عقل شعور اور گھنگھرو

علم اور تعلیم کی کمی بلکہ نہ ہونے کے برابر تعلیم نے ہم بہترین انسانوں والی قوم کو جانور سے بدتر بنادیا ہے


فرح ناز July 02, 2017
[email protected]

لاہور: بے حسی بہت تیزی کے ساتھ ہم سب میں پروان چڑھ رہی ہے۔ بے حسی کے ساتھ ساتھ دیکھنے میں جو آرہا ہے وہ یہ ہے کہ لوٹ مار میں بھی ہم دلچسپی رکھتے ہیں۔ میڈیا نے جو گیم شو شروع کیے ہیں اور جس تیزی کے ساتھ عوام میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں، ان گیم شوز کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مفت کا مال حاصل کرنے کا شوق پروان چڑھ رہا ہے، جہاز، مرسڈیز، بڑی بڑی گاڑیاں، گھر وغیرہ وغیرہ، یہ مائنڈ سیٹ اللہ جانے کہاں لے کر جا رہا ہے۔ بہرحال رمضان کے آخری دنوں میں احمد پور شرقیہ کا واقعہ، مفت پٹرول کا لالچ سیکڑوں زندگیوں کو کھا گیا، تکلیف دہ اموات سے پورا ملک سوگوار ہوگیا ہے اور عید کی خوشیاں ماند پڑ گئیں۔ گو عید ہمارا بنایا ہوا تہوار نہیں بلکہ ہمارے مذہبی فرائض ادا کرنے کے بعد اللہ پاک کی طرف سے تمام مسلمانوں کے لیے انعام ہے، خوشیوں سے بھرا ہوا یہ تہوار ماند پڑ گیا۔

احمد پور کے واقعے کے بعد کولڈڈرنک کا ایک بھرا ہوا ٹرک خراب ہوا اور تمام لوگوں نے ٹرک پر لدا ہوا سامان منٹوں میں لوٹ لیا۔ کراچی، حیدرآباد کے راستے میں پٹرول کا بھرا ہوا ٹرک رکا اور وہاں کے اردگرد رہنے والے اتنے بڑے واقعے کے بعد پھر سے پٹرول کی لوٹ مار میں لگ گئے، بجائے اس خوف کے کہ اللہ نہ کرے دوبارہ خوفناک واقعہ رونما ہوجائے۔ غربت و افلاس، شدید مہنگائی اور ضروریات زندگی کی رسائی نہ ہونے پر انسانی رویے اور جذبات بدل جاتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، اور یہاں تو عوام خود چکی میں پس رہے ہیں اور انھیں لوٹنے والے شان و شوکت سے زندگی گزارتے ہوئے نظر آرہے ہیں تو کیوں نہ معاشرہ بدلے، کیوں نہ لوگوں کے جذبات بدلیں۔

احمد پور شرقیہ کے حوالے سے ایک واقعہ بھی نظر سے گزرا، وہ بھی سن لیجیے۔ مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے 6 جولائی 2012 کو احمد پور کے ایک دماغی ابنارمل آدمی، غلام عباس کو قرآن پاک کے اوراق جلانے کے الزام کے تحت گرفتار کرکے پولیس اسٹیشن لایا گیا، بعدازاں قریبی مسجد سے اشتعال انگیز اعلان کیا گیا کہ اس آدمی نے توہین قرآن کی ہے اور وہ حوالات میں ہے۔ اس پر گاؤں کے لوگ مشتعل ہوکر گھروں سے نکل آئے اور گاؤں سے گزرتی ہوئی مرکزی لاہور کراچی ہائی وے بلاک کردی، انھوں نے حوالات کے دروازے توڑ کر اس بے گناہ دماغی ابنارمل شخص کو حوالات سے نکال کر اس پر پٹرول چھڑکا اور آگ لگادی۔

لگ بھگ دو ہزار کا مقامی مشتعل ہجوم وہاں کھڑا دیکھتا رہا اور جلتے ہوئے انسان کو پتھر مارتے رہے، جب تک کہ وہ شخص جل کر راکھ نہ ہوگیا۔ 25 جون 2017 کو اسی مرکزی لاہور کراچی ہائی وے پر 50 ہزار لیٹر پٹرول لے جاتا ہوا ایک ٹرالر الٹ گیا، لوگوں کو لاؤڈ اسپیکر سے لیک ہوتے ہوئے پٹرول کی نوید سنائی گئی، لوگ گھروں سے بالٹیاں، ڈبے لے کر پہنچ گئے، سیکڑوں لوگ اپنے اپنے برتن لے کر ٹرک کے اردگرد پٹرول بھرنے لگے۔ کہتے ہیں کہ ٹرک کے سوراخ کو بڑا کرنے کے لیے ہتھوڑے سے ضرب لگائی گئی تو پٹرول نے آگ پکڑ لی، ٹینکر دھماکے سے پھٹ گیا، 155 سے زائد لوگ عین اس جگہ جل کر راکھ ہوگئے جہاں غلام عباس کو پانچ سال پہلے زندہ جلایا گیا تھا۔ اللہ اکبر ! بے شک اللہ پاک موجود ہے اور وہ ذرہ برابر بھی غافل نہیں۔

اف خدایا، تعلیم اور علم کی کمی نے ہمیں کیا سے کیا بنا دیا، اور ابھی تک ایسا تعلیم پر کوئی کام ہو بھی نہیں رہا ہے کہ عام آدمی سے خاص آدمی تک انسانیت کو جگایا جاسکے، اگر یہی حال رہا تو کیا ہم جانوروں کی طرح اپنے رویے رکھیں گے۔ گو اب بھی ہم ایک جنگل میں رہ رہے ہیں مگر امید رکھتے ہیں کہ اللہ پاک ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔

بحیثیت مسلمان پوری زندگی ہمارے پاس موجود ہے، نبی پاکؐ کی حیات طیبہ ایک رول ماڈل، سادہ، ایمان افروز، سچے کھرے، قول و فعل میں یکساں ہمارے نبیؐ جن کا کوئی ثانی نہیں، جو قیامت تک ہمارے لیے ایک ایسی روشن مثال ہیں کہ ان کا ہلکا سا سایہ بھی ہماری اندھیری زندگیوں کو روشن کرسکتا ہے، مگر ہم نہ جانے کہاں کہاں بھٹک رہے ہیں، اللہ پاک تو 70 ماؤں سے زیادہ مہربان ہے، وہ ہمیں کیسے دکھ دے سکتا ہے، مگر ہمارے اعمال! ذلیل و خوار، رسوا ہونے کے باوجود، بے شرمی کی موٹی موٹی چادریں کیا حقیقت کو چھپا سکتی ہیں، جب زمانہ چیخ چیخ کر کرپشن کی داستانیں سنائے، جب پوری دنیا میں رسوائی اور ذلت کے ڈنکے بج جائیں، تو کیا ہم عزت دار بن جائیں گے۔

انسان سب کو بھولے مگر رب کو نہ بھولے، بے حسی ایسی کہ ایک ایم پی اے نے زندہ سلامت ٹریفک پولیس افسر کو اپنی دندناتی گاڑی سے کچل دیا، پھر وہ ٹی وی کے ایک نیوزBeep میں اکڑ اکڑ کر جواب بھی دیتا ہے، جیل میں اے سی کے مزے بھی لیتا ہے اور ہم سب بھی یہی گمان کرتے ہیں کہ جیسے بھی ہو، ان کا اور اس پولیس افسر کے گھر والوں کے درمیان ''معاہدہ'' ہوجائے گا، کچھ ہی دنوں میں بات دب جائے گی، لوگ بھول جائیں گے، جیسے کہ شاہ زیب کے قتل پر ہوا۔ سامنے قتل، احتجاج، دھرنے، بات چیت اور پھر؟ اللہ پاک کے قوانین دنیا بننے سے ختم ہونے تک کے لیے ہیں، زندگی و موت اللہ پاک کے پاس ہے، وہ بے شک ہر چیز کا مالک ہے، پھر انسانوں کے قوانین تو صرف وہ ہوسکتے ہیں جو روزمرہ کے لیے ہوں۔ پوری زندگی کن اصولوں پر گزارنی ہے یہ قوانین تو پتھر کی لکیر کی طرح موجود ہیں، آج موجودہ سائنس بھی اس بات کی حامی بھرتی ہے جو طریقہ کار رسول پاکؐ نے اپنایا۔

علم اور تعلیم کی کمی بلکہ نہ ہونے کے برابر تعلیم نے ہم بہترین انسانوں والی قوم کو جانور سے بدتر بنادیا ہے، ہم بھاگے جا رہے ہیں، بھاگے جا رہے ہیں کہاں؟ کچھ پتا نہیں، مغربی طرز کے لباس پہن کر کیا ہم ماڈرن ہوگئے، پھٹی ہوئی جینز پہن کر، ناچنے گانے سے ہم لبرل ہوگئے؟ کیا بغیر دوپٹے کے سوٹ پہن کر ہم نے انتہا پسندی کو مات دے دی؟ کیا بے نمازی ہوکر، قرآن کو بند کرکے رکھ دینے سے ہم آزاد ہوگئے؟ پانچ وقت مساجد کے لاؤڈ اسپیکر سے اذانوں کی آوازیں کبھی مدھم نہیں ہوں گی، ہر اس شخص کو اپنی طرف بلاتی رہیں گی جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا، بے حسی آخر کب تک؟ عدل و انصاف ہی معاشروں کا حسن ہے، ہر خاص و عام کی زندگی انسانوں والی ہو اور بے شک اللہ پاک سب علم رکھنے والا ہے، بس آخری بات وہ یہ کہ جس معاشرے میں عقل اور شعور گھنگھرو باندھ لیں وہاں نفس بھی ناچتا ہے، اور انسانیت بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں