کہانی جاسوس کی

جاسوسی کی دنیا بظاہر فلمی حد تک جتنی دلچسپ دکھائی دیتی ہے درحقیقت اسی قدر خطرناک اور سفاک ہے


Shehla Aijaz July 05, 2017
[email protected]

ریمنڈ ڈیوس کو بھی خوب سوجھی موصوف جب پاکستان میں اپنے خفیہ مشن پر تھے تب بھی بے چین رہتے تھے پھر تین معصوم پاکستانی نوجوانوں کو پار لگانے کے بعد بھی بے چین رہے اور یہاں بھی سب کو بے چین ہی رکھا اگر اتنا ہی ہوتا تو چلو ٹھیک تھا مٹی پڑ چکی تھی لیکن موصوف کو پھر بے چینی نے آ گھیرا یا شاید بکرے کی ماں کی خیریت کے دن پورے ہونے تھے اور ایک کتاب لکھ ڈالی۔ اس کتاب میں جو کچھ بھی ہے لیکن اس سے شاید ریمنڈ ڈیوس کے بے چین دل کو اب بھی قرار نہیں آیا ہوگا، البتہ پاکستان میں ایک بار پھر سے پرانی یادیں تلخ حقیقت بن کر سامنے آگئی ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس تو شاید ایک مثال کے طور پر پاکستانی عوام اور شاید دنیا کے سامنے آیا تھا لیکن درحقیقت اس طرح کے نجانے کتنے ریمنڈ ڈیوس اورکتنے ممالک میں مصروف عمل ہیں۔

بلاشبہ امریکا ایک ایسا ملک ہے جو انٹیلی جنس اورانٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ پر دنیا میں سب سے زیادہ رقم خرچ کرنے والا ملک ہے کیونکہ امریکا کو اپنے سے زیادہ دوسرے ممالک کی خبر گیری رکھنے کا چسکا ہے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ چسکا کم نہیں ہوا بلکہ بڑھتا ہی گیا ۔ اس نے صرف اپنے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھرکے ممالک میں اپنی جاسوسی کے نیٹ ورک قائم کر رکھے ہیں، جو پل پل کی خبریں ادھر سے ادھر کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں اس تمام محنت مشقت میں نہ صرف افرادی بلکہ مالی اخراجات دل بھرکے خرچ ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2007 میں امریکی انٹیلی جنس کے اخراجات پچاس ارب تک پہنچ چکے تھے تو ذرا سوچیے 2017 میں یہ اخراجات کس حد تک پہنچ چکے ہوں گے۔ گو ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت زور و شور سے کہا تھا کہ امریکا دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت کی سیاست نہیں کرے گا کیونکہ وہ ایک کاروباری آدمی ہے ہر بات میں نفع نقصان کا اندازہ لگاتے ہیں پر امریکی تھنک ٹینک کا کیا کہنا کہ انھیں ٹریک پر لے ہی آئے اور یہ جاسوسی کی کہانی ایک بار پھر سے چل پڑی۔

ماضی میں دور یہ تھا کہ ایشیائی جاسوسوں کو بھرتی کرنے کا منصوبہ بھی شروع کر رکھا تھا، یہ منصوبہ خاصا خطرناک تھا اپنے ہی جیسے نظر آنے والے لیکن اپنے نہ تھے، قبائلی علاقوں میں امریکی آپریشنز ان ہی نام نہاد انٹیلی جنس کی جاسوسی کارروائیوں کی بدولت ہوتے رہے تھے۔ یعنی ایک مطلوبہ شخص جس کی امریکی سرکار کو ضرورت ہوتی اسے مارنے کے لیے دس معصوم انسان مارے جاتے۔ اس طرح میزائل اور بم دھماکوں میں نجانے کتنے انسان اپنی جان سے گئے ۔اس طرح لوگوں میں خاص کر قبائلی علاقوں میں امریکی سرکار کے خلاف غم و غصہ پھیل چکا تھا۔ افغان صوبے کنڑ میں امریکی فوجی اڈے سے جاسوس طیاروں کی پروازیں معمول بن گئی تھیں باجوڑ سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے پاکستانی علاقوں کی جاسوسی اور سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور پھر آپریشنز کا ایک سلسلہ تھا جو اس موئی جاسوسی کی وجہ سے پاکستانی حکومت کا درد سر بن گئی تھی ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو جاسوسی کا دوسرا نام خون کی تحریر بن چکا تھا اب اس کا نام کیا رکھا جائے؟

امریکا کا خیال تھا کہ فاٹا کے علاقے پر نظر رکھنا اس لیے اشد ضروری ہے کہ ''القاعدہ کے رہنماؤں'' کو گرفتار کیا جاسکے حالانکہ یہ وہی رہنما تھے جنھیں روس کے حصے بخرے ہونے سے پہلے امریکا کی آشیرباد حاصل تھی۔ اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر ایمن الظواہری سمیت کئی بڑے القاعدے کے رہنماؤں کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں روپوش ہیں اور انھی چند سرکردہ رہنماؤں کی تلاش میں جاسوسوں کا ایک جال تھا جو افغانستان سے پاکستان تک پھیلا تھا۔ بلیک واٹر تنظیم کے منظر عام پر آنے کے بعد اس جاسوسی کے نیٹ ورک پر اور بھی اعتراضات اٹھ رہے تھے لیکن جارحانہ آپریشنز جاری تھے۔

فروری 2008 میں شمالی وزیر ستان میں ایک کارروائی کے دوران القاعدہ کے ایک رہنما ابواللیث اللیبی مارے گئے تھے۔

چند برس پہلے اسامہ بن لادن کی موجودگی کی جاسوسی کس طرح ہوئی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی لیکن کیا وہ واقعی اسامہ بن لادن ہی تھے یا کسی اور کو اسامہ بن لادن بناکر دنیا سے رخصت کردیا گیا ہو کہ ان کا بھوت بھی کسی حد تک نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بہرحال ریمنڈ ڈیوس کی حالیہ لکھی گئی کتاب میں ان کے لیے یہ تمام حالات اور واقعات دلچسپ ہوں لیکن پاکستانیوں کے لیے خاصے تکلیف دہ ہیں کیونکہ یہاں ایک نئی چھیڑ چھاڑ، اعتراضات اور القابات کا باب کھلنے والا ہے کسی حد تک تو ابتدا ہو چکی ہے۔

جاسوسی کی دنیا بظاہر فلمی حد تک جتنی دلچسپ دکھائی دیتی ہے درحقیقت اسی قدر خطرناک اور سفاک ہے۔ کسی زمانے میں سنا گیا تھا کہ پاکستان میں تمام لوگوں کی کالز سنی جاتی ہیں امریکا یہ عمل کیوں کر رہا ہے؟ خدا جانے؟ پتا نہیں۔ آخر کیوں؟ سوالات اٹھتے رہے۔ اب ایک اور طریقہ سنا جا رہا ہے فلاں فلاں کی طرح کی پوسٹ کو لائک نہ کیجیے اس طرح آپ کا سارا ڈیٹا منتقل ہوجائے گا۔ خفیہ انداز سے ساری باتیں امریکا میں سنی جا رہی ہیں ۔ ہمارے یہاں اور کس کس طرح کی خفیہ باتیں ہوسکتی ہیں ذرا سوچیے تو کہیں کوئی بی بی ڈیوسنی ہمارے پڑوس میں ہی تو سن گن نہیں لے رہی اور بعد میں وہ بھی کتاب لکھ ڈالے انٹرنل افیئرز آف محلہ از۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں