ایک سچ کے دو روپ
اپنے کام کے اعتبار سے اس سے بہت زیادہ عزت، شہرت اور مقبولیت کے حق دار ہیں جو فی الوقت انھیں حاصل ہے
جوانمرگ دوست اور اپنی طرز کے منفرد شاعر سید مبارک شاہ کا جملہ کلام ''کلیات سید مبارک شاہ'' مرتبہ سلطان ناصر اور گل شیر بٹ جو جہلم سے امر اور گگن شاہد نے اپنے ادارے ''بک کارنر'' کی طرف سے بہت عمدگی اور لگن سے شائع کیا ہے۔
پچھلے پندرہ دن سے مسلسل میرے مطالعے میں ہے، خیال تھا کہ اس میں بار بار دہرائے جانے والے مابعد الطبیعاتی مضامین اور موضوعات پر الگ سے ایک کالم لکھوں گا کہ تصوف، روحانیت، شک اور کہیں کہیں افکار کی حد کو چھوتے ہوئے ان افکار میں گھرے ہوئے سید مبارک شاہ کی یہ تخلیقی دنیا شعوری تجزیے اور قلبی واردات کا ایک ایسا انوکھا اور حیران کن منظرنامہ ہے جس کا بیشتر حصہ مانوس ہونے کے باوجود ایک مخصوص نوع کی انفرادیت کا حامل بھی ہے اور جس کا رخ شاعر کے باطن میں موجود کچھ ایسے سوالوں اور تجزیوں کی طرف ہے جن میں ہماری روایت کی روشنی اور مستقبل کا دھندلکا ایک دوسرے میں صنم ہوتے چلے جارہے ہیں۔
لیکن اسی دوران میں ڈاک سے ایک نامعلوم شاعر عمران شمشاد کا شعری مجموعہ ''عمران کی شاعری'' ملا جو ہر اعتبار سے ایک بالکل مختلف دنیا کا نقشہ پیش کرتا ہے مگر کمال کی بات ہے کہ دونوں مرکزی موضوع اور سچ ایک ہی ہے، فرق صرف اسے اندر اور باہر کی آنکھ سے دیکھنے کا ہے۔
سید مبارک شاہ اور اس کے گہرے دوست (اور غالباً سول سروس کے بیج میٹ بھی) ڈاکٹر وحید احمد سے میری ملاقات تقریباً ربع صدی پرانی ہے اور اس سارے عرصے میں مجھے یہ احساس ہمیشہ پریشان کرتا رہا ہے کہ یہ دونوں قلم کار تخلیقی صلاحیت اور اپنے کام کے اعتبار سے اس سے بہت زیادہ عزت، شہرت اور مقبولیت کے حق دار ہیں جو فی الوقت انھیں حاصل ہے۔ اس کے اسباب کسی حد تک ان کی سرکاری افسری، دور بینی،کم آمیزی اور شہرت پسندی سے فطری گریز بھی ہوسکتے ہیں مگر غور سے دیکھا جائے تو یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور غور طلب ہے۔ دونوں نے ہی بوجوہ اپنے اندر کی دنیا میں رہنا زیادہ پسند کیا ہے، یہ اور بات ہے کہ سید مبارک شاہ نے آہستہ آہستہ زندگی کو غالب کے لفظوں میں ''ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں'' کی طرح دیکھنا شروع کردیا اور اس سوال کی حیرتوں میں گم ہوتا چلا گیا کہ
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں!
یہ سوال اور اس کی بازگشت کا اصل منظر تو اس کی نظموں میں کھلتا ہے لیکن کالم کی وسعت داماں کے پیش نظر فی الوقت غزلوں کے کچھ اشعار پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا کہ ابھی اس سچ کے اس دوسرے روپ پر بھی کچھ بات کرنی ہے جس کا آئینہ ''عمران کی شاعری'' کے روبرو ہے۔
توحید میں بھی شرک کا دعویٰ شریک ہے
میرا وجود ''لا'' ہے خدا لاشریک ہے
جب لوگ یہ کہتے ہیں خدا دیکھ رہا ہے
میں دیکھنے لگتا ہوں کہ کیا دیکھ رہا ہے
بچھڑنا ہے تو پھر اس کا طریقہ
چلو کچھ دیر مل کر سوچتے ہیں
رکھتا نہیں ہے ذہن میں گرچہ خدا وجود
دل میں دھڑک رہا ہے مگر اس کے باوجود
ہو خداؤں کا تسلط جس جگہ
اس علاقے میں خدا ہوتا نہیں
بتا ان اہل عالم کی سزا رکھی ہے کیا تو نے
خداوند! جو تجھ کو احتیاطاً مان لیتے ہیں
کہا عشق نے کہ میں جبر ہوں مجھے اختیار نہ کیجیے
میں بضد وہم و یقین ہوں میرا اعتبار نہ کیجیے
جو جھکا ہے سر نہ اٹھائیے تو بس ایک سجدہ قبول ہے
جو نہیں تو کار فضول ہے اسے بار بار نہ کیجیے
اب قصہ کچھ یوں ہے اس کتاب ''عمران کی شاعری'' کی وصولیابی سے قبل نہ میں کبھی عمران شمشاد سے ملا ہوں اور نہ ہی میری یادداشت میں اس کا کوئی شعر موجود تھا۔ عام طور پر میں ایسی اجنبی کتابوں پر صرف ایک سرسری سی نظر ہی ڈال پاتا ہوں کہ قابل مطالعہ کتاب کا پہلا صفحہ ہے دیگ کے دانے کی طرح ہوتا ہے۔ مگر ''عمران کی شاعری'' نے اپنے انوکھے انداز، تراکیب، مضامین اور ذخیرہ الفاظ کی وجہ سے کچھ ایسا رنگ جمایا کہ صفحہ در صفحہ Subline اور Ridicolous آپس میں دست و گریبان ہوتے چلے گئے۔
کہیں ظفر اقبال، محمد علوی اور مظفر حنفی کی جھلک دکھائی دی اور کہیں ناصر، فراز اور احمد مشتاق کی آہنگ بازگشت نے راستہ روک لیا لیکن جوں جوں صفحے پلٹتا گیا یہ سب لوگ ایک طرف ہوتے چلے گئے اور آخر میں صرف عمران شمشاد باقی رہ گیا۔ سید مبارک شاہ کی کلیات میں جو سچ اندر کی آنکھ پر روشن ہوتا نظر آیا وہ اس شاعر کے ہاں ''جگ بیتی'' کا ایک منفرد روپے اختیار کرگیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ بات موازنے کے حوالے سے نہیں بلکہ ایک عمومی تاثر سے رشتہ آرا ہے۔ یہ شاعری اس اردو میں کی گئی ہے جسے آپ بے شک ''اردوے محلہ'' کہہ لیں مگر اس کے Slang کا انداز بیک وقت دیکھنے، سوچنے اور سمجھنے اور لطف اندوزی کی ایک ایسی فضا ضرور پیدا کرتا ہے جسے اپنی مثال آپ کہا جاسکتا ہے۔ نمونے کے چند اشعار درج کرنے سے قبل ڈاکٹر ضیاء الحسن کے دیباچے کی تعریف اور داد ضروری ہے کہ یہ بہت ہی محبت اور مہارت سے لکھا گیا ہے۔
یہ کرو، وہ نہیں، وہ کرو، یہ نہیں
ٹوکتی ہی رہی عمر بھر زندگی
ایک دن اکتا کے کشتی نے کہا
اس سمندر کا کوئی ساحل بھی ہے!
کہیں پیپل اُگے ہیں تیری منزل کے چھجے پر
کہیں کھڑکی کی چوکھٹ سے کوئی قبضہ نکل آیا
یہ فری مینوں کی دنیا ہے
اس میں کیا کام تیرے جیسوں کا
ہیں مسلمان مثل دسترخوان
اور دنیا کو آرہا ہے مزا
پھول بھیجا ہے کسی نے جیل میں
کیک بھیجا ہے کسی نے دال پر
نیند آنے لگی تو یاد آیا
میں تو سب خواب بیچ آیا ہوں
واجد ویٹر ہے ہوٹل مونا لیزا میں
لیکن اپنی مونا لیزا ڈھونڈ رہا ہے
دفتر جانے کی جلدی میں پھر عمران
اپنی چابی، اپنا چشمہ، ڈھونڈ رہا ہے