گواہ رہنا
آ جا تیرے پیار میں ہے دل بے قرار
پیاسی نگاہیں کریں تیرا انتظار

یہ گیت احمد رشدی، مالا اور رونا لیلیٰ کی آوازوں میں ریکارڈ کیے گئے تھے اور اس زمانے میں گلی گلی گائے جاتے تھے۔ مسرور انور سے پہلے تعداد کے اعتبار سے جس شاعر نے سب سے زیادہ گیت لکھے وہ فیاض ہاشمی مشہور تھے، مگر مسرور انور نے فلمی دنیا میں آکر ان کا ریکارڈ بھی توڑ دیا تھا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فلمی دنیا میں دو نغمہ نگار ایسے تھے جو فلم کی سچویشن کے اعتبار سے کم سے کم وقت میں گیت لکھنے کے ماہر تھے۔ ان میں ایک تسلیم فاضلی اور دوسرا مسرور انور تھا، بلکہ مسرور انور تو سچویشن سن کر چٹکیاں بجاتے ہوئے گیت کا مکھڑا گنگنا کر موسیقار کو سنا دیتا تھا اور موسیقار مسرور انور کے ترنم سے بھی بعض اوقات فائدہ اٹھالیا کرتے تھے، کیونکہ مسرور گاتا بھی خوب تھا اور اسکول کے زمانے ہی سے اس کے ترنم اور گائیکی کے قصے مشہور تھے۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کراچی کی فلموں سے لے کر لاہور کی فلم انڈسٹری تک مسرور انور نے جتنے بھی فلموں کے لیے گیت لکھے انھیں عوام میں بڑی پذیرائی حاصل رہی ہے۔ حالانکہ چند ایک فلمیں فلاپ بھی ہوئی ہیں مگر ان میں بھی مسرور انور کے لکھے ہوئے گیتوں کو مقبولیت حاصل رہی اور یہ خوبی مشکل ہی سے کسی نغمہ نگار کو فلمی دنیا میں حاصل ہوئی ہے۔ مسرور انور کے مقبول ترین گیتوں کی ایک طویل فہرست ہے، جن کا باقاعدہ تذکرہ اس کالم میں کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے، پھر بھی کچھ سپرہٹ گیتوںکا تذکرہ نہ کرنا بھی ناانصافی ہوگی اور وہ گیت ہیں۔

اکیلے نہ جانا، ہمیں چھوڑ کر تم (فلم: ارمان)
میرے خیالوں پر چھائی ہے اِک صورت متوالی سی (فلم: ارمان)
بھولی ہوئی ہوں داستاں، گزرا ہوا خیال ہوں (فلم: دوراہا)
مجھے تم نظر سے گِرا تو رہے ہو (فلم: دوراہا)
کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے (فلم: عندلیب)
یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی (فلم: آگ)
لیے آنکھوں میں غرور ایسے بیٹھے ہیں حضور (فلم: آگ)
ہم چلے تو سنگ سنگ ہمارے نظارے چلے (فلم: جاگیر)
خاموش ہیں نظارے اک بار مسکرادو (فلم: بندگی)
اظہار بھی مشکل ہے چپ رہ بھی نہیں سکتے (فلم: انجمن)
دل دھڑکے، میں تم سے، یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ (فلم: انجمن)
آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آگئے (فلم: انجمن)
ابھی ڈھونڈ ہی رہی تھی تمھیں یہ نظر ہماری (فلم: بے وفا)
نیناں ترس کر رہ گئے پیا آئے نہ ساری رات (فلم: آسرا)
جیون بھر ساتھ نبھائیں گے دونوں (فلم: آرزو)
تو پھول ہے میرے گلشن کا (فلم: پھول میرے گلشن کا)
اک بار ملو ہم سے تو سو بار ملیں گے (فلم: بوبی)
اﷲ ہی اﷲ کیا کرو، دکھ نہ کسی کو دیا کرو (فلم: پہچان)

مسرور انور وہ خوش قسمت نغمہ نگار تھا جس کے گیتوں کو نورجہاں، مہدی حسن سے لے کر پاکستان کے تمام نامور گلوکاروں، گلوکاراؤں نے گایا اور ہر بڑے سے بڑے موسیقار سے لے کر نئے موسیقاروں نے بھی اس کے گیتوں سے فائدہ اٹھایا اور اپنی کامیابی کے سفر کو آگے بڑھایا ہے۔ فلم ''ارمان'' سے لے کر فلم ''پہچان'' تک مسرور انور کو بحیثیت بہترین نغمہ نگار قومی ایوارڈ کے علاوہ ملک کے تمام مشہور ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔

جب میں لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوا تو مسرور انور نے ہی قدم قدم پر میری رہنمائی کی تھی اور مجھے یہ ٹپ بھی دی تھی کہ یونس تم ابھی نئے نئے فلم انڈسٹری میں داخل ہوئے ہو، یہاں گروپ بندی چلتی ہے، تم کسی مرحلے پر حوصلہ نہ ہارنا، اور فلمساز و ہدایت کار کے ساتھ موسیقاروں کی گڈ بک میں آنے کی بھی کوشش کرو اور اپنے تعلقات بڑھاؤ۔ انھی دنوں مسرور انور فلمساز، ہدایتکارہ و اداکارہ شمیم آرا کی پروڈکشن سے بھی بحیثیت اسکرپٹ رائٹر اور نغمہ نگار منسلک ہوگیا اور خوش قسمتی سے میں بھی سنگیتا کے فلمساز ادارے پی این آر پروڈکشن سے وابستہ ہوگیا تھا۔ میں نے سنگیتا کی فلم ''میں چپ رہوںگی'' کا اسکرپٹ بھی لکھا اور گانوں کے ساتھ ساتھ فلم ''لال آندھی'' کے مکالمے بھی لکھے، جس کی ہدایت کارہ سنگیتا اور فلمساز سرور سکھیرا تھے۔ اسی دوران نگار پبلک فلم ایوارڈ کے لیے سنگیتا کی فلم ''تیرے میں سپنے'' میں لکھا ہوا میرا گیت جو ناہید اختر نے گایا تھا، موسیقار کمال احمد تھے اور بول تھے: ''میں ہوگئی دلدار کی، ہونے لگی چبھن پیار کی، دل میں کانٹا سا چبھ گیا، چبھ گیا'' کو اس سال نگار ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔

میرے گیت کے ساتھ جو دوسرا گیت نامزد ہوا وہ مسرور انور کا لکھا ہوا تھا جو فلم ''پہچان'' سے تھا، جس کے موسیقار نثار بزمی تھے اور گیت کے بول تھے ''اﷲ ہی اﷲ کیا کرو، دکھ نہ کسی کو دیا کرو'' یہ مذکورہ دونوں ہی گیت ناہید اختر کے گائے ہوئے تھے اور دونوں ہی اس سال کے سپرہٹ گیت تھے۔ جب میں نے بہترین گیت کے لیے نگار ایوارڈ کوپن پُر کیا تو میں نے بھی مسرور انور کے لکھے ہوئے گیت کا ہی انتخاب کیا۔ کیوں کہ مسرور انور کے گیت کے سامنے مجھے اپنا لکھا ہوا گیت ہلکا لگا تھا۔ پھر اس سال بہترین گیت نگار کا نگار فلم ایوارڈ بھی مسرور انور کو دیا گیا۔ میں نے مسرور انور کو اس بات کی مبارکباد دی تو مسرور انور نے کہا یار اس سال تمہارا گیت بھی ایوارڈ کے قابل تھا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا تھا ''مائی ڈیئر تمہارا ایوارڈ بھی تو میرا ہی ایوارڈ ہے''۔ مسرور انور ایک ایسا نغمہ نگار تھا جس کے گیتوں کو سب سے زیادہ عوامی مقبولیت حاصل ہوئی تھی اور جس کے سپر ہٹ گیتوں کی تعداد دیگر شاعروں سے زیادہ رہی ہے۔

اب میں آتا ہوں مسرور انور کی ریڈیو کے لیے لکھی ہوئی اس تہلکہ خیز غزل کی طرف جو مسرور انور نے ریڈیو ہی کے لیے اس زمانے میں لکھی تھی، جب وہ ریڈیو کی کمرشل سروس میں اسٹاف رائٹر تھا اور دیبو بھٹاچاریہ بھی ریڈیو کے لیے دھنیں کمپوز کیا کرتے تھے۔ یہ غزل ملتان ریڈیو کی ایک گلوکارہ جب وہ کراچی ریڈیو آئی تھی تو اس نے ریڈیو کی ریکارڈنگ کے حساب سے گائی تھی۔ وہ گلوکارہ تھیں ثریا ملتانیکر، جسے اس وقت صرف ملتان ہی کی حد تک لوگ جانتے تھے۔ مگر جب اس نے مسرور انور کی لکھی ہوئی وہ غزل گائی تو اس غزل کی بازگشت ریڈیو سیلون تک گئی اور وہ غزل نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی پسندیدگی کی سند بنی، پھر اس غزل کو فلمساز اقبال شہزاد نے اپنی شہرۂ آفاق فلم ''بدنام'' کے لیے نئے سرے سے ریکارڈ کرایا تھا اور فلم میں وہ غزل اداکارہ نبیلہ پر فلمائی گئی تھی۔ اس غزل نے بھی مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑدیے تھے۔ وہ غزل قارئین کی نذر ہے۔

محبت کی جھوٹی اداؤں پہ صاحب، جوانی لٹانے کی کوشش نہ کرنا
بڑے بے مروت ہیں، یہ حسن والے، کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا
ہنسی آتی ہے اپنی بربادیوں پر، نہ یوں پیار سے دیکھیے بندہ پرور
مرے دل کے زخموں کو نیند آگئی ہے، انھیں تم جگانے کی کوشش نہ کرنا
ستم گر سے جوروستم کی شکایت، نہ ہم کرسکے ہیں نہ ہم کرسکیں گے
مرے آنسوؤں تم، مرا ساتھ دینا، انھیں کچھ بتانے کی کوشش نہ کرنا
شمع بن کے محفل میں ہم جل رہے ہیں، مگر دل کی حالت ہے پروانوں جیسی
خدا کی قسم، جان دے دیں گے تم پر، ہمیں آزمانے کی کوشش نہ کرنا

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں