سیاست سے جوہانسبرگ تک
پاکستانی ٹیم بہت اچھا کھیلے یا اس کی کارکردگی انتہائی خراب رہے‘ دونوں صورتوں میں اس پر لکھے بغیر رہا نہیں جاتا۔
سیاسی میدان میں مارا ماری جاری ہے۔ وقت پر الیکشن کی حامی اور مخالف قوتیں اپنے اپنے محاذ پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ حکومت اور اس کی اپوزیشن ن لیگ کے مابین نگران وزیراعظم کے امیدوار پر اتفاق ہوتا نظر نہیں آ رہا، اس نا اتفاقی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کی کمیٹی بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے گی۔ اس کے بعد گیند فخرو بھائی کے کورٹ میں جائے گی اور وہ بطور چیف الیکشن کمشنر عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کریں گے۔ گزرے ہفتے کے تین دن اسلام آباد میں قیام کا موقع ملا، اس لیے پرانی کے ساتھ ساتھ کچھ نئی معلومات بھی حاصل ہوئیں۔
تین سال کی عبوری یا نگران حکومت کا مژدہ بھی سنا اور یہ خوشخبری بھی ملی کہ 2015ء کا سال پاکستان کے لیے بہترین ہو گا۔ بتانے والے نے بتایا کہ دو سال بعد اس ملک کی تقدیر کافی حد تک بہتر ہو چکی ہو گی، پوری دنیا سے سرمایہ کاری آئے گی اور اس قوم کے دن بدل جائیں گے۔ ایک دوست نے یہ بھی بتایا کہ نگران حکومت کے معاملات سنبھالتے ہی مثالی گڈگورننس کا راج ہو جائے گا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ دہشت گردی پر قابو پانے کا منصوبہ بھی تیار ہو چکا ہے۔ کچھ اور بھی معلومات ہیں جن کو بنیاد بنا کر اس کالم کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے لیکن کیا کروں کرکٹ کے میدانوں سے مجھے زیادہ محبت ہے اور پاکستانی ٹیم بہت اچھا کھیلے یا اس کی کارکردگی انتہائی خراب رہے' دونوں صورتوں میں مجھ سے اس پر لکھے بغیر رہا نہیں جاتا۔
جوہانسبرگ ٹیسٹ پاکستان 211 رنز سے ہار چکا ہے۔پاکستان کی پوری ٹیم 253رنز بناکر آوٹ ہوگئی۔ پاکستانی بیٹسمینوں نے دوسری باری میں قدرے بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا لیکن کوئی ایسی پارٹنر شپ قائم نہ ہوسکی جو حنیف محمد کی یاد دلادیتی۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ کوئی کھلاڑی سینچری بھی نہ بنا سکا۔ بہرحال اسد شفیق اور کپتان مصباح الحق نصف سینچری بنانے میں کامیاب ہوگئے۔کھیل میں ہار جیت ہوتی ہی رہتی ہے، بعض اوقات یہ حیران کن بھی ہوتی ہے۔پہلی اننگز میں قومی ٹیم اپنے کم ترین اسکور 49 پر آئوٹ ہوئی تو اس پر تنقید کے کافی تیر برسائے گئے۔ ہمارا یہ رویہ عجیب ہے کہ ایک خراب پرفارمنس پر ہم یہ کہنے سے نہیں چوکتے کہ کرکٹ ٹیم ختم ہوگئی۔ سلیکشن میں کیڑے نکالے جاتے ہیں، پلیئرز کی تکنیک کو برا بھلا کہا جاتا ہے، ٹیم میں گروپنگ تک تلاش کر لی جاتی ہے۔
میں اس بات سے انکار نہیں کر رہا کہ ہماری ٹیم 49 کے شرمناک اسکور پر آئوٹ ہو گئی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ کم ٹوٹل پر آئوٹ ہونا بھی تھا تو وہ سو سے زیادہ ضرور ہونا چاہیے تھا۔ یہ بات شاید آپ کو عجیب لگے مگر حقیقت ہے کہ ہمارے بیٹسمین اتنا برا کھیل کر آئوٹ نہیں ہوئے جتنی عمدہ بولنگ جنوبی افریقہ کے تیز بولروں نے کی۔ جنوبی افریقہ کی پہلی اننگز 253 رنز پر سمٹ گئی تو مجھے خدشہ تھا ہماری بیٹنگ لائن اپ زیادہ ٹوٹل نہیں بنا سکے گی، لیکن اتنے کم اسکور کی توقع میں کسی صورت نہیں کر سکتا تھا۔ ہوا یوں کہ جب ڈیل سٹین اینڈ کمپنی نے ڈرون کی طرح ٹھیک نشانے پر گیند پھینکنے شروع کیے تو ان کے سامنے آنے والا ہر بیٹسمین خزاں کے خشک پتوں کی طرح جَھڑ گیا۔ آپ پروٹیز بولروں کی پہلی اننگز میں بولنگ کو اگر غور سے دیکھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ڈیل سٹین جو صرف 8 رنز دے کر 6 وکٹیں لے گئے، فلینڈر، مورنے مورکل اور جیک کیلس نے اپنے اسپیلز میں کوئی ایک گیند بھی ایسی نہیں کی جو ٹارگٹ سے ذرا سی بھی دور ہو۔
یوں لگتا تھا کسی کمپیوٹر میں ٹارگٹ سیٹ کر کے گیند پھینکی جا رہی ہے جو ٹھیک نشانے پر جا کر لگتی ہے۔ بولرز کے لیے اتنی سپورٹنگ وکٹ کا اس سے بہتر فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا تھا۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی فاسٹ بولروں کی بولنگ دیکھیں تو انھوں نے زیادہ تر شارٹ پچ گیندیں کیں۔ محمد حفیظ اگر 4 آئوٹ نہ کرتے اور یونس خان کو ہاشم آملہ کی وکٹ کا ''بونس'' نہ ملتا تو جنوبی افریقہ کا اسکور 350 سے کم کسی صورت نہ ہوتا۔ ہمارے بولرز کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ وکٹ پر گھاس دیکھ کر خود پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ وہ طوفانی رفتار سے گیندیں کرنے کی کوشش میں لائن اور لینتھ بھول جاتے ہیں۔ اس سیریز میں سخت مقابلہ کرنا ہے توہمارے فاسٹ بائولرز کو جنوبی افریقہ کے تیز بولروںسے سیکھنا ہوگا۔ بیٹسمینوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ان سیمنگ وکٹوں پر تیز گیند کو زیادہ بہتر انداز میں کھیلنے کی کوشش کریں۔
پہلی اننگز میں جنوبی افریقہ کے فاسٹ بولرز کی شاندار بولنگ کا ذکر ہو گیا، پاکستان کے بیٹسمین ان کی جاندار بولنگ کے سامنے بے بس نظر آئے۔ میرے خیال میں وہ ضرورت سے زیادہ محتاط ہو کر کھیلے۔ ان کے لیے واحد اور مفت مشورہ ہے کہ وہ احتیاط ضرور کریں لیکن اپنی نیچرل گیم نہ چھوڑیں۔ ضرورت سے زیادہ دفاعی اور محتاط بیٹنگ مخالف ٹیم کے حوصلے بڑھا دیتی ہے۔ پاکستانی ٹیم میں مجھے رکی پونٹنگ جیسے بیٹسمین کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ پونٹنگ میں یہ خوبی تھی کہ وہ کسی بھی ٹریک پر آتے ہی جارحانہ انداز اپناتے تھے اور مخالف بولرز کو لائن اور لینتھ بھلا دیتے تھے۔ اظہر علی کو اپنے اسٹروکس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ون ڈائون بیٹسمین میں وکٹ پر آتے ہی جارحانہ انداز اپنانے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ زیادہ دیر ٹیم کا حصہ نہیں رہ سکتا۔
پاکستانی ٹیم کو رائٹ آف نہ کریں، اس میں کم بیک کرنے کی پوری صلاحیت ہے۔ یہ سیریز بہت مشکل ہے لیکن مجھے امید ہے جب ختم ہو گی تو یکطرفہ نہیں رہے گی۔ آپ یقین کریں جنوبی افریقہ کے میدانوں میں مقابلہ کرنے والے ہماری کھلاڑیوں کی پرفارمنس جتنی بھی بری رہے، قومی سیاستدانوں سے بہتر ہی رہے گی۔