سفید فام دہشت گردی

امریکا جیسے محفوظ ملک میں مسلمانوں کے خلاف عوامی ردِعمل سترفیصدبڑھ گیا۔


راؤ منظر حیات July 03, 2017
[email protected]

ریشم خان انتہائی خوبصورت اورپُراعتماد لڑکی ہے۔ برطانوی مسلمان ہونے کی وجہ سے اس کے خواب بے حد بلنداورترقی پسند تھے۔قبرص میں ایک کورس کرنے گئی اور وہاں تعلیمی میدان میں نمایاں رہی۔واپسی پرجب جہاز ہیتھرو ائیرپورٹ اُترا تو ریشم سنہرے مستقبل کو دیکھ رہی تھی۔اہل خانہ کو اپنی بیٹی پریقین تھا کہ ریشم یوکے میں ہروہ چیزحاصل کرے گی جواس کے ذہن میں تھا۔مگر ایساکچھ نہیں ہوا۔

چنددن پہلے ریشم کی اکیسویں سالگرہ تھی۔شام کواپنے کزن جمیل مختارکے ساتھ کھانے کاپروگرام تھا۔ نوبجے کے قریب لندن میں دونوں گھرسے نکلے۔گاڑی چوک پرسرخ بتی پررُکی۔ایک لحیم شحیم سفیدفام شخص نے شیشہ پر انگلیوں سے دستک دی کہ شیشہ نیچے کرو،کچھ بات کرنی ہے۔ مختارنے شیشہ نیچے کردیا۔سفیدفام شخص کے ہاتھ میں پانی کی ایک بوتل تھی۔اس نے یک دم بوتل سے پانی ان دونوں کے چہرے پرچھڑک ڈالا۔ جمیل نے سمجھا کہ اس شخص نے مذاق میں پانی پھینکاہے۔مگر دوسرے لمحے محسوس ہواکہ اس کا پوراچہرہ جل رہا ہے۔ کپڑوں میں آگ لگ گئی ہے۔ریشم کی طرف دیکھا۔وہ بھی انتہائی تکلیف میں مبتلاتھی اور چیخیں ماررہی تھی۔

دونوں کراہتے ہوئے گاڑی سے باہرنکلے۔مددکیلیے آوازیں دینے لگے۔ لوگ پانی کی بالٹیاں لے کرپہنچ گئے۔ چہروں پرپانی ڈالناشروع کردیا۔مگرتکلیف بڑھتی جارہی تھی۔ ایک ہمدردشخص گاڑی میں بٹھاکراسپتال لے آیا۔ راستے میں مختار اورجمیل وقتی طورپرنابیناہوگئے۔سفیدفام شخص نے ان پرپانی نہیں بلکہ تیزاب پھینکاتھا۔دونوں اتنے شدیدکرب میں تھے کہ ڈاکٹروں نے انھیں دوائی سے بیہوش کردیا۔

ان کاخیال تھاکہ دونوں تکلیف کی شدت سے مرسکتے ہیں۔ ہوش آیا تو دنیا بدل چکی تھی۔ ریشم کے چہرے کادائیاں حصہ گل چکاتھا۔ماتھے پرکالے رنگ کے ثقیل گڑھے بن چکے تھے۔ٹھوڑی کاگوشت ختم ہو چکا تھا۔مختارکابھی یہی حال تھا۔ہوش آنے پردونوں نے کہا کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔وہ توگورے ملزم کو جانتے تک نہیں۔تفتیش سے پتہ چلاکہ ٹوملن نام کاملزم پُرتشدد خیالات کامالک ہے۔اس کی فیس بک پر لکھا ہوا تھا کہ مسلمانوں سے ہر طریقے سے انتقام لینا چاہیے۔انھیں یوکے میں رہنے کاکوئی حق نہیں۔

مختارنے پولیس سے انتہائی سنجیدگی سے سوال کیاکہ اگرکسی گورے پرکوئی مسلمان تیزاب پھینک دیتاتوکیاپورے یورپ میں کہرام نہ مچ جاتا۔کیااسے دہشت گردی قرارنہ دیا جاتا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ برطانوی پولیس ایک مسلمان خاندان پرتیزاب پھینکنے والے شخص کودہشت گردقرارنہیں دے رہی۔ کیا دہشتگردی صرف اس وقت ہوتی ہے،جب کوئی مسلمان جرم کرتا ہے۔برطانوی پولیس کے پاس مختار اور ریشم کے جائز سوالات کاکوئی جواب نہیں نہیں ہے۔وجہ بالکل سیدھی سی ہے، جرم ایک سفیدفام نے کیا۔یہ اس معاشرے کا ذکر ہے، جہاں واقعی انصاف اورقانون کی حکمرانی تھی۔

فیاض مغل بھی ایک برطانوی شہری ہے۔ مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کے پیش نظر فیاض نے ایک تنظیم بنائی ہے۔اس کانام"Tell Mama" ہے۔ مسلمانوں کے خلاف جوبھی واقعات ہوتے ہیں،یہ تنظیم ان پرکڑی نظر رکھتی ہے۔اس کے شایع شدہ اعداد و شمار انتہائی توجہ طلب ہیں۔ مانچسٹر اور لندن برج حملوں کے بعد مسلمانوں کے خلاف وارداتوں میں پانچ سوفیصد اضافہ ہواہے۔ صرف تین دنوں میں پینسٹھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔

صورتحال اس درجہ گھمبیر ہے کہ مشرقی لندن میں مسجد میں نماز پڑھنے کیلیے آنے والی عورت کاگلہ دباکرقتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ جہاں بھی حجاب میں کوئی مسلمان خاتون نظرآتی ہے، توکئی لوگ اس پرتھوکناشروع کر دیتے ہیں۔ تنظیم نے بتایا کہ فرحان لطیف کواجنبی سفید فام لوگوں نے اس درجہ مارا کہ اس کے چہرے کی تین ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ فرحان سانحہ کے بعد گھرمیں مقیدہے۔

امریکا کی طرف نظردوڑائیے۔جیسے ہی ٹرمپ نے الیکشن کی مہم شروع کی، سفیدفام شدت پسندوں کوایک ہیرو مل گیا۔دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوگیا۔ ان جرائم کی تعداداس درجہ بڑھ گئی کہ ایف بی آئی جیسے حکومتی ادارے بھی پریشان ہو گئے۔ صدربننے کے بعدٹرمپ کے حامیوں نے مسلمانوں اوراسلام پربھرپورحملے شروع کردیے۔

امریکا جیسے محفوظ ملک میں مسلمانوں کے خلاف عوامی ردِعمل سترفیصدبڑھ گیا۔شدت پسندی اوردہشت گردی کے اس سفیدفام جن کاکہیں بھی ذکرنہیں کیاجاتا۔ چند واقعات پرنظردوڑانی ضروری ہے۔امریکا میں مسلمانوں کوان کے گھروں میں پھانسی دینے کی وارداتیں ہوئیں۔کام سے واپس آتے ہوئے چاقوؤں سے قتل کرنے لہ بارہاکوششیں ہوئیں۔ اسکولوں، کالجوں، شاپنگ اسٹوروں پرانھیں بے دردی سے پیٹا گیا۔ ہوائی جہازوں سے شک کی بنیادپرباہرنکال دیا گیا۔ پارکوں میں سیرکرتے ہوئے گرم پانی اورگرم کافی پھینکی گئی۔

مسلمان خاندانوں کوپیغام بھجوائے گئے کہ ان کے گھرجلادیے جائیں گے اورکئی بار کوشش بھی کی گئی۔کئی تاجروں نے دکان کے باہرلکھ کرلگایاکہ یہ علاقہ یادکان مسلمانوں کیلیے نہیں ہے۔ اس کو ''مسلم فری ایریا'' بتایا گیا۔ خواتین جنھوں نے حجاب پہن رکھاتھا،ان پرحملے کیے گئے۔ ٹیکساس اورایری زوناکی مساجدکے باہراسلحہ بردارسفیدفام لوگوں نے جلوس نکالے۔ ان کے نعرے تھے کہ امریکا کواسلام سے پاک رکھناچاہیے۔ مساجدکی بے حرمتی کے سیکڑوں واقعات دیکھنے میں آئے۔ دیواروں کے باہرلکھاگیاکہ یہ مساجدعبادت گاہیں نہیں بلکہ دہشت گردی کے مرکزہیں۔یہاں تک لکھاگیاکہ ہماراملک چھوڑکریہاں سے دفع ہوجاؤ۔

اب امریکی سیاست دانوں کے بیانات کی طرف آئیے۔سیاستدانوں کے مطابق امریکا کی اَسی فیصد مساجدپردہشت گردقابض ہیں۔امریکا کے آئین میں پہلی تبدیلی (First Amendment) پورے ملک میں مذہبی آزادی اوربرابری کے متعلق ہے۔ چندسیاستدانوں نے تقاریرمیں کہاکہ اسلام کو فرسٹ امنڈمینٹ میں تحفظ حاصل نہیں ہے۔ نوامریکی ریاستیں ایسی ہیں جنھوں نے مسلمانوں کے معاملات کو اسلامی قوانین کی روشنی میں حل کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔یہاں تک کہاگیاہے کہ مسلمانوں کوکسی قسم کا اہم سرکاری عہدہ نہیں ملنا چاہیے۔ ان کوامریکی معاشرہ کا کینسر بتایاگیا۔

امریکا میں مہم جاری ہے کہ مسلمانوں کو ملک بدرکیاجائے اور انھیں واپس اپنے آبائی ملکوں میں جبراًبھیج دیا جائے۔ یہ تمام جرائم ایک امریکی صحافی ڈینل برک نے آشکاراکیے ہیں۔ایک رپورٹ کی طرح سی این این پربارہادکھایا بھی جاچکا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ ان تمام جرائم پرتوجہ دینے سے انکار کر چکی ہے۔جب صدر کی میڈیاپرسن،کترینہ پیرسن سے امریکی مسلمانوں کے متعلق نارواسلوک کے متعلق پوچھا گیا، تو اس کاجواب انتہائی غیرمہذبانہ ٰ تھا۔کہنے لگی کہ کیافرق پڑتاہے،یہ تومسلمان ہیں۔ان کے متعلق آپ لوگ کیوں متفکرہیں۔

فرانس میں بھی مسلمانوں کے خلاف جذبات عروج پرہیں۔مسجدسے نمازی باہرنکل رہے تھے کہ ایک فرانسیسی شدت پسند ویگن تیزی سے مسجدکے نزدیک لایااورنمازیوں کوکچلنے کی کوشش کی۔گو وہ کوشش میں ناکام رہا۔پیرس میں ایک تنظیم نے مسلمانوں کے خلاف اقدامات کولوگوں کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔قبروں کی بے حرمتی سے لے کربے گناہ مسلمانوں کوقتل کیاگیا ہے۔ان کے گھر،عمارتیں اور کاروبار جلانے کی متعددوارداتیں شامل ہیں۔

وہاں بھی مسلمان خواتین کے خلاف انتہائی غیرمہذب رویہ روا رکھا گیا ہے۔مساجدکے باہرجوکچھ لکھاگیاہے،قلم اجازت نہیں دیتاکہ کالم میں لکھ سکوں۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پورے یورپ اور امریکا میں مسلمانوں پر آہستہ آہستہ زندگی تنگ کی جارہی ہے۔انھیں اب وہ آزادی حاصل نہیں جوترقی یافتہ ممالک کے آئین میں درج ہے۔

سکے کادوسراپہلوبھی انتہائی اہم ہے۔پوری دنیامیں کوئی بھی ایسامسلمان ملک نہیں جن کے حکمرانوں نے مسلمانوں پر مظالم کے خلاف آوازبلندکی ہو۔وجہ بالکل سادہ سی ہے۔مسلمان ممالک میں حکمرانوں کی اکثریت اپنے شہریوں جو اہمیت نہیں دیتی ۔ انسانی حقوق کا احترام کسی بھی مسلم ملک میں نہیں ہے۔مقامی حکمران اپنی رعایاکوجانوروں کی سطح پرلے آئے ہیں۔عام لوگوں کو کرپشن،گروہ بندی،فرقہ واریت،تشددپسندی،غربت اور جہالت کے سمندرمیں ڈبوچکے ہیں۔

تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے عظیم مذہب کے نام پر کیا جا رہا ہے۔کسی مسلمان معاشرے میں آزادفکرکوجنم لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ٹوڈی،سرکاری غلاموں سے کام چلایاجارہاہے۔یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔مسلمان ممالک کے حکمران اپنے اپنے ملکوں پراس درجہ ظالمانہ گرفت رکھتے ہیں کہ کوئی بھی رعایاکوان کے چنگل سے آزاد نہیں کراسکتا۔ مالیاتی فائدہ صرف اورصرف حکمران طبقے کوپہنچ رہاہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی ملکوں میں کوئی بھی ایسا نہیں جو سفیدفاموںکی دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔کوشش تودورکی بات، حکمران طبقہ تواس نافرمانی کاتصوربھی نہیں کرسکتا!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔