انتخابی نظام میں تبدیلی کی ضرورت

ہمارے لیے شاید دوجماعتی نظام انتخاب ہی سب سے زیادہ بہتر اور سود مندثابت ہوسکتا ہے


Dr Mansoor Norani July 05, 2017
[email protected]

وطنِ عزیزکے معرضِ وجود میں آجانے کے بعد سے اب تک کئی نظام حکومت آزمائے گئے۔ پارلیمانی نظامِ جمہوریت سے لے کر صدارتی نظام حکومت تک مختلف سسٹم رائج کرکے ہم نے دیکھ لیا، لیکن ابھی تک کسی بھی سسٹم سے مکمل مستفید اور مطمئن نہ ہوسکے۔ ملک کے اندر اگرصدارتی نظام نافذ ہوتو ہمیں پارلیمانی طرز حکومت کی یاد ستانے لگتی ہے اور اگر پارلیمانی جمہوریت رائج ہوتو صدارتی نظام کی خواہش ہونے لگتی ہیں۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جنہوں نے اپنی پیشہ وارانہ ذمے داریوں سے عہدہ برا ہونے کے بعد ایک سیاسی پارٹی بناکر سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا ہے، صدارتی نظام حکومت کے زبردست حامی اور دلدادہ دکھائی دیتے ہیں۔

اُن کے خیال میں موجودہ پارلیمانی طرز حکومت میں بہت سی خرابیاں اور خامیاں ہیں اور ہمارے جیسے ناخواندہ اور غیرترقی یافتہ ملک کے لیے صدارتی نظام حکومت ہی نہایت موزوں اور ضروری ہے۔ انھوں نے ایک نئی سیاسی پارٹی بنا تو لی ہے لیکن عوام کی تائید و حمایت حاصل کرنے میں ابھی انھیں وقت لگے گا۔ اُن کی جماعت ابھی اِس قابل نہیں کہ آیندہ آنے والے انتخابات میں کوئی بڑا اپ سیٹ کر سکے۔ایک آدھ پریس کانفرنس کرکے وہ اپنا نقطہ نظر لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اِس سے بڑھ کرکوئی اور سیاسی کارکردگی وہ ابھی تک دکھا نہیں پائے ہیں۔اُن کی یہ تجویز ہمارے یہاں مقبول نہیں ہو سکی۔

ہمارے لوگ ابھی بھی رواں پارلیمانی طرز حکومت کو ایک اچھا اور نسبتاًمناسب اور قابل قبول نظام سمجھ کر قائم و دائم رکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو یہ بھی ہمارے لیے سو فیصد درست اور سود مند نظام حکومت نہیں ہے۔ یہاں انتخابی دنگل میں دو سے زیادہ سیاسی پارٹیاں حصہ لے کر ووٹوں کی ایسی تقسیم کردیتی ہیں کہ 30یا40فیصد ووٹ حاصل کرنے والی جماعت 60یا70فیصد عوام پر مسلط ہوجاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے چند ماہ بعد جب ساری جماعتیں حکومت مخالفت میں کسی ایشو پر متحد و یکجا ہو جاتی ہیں تو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ ساری قوم ہی اپنے حکمرانوں سے بیزار اور متنفر ہوچکی ہے۔لیکن پھر جب نئے انتخابات ہوتے ہیں تو یہی سیاسی پارٹیاں انفرادی طور پر علیحدہ علیحدہ الیکشن میں حصہ لے کر ایک بار پھر ووٹوں کی تقسیم کا باعث بن جاتی ہیں اور ہمارا شکوہ ہر بار یونہی قائم و برقرار رہتا ہے کہ یہاں 50فیصد سے کم ووٹ لینے والی اقلیتی جماعت عوام کی اکثریت پر حکومت کررہی ہے۔

پارلیمانی جمہوری نظام کی اِس خامی کو دور کرنے کے لیے ہمارے یہاں کچھ لوگ متناسب نمایندگی والے نظام کی تجویز پیش کرتے رہے ہیں، لیکن ہمارے خیال میں شاید یہ نظام بھی مذکورہ بالا انتخابی خامیوں کو دور کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا ہے۔ متناسب نمایندگی ویسے تو ایک اچھی مناسب اورصائب تجویز ہے کہ حاصل کردہ ووٹوں کی مناسبت سے پارلیمنٹ کی سیٹوں کی تقسیم کی جائے۔اِس میں لوگ شخصیات کی بجائے سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دیا کرتے ہیں اور بعد ازاں حاصل کردہ ووٹوں کی مناسبت سے ہر پارٹی کو سیٹیں تفویض کردی جاتی ہیں جس پر وہ پارٹی اپنے قابل اور لائق اشخاص کو یا جسے چاہے پارلیمنٹ میںبھیجنے کی مجاز ہوتی ہے، مگر اِس نظام میں بھی ہمیں وہی مشکل اور خرابی کا خدشہ اور دھڑکا ہر وقت لگا رہے گا کہ سیاسی جوڑ توڑ اور مک مکا کے ماہر اور ہشیار سیاستداں دیگر سیاسی دھڑوں کو لارے لپے دیکر اپنے ساتھ ملاکرحکومت بنالیاکریں گے۔خود غرضی اور مطلب پرستی کے اِس ماحول میں پھر وہی تمام سیاسی پارٹیاں متحد و یکجا دکھائی دیں گی جنھیں عوام سے زیادہ خود اپنے ذاتی مفادات کا خیال ہوگا۔

وہ مک مکا ، بارگیننگ اور بلیک میلننگ کرکے حکومت میں نہ صرف بڑی اور اہم وزارتیں حاصل کر نے میں کامیاب ہوجائیں گی، بلکہ اپنے غلط اور ناجائز مطالبے بھی منوا لیا کریں گی۔ اِس نظام کے تحت وزیراعظم کے منصب پر فائز ہونے والے شخص کو ہروقت اپنی سیٹ بچانے کے لیے ملک و قوم کی خدمت کی بجائے ایسے خود غرض مفاد پرست سیاسی دھڑوں کو خوش اور راضی رکھنا ہوگا۔جس طرح ہم نے پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کے دور میں دیکھا تھا کہ اُسے عوام کی خدمت سے زیادہ اپنے بچاؤ کی فکرلاحق تھی۔ وہ کبھی ایم کیو ایم کے ناراض لوگوں کومنانے نائن زیرو پہنچ جاتی تھی اورکبھی اے این پی اور مسلم لیگ (ق) کے لوگوں کوساتھ ملانے کی جستجوکررہی ہوتی تھی۔ مفاہمت کے نام پر مفادات کی سیاست کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُن پانچ سالوں میں ملک و قوم کی خدمت کاکوئی قابل ذکر کام نہ ہوسکا اور ملک آگے بڑھنے کی بجائے تنزلی اور انحطاط پذیری کی جانب بڑھتا چلا گیا۔متناسب نمایندگی کا نظام رائج ہونے کے بعد اِس طرح کی طرز حکومت کے امکانات اور بھی بڑھ جائیں گے۔لہذا ہماری نظر میں یہ نظام انتخاب بھی کسی لحاظ سے ہمارے لیے درست اور موزوں نہیں ہے۔

ہمارے لیے شاید دوجماعتی نظام انتخاب ہی سب سے زیادہ بہتر اور سود مندثابت ہوسکتا ہے۔ جس پارٹی کو پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ ملیں وہی نہ صرف اکثریتی جماعت کہلائے بلکہ حکومت بنانے کی جائز اور قانونی حقدار بھی کہلائے۔ دیکھا جائے تو برطانیہ اور امریکا میں یہی دوجماعتی انتخابی نظام رائج ہے اور اِسی نظام کے تحت پچاس فیصد سے زیادہ یا اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والی جماعت ہی اُس ملک کی حکمرانی کی اہل اور حق دار تصورکی جاتی ہے۔ویسے تو وہاں دوسری اور سیاسی پارٹیاں بھی انتخابی عمل میں حصہ لیتی ہیں لیکن اصل اور فائنل معرکہ صرف دو بڑی سیاسی جماعتوں ہی میں ہوا کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکا میں ہمیشہ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پارٹی کے بیچ ہی زبردست مقابلہ دکھائی دیتا ہے اور وہی پارٹیاں باری باری وہاں حکومت بناتی نظر آتی ہیں۔اِسی طرح برطانیہ میں بھی دو بڑی سیاسی پارٹیاں یعنی کنزرویٹؤ اور لبرل کے درمیان ہی اصل مقابلہ ہوا کرتا ہے۔ وہاں کسی کو پھر یہ اعتراض بھی نہیں ہوتاکہ ہر بار یہی دو سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی باریاں لگائی ہوئی ہیں۔ امریکا اور یورپ کی گن گانے اور اپنے یہاں ہرقسم کی برائیاں تلاش کرنے والے سیاستدانوں کو بھی امریکا اور برطانیہ کے اِس نظام میں کوئی خامی اور برائی دکھائی نہیں دیتی۔

ہمارے یہاں غیر قانونی اور غیر دستوری اقدام کے نتیجے میں بننے والی تمام غیر جمہوری حکومتوں نے ہر بار مختلف سیاسی اور انتخابی طرز حکومت کی بنیادیں رکھی ۔ کسی نے بنیادی جمہوریت کے نام ہر بیسک ڈیموکریسی کا نظام رائج کیا اور پھر اِسی نظام کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہوئے فاطمہ جناح کے حق میں جیتنے والے بی ڈی ممبروں کو راتوں رات خرید کراِس نظام کی خود ہی بیخ کنی کردی۔ کسی نے غیر جماعتی الیکشن کا شوشہ ڈالا اورکسی نے ضلع سطح پر جمہوریت نافذ کرنے کا ڈراما رچاکر خود کو سیاستدانوں سے زیادہ جمہوری ثابت کرنے کی بہت کوشش کی ، مگر نتیجہ وہی صفرکاصفر رہا۔ ہم ضلع اورتحصیل سطح پر تو جمہوریت اپنا کر خوش ہوتے رہے لیکن وفاق اور صوبوں کی سطح پرجمہوریت کاگلا گھونٹتے رہے۔

ہمارے عوام کی اکثریت جب تک ناخواندگی کے دلدل سے باہر اور ذات برادری، چوہدریوں اور وڈیروں کے چنگل سے آزاد نہیں ہوجائیں گی، ہم اِسی طرح جمہوریت کے نام پر بے وقوف بنتے رہیں گے اور ہمارے ووٹوںسے برسراقتدار آنے والے ہمارے نام نہاد ہمدرد اور خیر خواہ ہمیں لوٹتے اور برباد کرتے رہیں گے۔ایک کامیاب اور بہتر جمہوری نظام چلانے کے لیے ہمیں پہلے اِن دو چیزوں کے خاتمے پر توجہ دینی ہوگی۔ سب سے پہلے ناخواندگی اور جہالت کو دور کرنا ہوگا۔ پھر اِن وڈیروں ، سرداروں اورچوہدریوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ تبھی جاکرکوئی نظامِ انتخاب اصل معنوں میں ہمارے لیے سود مند ثابت ہوسکتا ہے۔جتنی زیادہ سیاسی پارٹیاں ہوں گی، ووٹوں کی تقسیم اُتنی ہی زیادہ ہوگی اور یوں ہر بار ایک اقلیتی سیاسی پارٹی ہم پر مسلط اور قابض ہوتی رہے گی۔ پارلیمنٹ کے اندر بننے والی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کو آنے والے نئے انتخابات سے قبل اِس جانب بھی توجہ دینی ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں