قطر اور سعودی عرب تنازعہ۔ ہم کہاں کھڑے ہیں
میرے خیال میں قطر عرب تنازعے میں فوری کوئی بریک تھرو ممکن نہیں
GILGIT:
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات اس وقت کہاں ہیں۔ اس ضمن میں ابہام ہے بھی اور نہیں بھی۔ تعلقات اچھے ہیں بھی اور نہیں بھی۔ عجیب سی صورتحال ہے پاکستان ، سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے اسلامی اتحاد کا رکن ہے بھی اور نہیں بھی۔ ہم اس حوالے سے ہونے و الی سربراہی کانفرنس میں شریک تھے اور نہیں بھی۔ ہم سعودی عرب کے دفاع کا اعلان کرتے ہیں اور نہیں بھی کرتے ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ہم سعودی عرب میں موجود مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے توکھڑے ہیں۔ لیکن باقی سعودی عرب کے دفاع پر ہماری پالیسی ابہام کا شکار ہے۔ ہم نے یمن کی جنگ میں سعودی عرب کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا لیکن راحیل شریف کو اس فوجی اتحاد کی اجازت دے دی۔ کیا ایسا نہیں کہ ہم اپنی مبہم پالیسی سے سعودی عرب جیسے دوست کو ناراض کر رہے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا سعودی عرب میں قیادت میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں، پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانیو الوں کو اس کا ادراک ہے۔کیا ہم آج کے سعودی عرب کو شاہ عبداللہ والا سعودی عرب نہیں سمجھ رہے ہیں۔کیا ہمیں اندازہ ہے کہ نئی سعودی قیادت کا کیا مزاج ہے ۔ وہ کس رفتار سے فیصلے کر رہی ہے۔ کیا ہمیں اندازہ ہے کہ نئی قیادت پاکستان کی اس مبہم پالیسی پر کیا سوچ رکھتی ہے ۔کیا ہمیں اندازہ ہے کہ سعودی عرب کی نئی قیادت نے اگلے کتنے سال سعودی عرب کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔اور ہماری آج کی پالیسی کے اگلے کتنے سال نتائج آئیں گے۔ سعودی عرب کا اس وقت بڑا مسئلہ ہماری مبہم پالیسی نہیں ہے۔ ان کا بڑا مسئلہ اس وقت قطر ہے۔ قطر کی وجہ سے عرب اتحاد کا شدید دھچکا لگا ہے۔ جس کا سعودی قیادت کو شدت سے احساس ہے۔ سعودی عرب کا بڑا مسئلہ بحرین کی اندرونی صورتحال ہے۔ سعودی عرب کا بڑا مسئلہ ایران ہے ۔ جسے وہ اپنے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے۔ سعودی عرب کا بڑا مسئلہ عرب ممالک میں دہشت گردی ہے۔ اسی لیے ہم فوکس میں نہیں ہیں۔
سعودی سفیر مروان بن رضوان نے گزشتہ دنوں لاہور میں سنیئر صحافیوں کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا۔سعودی سفیر نے خود ہی کہا کہ سعودی عرب کو یہ احساس ہے کہ اس نے پاکستانی میڈیا کو نظر انداز کیا ہے لیکن اب سعودی عرب پاکستانی میڈیا کے ساتھ مسلسل رابطہ میں بھی رہے گا۔ سعودی سفیر نے پاکستان اور سعودی عرب تعلقات پر نہائت محتاط گفتگو کی تا ہم قطرکے مسئلے پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ اس سوال پر کہ ایسا تاثر ہے کہ رمضان المبار ک کے بابرکت مہینہ میں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی جانب سے قطر کا محاصرہ کیا درست ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں اشیاء خوردنوش کی کمی ہو گئی۔ وہ مسکرائے اور انھوں نے کہا کہ ہم نے قطر کا محاصرہ نہیں کیا بلکہ بائیکاٹ کیا ہے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات،بحرین اور مصر کی جانب سے قطر کا سفارتی بائیکاٹ کیا گیا ہے۔ان چاروں ممالک کا کہنا ہے کہ قطر پچھلے بیس برسوں سے لوگوں کو تکلیف پہنچا رہا ہے اور ان لوگوں کو مدد کی جارہی ہے جو بعض مسلمان ملکوں میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ قطر کے سفارتی بائیکاٹ کے بعد پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ غزہ کی طرح اس کا محاصرہ کر لیا گیا ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ وہاں غذائی بحران کی باتیں بھی درست نہیں ۔ قطر کی فضائی حدود کھلی ہے۔مختلف ملکوں کے طیارے سعودی عرب کی حدود سے گزر کرقطر جارہے ہیں ہم نے انھیں روکا نہیں ہیں۔ اسی طرح جن کی جوائنٹ فیملیاں ہیں اور ایک دوسرے کے ملکوں میں شادیاں ہوئی ہیں انھیں بھی آنے جانے کی کھلی اجازت ہے۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے بے بنیاد پروپیگنڈ اکیا گیا کہ سعودی عرب نے قطری شہریوں کے عمرہ وغیرہ پرپابندی لگا دی ہے۔ یہ انتہائی گمراہ کن پروپیگنڈا ہے۔ قطری شہری ان دنوں بھی حرمین شریفین کی زیارت اور عبادات کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
اس سوال پر کہ سعودی عرب نے اسلامی اتحاد ایران کے خلاف بنایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تاثر یکسر غلط ہے۔ سعودی اتحاد دہشت گردی کے خلاف ہے۔ یہ کسی ملک کے خلاف نہیں ہے۔ قطر اور ایران کے خلاف بھی نہیں ہے۔ بلکہ ان ممالک کی جانب سے دہشت گردی کے حق میں جو پالیسیاں بنائی گئی ہیں، عرب ممالک ان کے خلاف ہیں۔ کیا جب یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ موصل کو داعش سے خالی کرا لیا گیا ہے۔ کوئی پوچھ رہا ہے کہ موصل میں داعش کے ستر ہزار جنگجو تھے ، وہ کہاں ہیں، انھیں کس نے اور کہاں کے لیے محفوظ راستہ دیا گیا ہے۔ کیا انھیں شام یمن تو نہیں بھیج دیا گیا۔ کیا یہ سوال اہم نہیں کہ بحرین سے جو دہشت گرد گرفتار ہوئے ہیں، وہ کس کو ٹارگٹ کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ انھیں کس ملک کی حمائت حاصل تھی۔کیا عرب قیادت کو دہشت گردی کے ذریعے ہٹانے کی منصوبہ سامنے نہیں آرہی۔ لیبیا کے معمر قذافی بھی آخر میں قطر سے نالاں تھے کہ قطر نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔
میرے خیال میں قطر عرب تنازعے میں فوری کوئی بریک تھرو ممکن نہیں۔ بہر حال پاکستان کو اس ضمن میں اپنی پالیسی واضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ابہام کی پالیسی کو غیر جانبداری کا نام دیکر زیادہ عرصہ نہیں چلا سکیں گے۔ یہ کوئی عارضی مسئلہ نہیں کہ وقت گزر جائے گا۔ اور سب بھول جائیں گے۔ اس لیے میری نظر میں قطراور سعودی عرب دونوں کو ساتھ لے کر چلنا زیادہ دیر تک ممکن نہیں۔