روپے سے۔۔۔۔ جمہوریت سے۔۔۔۔
بات یہ ہے کہ باہر کے لوگ تو سمجھیں گے نہیں وہ تو مشینوں اور اعداد سے کام کرتے ہیں
ISLAMABAD:
پاکستان میں سب سے منافع بخش کام رئیل اسٹیٹ یعنی جائیدادوں کا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کنسٹرکشن اور ڈیولپر کا کام بھی خوب چمک رہا ہے۔ انسان کے کارناموں اور اہلیت سے رشوت، چور بازاری، اشیا کو مہنگا فروخت کرنا، 3 نمبر کی اشیا کو ایک نمبر کے دام فروخت کرنا اور بہت سی لوٹ مار جس میں ایک بڑا شعبہ تعلیم کا ہے۔ یہ سارے کارنامے انسانوں کے ہیں پروردگار نے تو ہوا، پانی، زمین، سہولتیں مفت ہی دی تھیں انسان نے ان کو کاروبار بنالیا۔
اللہ نے اپنے کلام میں انسان کو جس طرح ظالم فرمایا وہ رب کریم ہی بہتر جانتے ہیں کہا ہے تو یقینا سچ ہے، عام مظاہر سے تو ہم نے دیکھ لیا ہے کہ انسان ظالم ہے اور ہم عام معنوں ہی میں اسے ظالم کہہ رہے ہیں۔ ملاوٹ دو نمبری سیاست سے غذا تک ہے۔ آپ سمجھ دار ہیں لہٰذا دو نمبر جماعتوں کا نام بتانا ضروری نہیں ہے یہ ہمیشہ اقتدار کے ساتھ رہتی ہیں اور ہمیشہ بھول جاتی ہیں کہ گزشتہ کل وہ دوسرے کنارے پر تھے۔
اب مزید صراحت کیا کریں نمایاں نشانیاں بتا دی ہیں۔ مذہب اور لامذہب کا نام اس میں نہیں آتا کیونکہ جو مذہب کے نام پر جماعت ہے اور سیاست کے لیے مذہب کو فروخت کرتی ہے تو اسے یہ نام دیا جائے یا کوئی اور آپ خود فیصلہ کرلیں ۔
اور سرخ یا سفید ٹوپی ہو اس سے بھی فرق نہیں پڑتا، کردار اصل چیز ہے اور وہ ہے عمل اس جماعت کا کوئی بھی ہو۔ پتنگ اس کی ہی اونچی اڑنی چاہیے جو واقعی دیانتدار ہو یہ فیصلہ بھی آپ ہی کریں کہ کہاں کی پتنگ ٹھیک ہے ملکی یا غیر ملکی، سرزمین کو تو ابھی بہت آباد ہونا ہے۔
تو بات ہو رہی تھی کنسٹرکشن اور ڈیولپمنٹ کے کام کی کہ ہم موٹروے سے ہوتے ہوئے میٹرو بس کے ذریعے نہ جانے کہاں پہنچ گئے، ایسا ہی ہوتا ہے ان دو نمبر کی چیزوں میں سفر کرنے سے کیونکہ اس میں سے کمیشن کمیشن کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ کمیشن تو شاید چینی اور مرغی تک پہنچ گیا ہے۔ انڈے حیران پریشان ''چھبڑی'' میں کھڑے ہیں۔
''دال نہ کھاؤ مرغی کھاؤ والا سامری جادوگر'' دور کھڑا مسکرا رہا ہے اور مرغی پر ہاتھ پھیر رہا ہے، انڈا دوسرے ہاتھ میں ہے۔
کیا ہوگا ہمارا؟ آخر ہم خوش ہونا کب چھوڑیں گے، ان حالات کے باوجود دنیا کی خوش اقوام میں ہمارا پانچواں نمبر ہے، اگر مسکرانے کی عادت نہ بدلی تو مہنگائی سو درجہ اور خوش اقوام میں پہلا نمبر ہوگا ہمارا۔ ابھی تک ہم وہاں نہیں پہنچے جہاں کا ضمیر اور قلم مطالبہ کر رہا ہے۔ ہم بار بار ان چیزوں میں پھنس جاتے ہیں جو راستے کا پتھر ہیں اور یہ ذہن کو فوراً اپنی جانب متوجہ کرلیتی ہیں اور ہم ان پر رواں ہوجاتے ہیں کہ یہ بھی تلخ حقائق ہیں۔
خیر! ایک زمانے میں جب نئے مکان بنتے تھے تو ان کا ایک باقاعدہ ادائیگی منصوبہ Payment Plan ہوتا تھا اور اس کے ساتھ لوگ اطمینان کا سانس لیتے تھے اور اس طرح کام ٹھیک چل رہا تھا۔ پھر نام نہاد مسلمان ماہرین و ذمے داران تعمیرات یعنی ''بلڈرز'' نے نئی نئی اختراعات کے ذریعے ''حرام'' کو بڑھانا شروع کردیا ''کارنر پلاٹ'' دس فیصد رقم زیادہ۔ کارنر تو حقیقی پلاٹ میں چار تھے اور ہوتے ہیں تو ''بلڈر'' نے کیا کمال کیا ہے یہ آج تک کوئی نہ جان سکا اور جوکارنر پلاٹ نہیں ہیں ان کی اصل قیمت سے دس فیصد کم قیمت ہونی چاہیے کہ وہ کارنر پلاٹ نہیں ہیں۔ پھر ہر فلیٹ کارنر فلیٹ کا ڈرامہ، اس پر بس نہ ہوا تو ہر فلور کی الگ الگ قیمت، ہر قبر میں حساب ضرور ہوگا یہ یاد نہیں ان کو۔
لوٹ کا بازار گرم ہے ملک میں، بے گھر لوگ اتنے ہی زیادہ ہیں جتنے مکان بن رہے ہیں۔ بلیک منی یعنی مال حرام یعنی رشوت اور کمیشن کا مال سر چڑھ کر بول رہا ہے اور قیمتیں بازار میں رقص کر رہی ہیں۔ کوئی قانون نہیں ہے کہ پوچھا جاسکے کہ یہ سب کہاں سے آیا۔ سب ایک ہی حمام میں ہیں اور برہنہ ہیں، ہر شعبہ کرپٹ اور نااہل بے ایمان لوگوں سے بھرا ہوا ہے، پہلے دیہات سے آنے والے دیانتداری کی وجہ سے ناکام رہتے تھے ملازمتوں میں اب اتنے کامیاب ہیں کہ گھر کے نلکوں سے نوٹ نکل رہے ہیں۔
پھر''بلڈرز'' نے کہ یہ آپ کا نہیں صرف اپنا بھلا چاہتے ہیں ایک نیا کارنامہ انجام دیا کہ ایک نئی اصطلاح ''۔۔۔۔روپے سے'' ایجاد کرلی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کیونکہ جائیداد مہنگی ہے خریدار تو اتنے نہیں ہیں لہٰذا کچھ اس طرح قیمت بتائی جائے کہ کم لگے اور پھر پٹھان سود خور کی قسطوں کی طرح خریدار کی کھال اتار لی جائے گی، یوں ''20 لاکھ روپے سے'' کا مطلب یہ ہے کہ جائیداد ایک کروڑ روپے کی ہے اور قسطیں دے دے کر آپ ڈاکٹر عاصم کے اسپتال میں داخل ہوجائیں گے آخر میں۔
یہ فراڈ چل رہا ہے، اوپر کے پیسے، نیچے کے پیسے، دائیں کے پیسے، بائیں کے پیسے۔ بس پیسے اور پیسے۔ یہ ہے آج کا کاروبار، اور اس میں بھی اب نہ جانے کس کے بندے سر سے پیر تک شامل ہیں وہ ہیں سیاستدان۔ سارے صوبوں میں یکجہتی ہے ''لوٹ مار'' کی، عوام میں یکجہتی ہے ''خوش رہنے کی'' تو کام ''۔۔۔۔۔سے'' چل رہا ہے اس پر غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ عوام بھی سیاستدانوں کی ''رئیل اسٹیٹ'' ہیں کہ وہ انھیں اپنے پسندیدہ داموں خرید وفروخت کرتے رہتے ہیں، زرداری صاحب نے کچھ عرصہ پہلے لاہور میں کہا تھا ''میرا تجربہ اور زرداری کی جوانی یا شاید قیادت اقتدار دلائے گی۔ یہ ہے سیاست کا ''جمہوریت سے۔۔۔۔!''
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ باری باری کا اقتدار لے کر یہ پارٹیاں اس ملک کا کب تک بیڑا غرق کرتی رہیں گی ۔ اسحاق چاچا نے ملک کو ''گروی'' تو رکھ دیا ہے اب تو قبضہ دینا باقی ہے اس جائیداد کا، جو قائد اعظم نے لوگوں کے رہنے کو بنائی تھی۔ کسی کمیشن کی رپورٹ شایع نہیں کی جاتی یہ ہے ''جمہوریت سے۔۔۔۔''
ایبٹ آباد کمیشن تو اسامہ کے بارے میں ہے، وہ بھی ہڑپ رپورٹ کے ساتھ یہ ہے ''جمہوریت سے۔۔۔۔'' ماڈل ٹاؤن کمیشن رپورٹ ہڑپ یعنی ''جمہوریت سے۔۔۔۔''
آج تک پاکستان کے تمام حکمرانوں کے پیٹ کمیشنوں کی رپورٹوں سے نہیں بھرے، ان میں دراصل جہنم جل رہا ہے اور یہ کمیشن کی رپورٹیں ان کا ایندھن ہیں، دو تین خاندانوں نے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ عوام کا خون نچوڑنے کی مشینیں لگی ہوئی ہیں ''عوام خوشی میں پانچواں نمبر'' نہ جانے ان عوام کو کس بات کی خوشی ہے۔
بات یہ ہے کہ باہر کے لوگ تو سمجھیں گے نہیں وہ تو مشینوں اور اعداد سے کام کرتے ہیں، مسئلہ ہے دل اور ذہن کا "N" اور "P" نے ان کو نیم دیوانہ کردیا ہے۔ اور یہ ذہنی توازن سے محرومی کی حد تک پہنچ چکے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ جب عوام کے ذہن ایسے ہوجائیں تو ان کو پتا نہیں چلتا کہ کب ہنسنا ہے اور کب نہیں۔ وہ تو کچھ ذہنوں نے خطرہ بھانپ لیا کہ یہ ڈیونڈر لائن کا بل تک نہ بڑھادیں اس وجہ سے باڑ تعمیر کردی ہے سرحدوں پر ان سے کچھ بعید نہیں کچھ بھی کرسکتے ہیں یہ الگ ذہن ہیں نا؟
عوام کے ساتھ ان دونوں کے علاج "AN"، "JU"، ـ"MQ" نے بھی کچھ ستم نہیں ڈھایا ہے اور ذہن کو عوام کے خراب کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ان کا اصل شاید یہ لگتا ہے ''انتشار، شراکت، اقتدار'' تو لوگو! اب سمجھ لو آپ کیا ہو، ملک کیا ہے، ملک کن لوگوں کا ہے، آپ سیاسی وراثت بھئی، زبان کی بنیاد پر، مسلک کی بنیاد پر، ثقافت کی بنیاد پر اور یہ سب لوگ اپنے اکاؤنٹ کے بہت بڑے ''بلڈر'' ہیں اور ان کا نعرہ ہے آپ کے لیے، سب کچھ ہمارا ''جمہوریت سے۔۔۔۔!''