نین سکھ
عام لوگ بھی مسائل کی یکسانیت سے بے زار ہوکے تفریحی مواقعوں کی تلاش میں ایسی خوبصورت وادیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
SHANGHAI:
ہوا، خوبانی، ناشپاتی، آڑو کے درختوں کو چھوتی تو سوندھی مہک فضا میں تیرنے لگتی۔ گرمی کے دنوں میں ناران کی خوبصورتی عروج پر ہے۔ صنوبر اور پرنپاتی جنگل کا ہرا پن خمار بن کے آنکھوں میں اترنے لگتا ہے۔ بادلوں میں گھری ہوئی پہاڑوں کی چوٹیاں، ٹھنڈک کا احساس بانٹتی ہیں۔ خنکی بڑھنے لگی تھی۔ سہ پہر کے سورج کی سنہری کرنوں میں، درختوں کے پتے سرشاری سے جھومتے تھے۔
ناران ایک خوبصورت وادی اور سیاحوں کے لیے بیس کیمپ ہے۔ مانسہرہ سے 119 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ سرسبز علاقہ 8,202 فیٹ اونچائی پر واقع ہے۔ ہم یہاں 2004 میں آئے تھے۔ اس وقت ناران خاموشی میں لپٹا ہوا پرسکون خطہ تھا۔ جو خود کلامی کا تحرک عطا کرتا ہے۔ خود سے وہ باتیں کرنے لگتے ہیں جو شہر کی بھیڑ میں کہہ نہیں پاتے۔ 2017 کا ناران مختلف ہے۔ ہر طرف گہما گہمی اور ہجوم دکھائی دیتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی حساب سے شہروں پر آبادی کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا شہروں میں صفائی و ستھرائی اور نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے مربوط حکمت عملی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ سامنے خیموں کا شہر دکھائی دے رہا ہے۔ چہروں پر تجسس اور نگاہوں میں فطرت کے حسین رنگ بھرے ہیں۔ سیاحوں کے قہقہے تتلیوں کی مانند، طمانیت کے پھولوں کو چھو رہے ہیں۔ آج یہ فطرت کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
چند سالوں سے ان علاقوں میں ٹریفک کا نظام بہتر ہوا ہے۔ سیاحت کو ترقی دینے میں عمران خان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ڈرائیور عزیز نے معلومات فراہم کیں۔ یہ حقیقت ہے کہ خیبر پختونخوا کی پولیس مستعد نظر آئی۔
ناران میں بہتی ہوئی کنہار ندی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ جسے مقامی لوگ ''نین سکھ'' کہتے ہیں۔ اسی حوالے سے ایک کہانی سناتے ہیں۔ نورالدین محمد جہانگیر (ہندوستان کے حاکم) کا گزر اس علاقے سے ہوا۔ ملکہ کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ اس نے جیسے ہی دریائے کنہار کے چھینٹے آنکھوں پر مارے تو اس کی دکھتی آنکھوں کو افاقہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دن سے اس ندی کو ''نین سکھ'' (آنکھوں کی راحت) کے نام سے پکارا جانے لگا۔
یہ 160 کلومیٹر طویل ندی ہے۔ جو پوری کاغان وادی میں لہروں کے سر بکھیرتی رہتی ہے۔ جس میں لولوسر جھیل، سیف الملوک، ملکہ پربت اور ماکرا چوٹیوں کے گلیشیئرز کا پانی بھی شامل ہوجاتا ہے۔ ندی کے قریب بہت سے لوگ کھڑے ہیں۔ کچھ لوگ پانی میں پیر ڈالے محظوظ ہو رہے ہیں۔ یورپ میں ہائیڈرو تھیراپی (پانی سے علاج) کے چرچے عام ہیں۔ پانی سے جسم میں خون کے بہاؤ سے روانی آتی ہے۔ پانی میں تیرنے سے سکون کا احساس ملتا ہے۔ جسم کے درد میں کمی واقع ہوتی ہے۔ بہتے ہوئے پانی کو دیکھنے سے ذہنی دباؤ زائل ہوجاتا ہے۔
بہتے پانی کے ترنم میں فطرت کی بے ساختہ خوشی کا راز مضمر ہے۔ خوش آیند بات ہے کہ لوگوں کا فطری ماحول سے رابطہ بحال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دور دراز علاقوں سے سفر کرکے یہاں پہنچے ہیں۔ ماضی میں حالات کی وجہ سے، لوگ ان علاقہ جات کی طرف کم رخ کیا کرتے مگر آج کل سیاحت کے شعبے کو فروغ ملا ہے۔ عام لوگ بھی مسائل کی یکسانیت سے بے زار ہوکے تفریحی مواقعوں کی تلاش میں ایسی خوبصورت وادیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ کوئی زمانہ تھا کہ کم آمدن والے لوگ، ان علاقوں کا رخ کرنے سے گریز کرتے تھے۔ ان کے لیے ہوٹل کے اخراجات ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ مگر اس مرتبہ میں نے دیکھا کہ بہت دور دور تک، دریا کے کنارے خیموں سے آباد تھے۔ چولہوں پر کھانا پک رہا تھا اور خاندان کے لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
ناران میں پی ٹی ڈی سی کے ہٹس خوبصورت اور قیمتوں میں مناسب ہیں۔ درختوں میں گھرا سرسبز باغ اور پرندوں کی چہچہاہٹ، یہاں قیام پذیر سیاحوں کو، پریوں کے دیس میں لے کر جاتی ہے۔ سامنے پہاڑوں کا حسین منظر دھڑکنوں سے آنکھ مچولی کھیلنے لگتا ہے۔ دریائے کنہار کے قریب بنے ہوئے ہٹس، ایک ایسا حسین منظر پیش کرتے ہیں، جو مدتوں بھلائے نہیں بھولتا۔ درحقیقت ہم تبدیلی کے مثبت اثر سے واقف نہیں ہیں۔
پرفضا مقام پر گزارے ہوئے دن، ذہنوں کو جلا اور جسمانی مستعدی عطا کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ دوست سے ملنے اس کے آفس گئی تو وہاں پر اس کی انگریز کنسلٹنٹ خاتون جین سے ملاقات ہوئی۔ وہ حد درجہ سادہ لباس میں ملبوس تھی۔ مگر چہرے پر آگہی کی روشنی کا عکس نمایاں تھا۔ یہ روشنی اکثر سفر کرنے والے لوگوں کے چہروں پر دکھائی دیتی ہے۔ وہ سال بھر پیسہ جمع کرتی ہے اور پھر چھٹیوں میں دنیا گھومنے نکل کھڑی ہوتی ہے۔ جب کہ ہم پیسہ جمع کرتے ہیں زیور بنانے یا قیمتی اشیا خریدنے کے لیے۔ سادگی تو ہمیں قریب سے چھوکے نہیں گزری۔ لہٰذا پورا سال ملازمت و گھروں کے مسائل کے بوجھ تلے یکسانیت کے ساتھ گزرتا ہے۔
PTDC کے قدیم طرز کے ریسٹورنٹ میں مقامی لوگ بھی موجود ہیں۔ جو کھانے سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ خوبصورت باغ اور ندی کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ناران ایک ایسا مرکز ہے جس میں پڑاؤ ڈال کر لوگ قریبی علاقہ جات یا جھیلوں کی طرف نکل جاتے ہیں۔ جن میں جھیل سیف الملوک، ملکہ پربت، شوگراں، بابوسر، لولوسر اور شاران وغیرہ شامل ہیں۔
ایسے علاقے میں جاکر بے اختیار ولیم ورڈز ورتھ یاد آجاتا ہے۔ جو فطرت کو زندہ حقیقت کے طور پر دیکھتا تھا۔ جیسے فطرت انسانی شخصیت کی مانند ہو۔ جس کے چہرے پر کبھی خوف تو کبھی سکون کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ فطرت کے بدلتے رویے، انسانی مزاج پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ فطری علاقوں کا سکوت، مسرت و انبساط کے جذبات سے سرشار دکھائی دیتا ہے۔ اگر آپ یہاں بھی اپنی تشویش لے کر آتے ہیں تو یہ نظارے آپ کو سکھ نہیں دے سکتے۔ جس کے لیے آپ کو ٹائم شفٹ کا ہنر سیکھنا پڑے گا۔ جس کے مطابق، اپنی پریشانیاں گھر میں چھوڑ کے، آپ کو وقت کی مختلف سمتوں کا سفر کرنا ہے۔
ناران کے گھنے جنگل میں چلتے کئی درخت دکھائی دیتے ہیں۔ جس میں کونیفر بھی شامل ہے۔ تینتیس لاکھ سال پرانا یہ درخت اپنے خاندان کے دوسرے سلسلوں جیسا کہ پائن، ہیملاک، صنوبر اور لارچز سے جڑا ہوا ہے۔ یہ سدابہار درخت کہلاتے ہیں۔ دیال اور سیدر درخت بھی جابجا نظر آتے ہیں۔ ان سرو قد درختوں کے درمیان چلنا سکون بخش ہے۔ پورا جنگل جاگتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
زمین ہری گھاس سے آراستہ، جس پر جابجا جنگلی پھول حسین نظر آرہے ہیں۔ ان پھولوں پر شہد کی مکھیاں اور تتلیاں منڈلا رہی ہیں۔ پرندوں کی مسحور کن چہچہاہٹ کانوں میں رس گھولتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ذہن کے درخت سے منفی اور بوسیدہ خیالات، خزاں رسیدہ پتوں کی مانند جھڑنے لگتے ہیں۔ نگاہوں میں فقط درختوں و سبزے کا نیاپن سما جاتا ہے۔ مگر مستقل جو احساس مجھے پریشان کر رہا ہے وہ ندی کے کناروں پر بکھری آلودگی ہے۔ ناران شہر میں بھی صفائی کا فقدان نظر آیا۔ لوگوں کو پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ ویسٹیج شاپرز میں بھر کے ڈسٹ بن میں ڈالتے جائیں۔ مگر دور دور تک ایسی سہولت دستیاب نہیں ہے۔