کب آخر کب

یاد رکھیے کہ میری موت کا جتنا ذمے دار میں خود ہوں اتنی ہی ذمے دار حکومت اور پولیس بھی ہے۔


میں احمد پور شرقیہ میں زندہ جل کر مرجانے والے 204 بدنصیب، لالچی،غریب، تنگ نظر، جھوٹے، ظالم، تنگ دست، خود غرض، نااہل، قابلِ مذمت اور کرپٹ لوگوں میں سے ایک ہوں۔

میں شائستہ، میں پروین، میں امجد، نہیں میں شکیل، میں مجتبی، میں اکرم، نہیں نہیں میں شاہد، میں رخسار، میں شگفتہ، نہیں میں پانچ (5) سال کا جمشید، نہیں میں ستر (70) سالہ جنت بی بی، میں پانچ بہنوں کا اکیلا بھائی شانی، میں مختارہ کا منگیتر ساجد، میں آٹھ (8) بیٹیوں کا اکیلا کفیل رسول بخش، نہیں نہیں میں چھ (6) سال کی صغرٰی ہوں، نہیں شاید میں صغرٰی بھی نہیں ہوں۔ تم یہ سب چھوڑو کہ میرا نام کیا ہے۔ اب میں احمد پور شرقیہ کی بستی رمضان جوئیہ، بستی کھوکھراں، بستی نمبردار اور بستی نذیر احمد کے زندہ جل کر مرجانے والے 204 بدنصیب، لالچی،غریب، تنگ نظر، جھوٹے، مکار، ظالم، تنگ دست، خود غرض، نااہل، قابلِ مذمت اور کرپٹ لوگوں میں سے ایک ہوں۔

جی ہاں یہ سب وہ نام ہیں جو آپ نے مجھ سمیت جل کر مرجانے والے 204 لوگوں کو دیے ہیں اور اب یہی نام میری پہچان بن گئے ہیں۔ میں جہنم جیسی آگ میں زندہ جل گیا، میں ایک ہی لمحے میں زندہ انسان سے لاش اور لاش سے ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہوگیا۔ میری آنکھیں ابل کر میرے چہرے سے باہر گر گئیں۔ میں نے اپنے چہرے کو آگ سے بچانے کے لئے ہاتھ اٹھائے تو میرے ہاتھ میرے چہرے سے چپک گئے۔ میرا خون میرے جسم کے اندر ہی جل کر کالے بادلوں میں تحلیل ہوگیا۔ میرا ماس پگھلنے لگا۔ میں نے بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کی تو ایک گز زمین میرے لئے میلوں لمبی ہوگئی۔ میں نے چیخ کر اللہ کو پکارا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہی لیکن میرا انجام لکھا جا چکا تھا۔

مجھے اُس وقت احساس ہوا کہ یقیناً یہی موت ہے۔ میری روح میرے جسم کے ایک ایک حصے کو چیرتی ہوئی اپنا راستہ بنا رہی تھی۔ میں نے پہلی مرتبہ یہ محسوس کیا کہ موت کی تکلیف دنیا کی تمام تکالیف سے زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے۔ میں نے آخری چیخ ماری ہچکی لی اور اُس کے ساتھ ہی میری روح میرے جسم کا ساتھ چھوڑ گئی اور میں دنیا کی تمام تکالیف سے آزاد ہوگیا۔ مرنے کے بعد مجھے دلچسپ تجربہ ہوا، اور وہ تجربہ یہ تھا کہ جس خاندان کی ایک وقت کی روٹی کے لئے میں جان پر کھیل کر پیٹرول جمع کر رہا تھا وہ خاندان تماشبین بن چکا تھا۔

میں نے دیکھا کہ میرا بیٹا میرے زندہ جل جانے پر دکھی تھا لیکن وہ اللہ کا شکر گزار بھی تھا کہ وہ میرے ساتھ نہیں تھا۔ میری ماں کو مجھ سے محبت ضرور تھی لیکن میری جان بچانے کے لئے وہ آگ میں نہیں کودی۔ میرا باپ میری زندگی میں میری طاقت تھا لیکن موت کے فرشتوں کے سامنے وہ بھی بے بس تھا۔ میری بیوی زندگی کے ہر مشکل وقت میں میری ہمسفر تھی لیکن وہ موت کے سفر پر میرے ساتھ چلنا نہیں چاہتی تھی۔ اب مجھے آگے کا سفر اکیلے ہی طے کرنا تھا۔ میں مرچکا تھا اور میری روح باقی جل کر مرجانے والوں کی روحوں کے ساتھ کھڑے اپنے ڈھانچوں کو کوئلے میں تبدیل ہوتے دیکھ رہی تھی۔ پھر سب ہی روحیں ایک دوسرے سے پوچھ رہی تھیں کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ ہمیں کیوں زندہ جلا دیا گیا؟ ہم نے ہمیشہ ناگہانی موت سے پناہ مانگی تھی پھر کیوں ہمیں بدترین موت نصیب ہوئی؟ کیوں ہمیں زندگی میں ہی دوزخ کا عذاب دے دیا گیا؟ کیوں؟

آخر کیوں؟ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ چند ہی لمحوں میں ہمیں ہمارے سارے سوالوں کا ایک مفصل جواب مل گیا۔ پاکستان کی 20 کروڑ عوام کا ایک ہی جواب تھا کہ انہیں یہ عذاب اِس لئے ملا ہے کیونکہ یہ لوگ لالچی تھے۔ میں کھلے دل سے اِس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ میری یہ غیر فطری موت میرے ہی کسی گناہ کا نتیجہ ہوگی لیکن میں آپ کے سامنے دو سوال رکھنا چاہتا ہوں۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ اِن سوالات کے جوابات دینے سے پہلے آپ ایک مرتبہ اپنے گریبان میں ضرور جھانکیے گا۔ آپ ایک مرتبہ اپنا احتساب ضرور کیجیے گا۔ آپ صرف ایک مرتبہ خود کو میری جگہ رکھ کر ضرور سوچیے گا۔

میرا پہلا سوال یہ ہے کہ اگر میری بھیانک موت میرے لالچ کی سزا ہے تو کیا میری لالچ رمضان کے مقدس مہینے میں حرام منافع کمانے والے تاجروں، بیواؤں کی پنشن کھانے والے، راشی افسروں، یتیموں کا حق کھانے والے جاگیرداروں، گٹر کے فضلے سے کوکنگ آئل بنانے والے صنعت کاروں، گائے کے گوشت میں پانی بھرنے والے قصائیوں، بکرے کے نام پر کتے اور گائے کے نام پر گدھے کا گوشت بیچنے والے دکانداروں، دودھ کے نام پر کیمیکل بیچنے والے گوالوں، کالی مرچوں میں اونٹھ کا فضلا ملانے والے تاجروں، فوڈ کلر کے نام پر کینسر کے کیمیکل بیچنے والے بیوپاریوں، ای او بی آئی میں مظلوموں کا حق کھانے والے گوندلوں، این جی اوز کے نام پر زکوٰۃ کھانے والے سماجی رہنماؤں، قرض اتارو ملک سنوارو اسکیم میں معصوم عوام کے ساتھ دھوکا کرنے والے شریفوں، عوام کے خون پسینے کی کمائی سے سرے محل خریدنے والے زرداریوں، مذہب کی آڑ میں ڈیزل پرمٹ لینے والے مولویوں، ملک پاکستان میں خودکش حملے کروانے کے لئے پیسے لینے والے اچکزیوں، 462 ارب روپے کی کرپشن کرنے والے ڈاکٹروں اور صحافت کے نام پر قلم بیچنے والے کالم نگاروں سے بھی زیادہ ہے؟ کیا میری دو سو روپے کی لالچ اِن کی اربوں روپے کی لالچ سے زیادہ بھاری ہے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس اِس سوال کا جواب نہیں ہوگا۔ اِس لیے میری آپ سے گزارش ہے کہ میری بھیانک موت کی وجہ میری لالچ کو قرار مت دیں، کیونکہ اگر اربوں روپوں کی لالچ کرنے والا باعزت موت مرتا ہو اور دو سو روپے کی لالچ کرنے والے کی سزا زندہ جل کر مرجانا ہو تو اِس معاشرے میں لوگ چھوٹی لالچ کو گناہ اور بڑی لالچ کو عبادت سمجھنے لگیں گے اور پھر یہ دنیا رہنے کے لیے جہنم بن جائے گی، کیونکہ سزا کا جو معیار آپ طے کر رہے ہیں وہ اللہ کے طے کردہ انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس لیے خدارا میری موت کا معاملہ میرے اور میرے اللہ کے درمیان ہی رہنے دیں۔ آپ عمل الہی میں دخل اندازی مت کریں بلکہ حکم الہی پر غور کریں اور یہی ہم سب کے لئے بہتر ہے۔

میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا پولیس نے اپنی ذمے داری ٹھیک طرح ادا کی؟ جب تیل سے بھرا ٹینکر گرا تو کیا موٹروے پولیس نے جائے وقوعہ کے قریب گاڑیوں کا داخلہ بند کروایا؟ کیا پولیس نے ٹریفک ایمرجنسی نافذ کروائی؟ کیا جب تک آئل ٹینکر راستے سے ہٹا نہیں لیا گیا اُس وقت تک موٹروے پولیس وہاں موجود رہی؟ کیا ٹینکر گرتے ہی اُس جگہ کو ہائی رسک ایریا قرار دیتے ہوئے لوگوں کو دور رکھنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات اُٹھائے؟ اگر لوگ پولیس کی بات نہیں مان رہے تھے تو کیا پولیس نے زورِ بازو سے عوام کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا؟ آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں بھی جب بھی تیل سے بھری گاڑیوں یا ٹرکوں کو حادثہ ہوتا ہے تو کئی کلومیٹر تک عمارتیں اور سڑکیں خالی کروا لی جاتی ہیں اور جن علاقوں میں عوام شعور سے عاری ہوں تو وہاں حکومت کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ہماری حکومت اور پولیس نے کیا اِن میں سے کوئی ایک بھی کام کیا؟ اس لئے میری موت کا جتنا ذمے دار میں خود ہوں اتنی ہی ذمے دار حکومت اور پولیس بھی ہے۔ میری جہالت، حماقت اور ان پڑھ ہونے کی سزا مجھے مل گئی ہے، لیکن جو حماکت، لاپرواہی اور غیر ذمہ داری ہمارے حکمرانوں اور موٹروے پولیس نے دکھائی ہے اُس کی سزا انہیں کب ملے گی؟ انہیں کب عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے گا؟ کب اُن کے خلاف دفعہ 302 کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا؟ اور کب انہیں سزائے موت دی جائے گی؟ کب؟ آخر کب؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں