جے آئی ٹی کے 60 روز آج مکمل حتمی رپورٹ کی تیاری تیز

پاکستانی سفارتخانے آئیں، جے آئی ٹی کا ایک اور خط، قطری شہزادے کا پھر انکار


پاکستانی سفارتخانے آئیں، جے آئی ٹی کا ایک اور خط، قطری شہزادے کا پھر انکار۔ فوٹو؛ فائل

پاناما جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ کی تیاری کا عمل تیز کردیا، تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کوبھی آج 60روز مکمل ہو جائیں گے تاہم اسے حتمی رپورٹ10جولائی کو جمع کرانی ہے۔

ماہرین کے مطابق عدالت کی طرف سے دیا گیا وقت مکمل ہونے کے بعد قانونی طور پر جے آئی ٹی کسی شخص کو طلب کرنے کی مجاز نہیں ، جمعرات کوجے آئی ٹی کا 56 واں اجلاس واجد ضیاء کی زیرصدارت ہوا۔

ذرائع کے مطابق ارکان نے شریف خاندان اور مختلف اداروں کے سربراہان کی طرف سے پیش کیے گئے ریکارڈ، گلف اسٹیل ملز کی دستاویزات اور گواہوں کے بیانات پر غور کیا جبکہ مزید بیان ریکارڈ کرنے سے متعلق بھی مشاورت کی گئی۔

ماہرین کے مطابق بظاہراب تک جے آئی ٹی عدالت کی طرف سے اٹھائے گئے سوالوں کے جواب تلاش کرنے جدہ یا قطر نہیں گئی جبکہ برطانیہ سے بھی کوئی ریکارڈ حاصل نہیں کیا جاسکا۔

دریں اثنا نجی ٹی وی کے مطابق جے آئی ٹی نے شریف خاندان کے بارے میں تفتیش کرنے والے افسروں کے بیان قلمبند کر لیے، اس سلسلے میں حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کے تفتیشی افسر بشارت شہزاد کا بیان قلمبند کیا گیا، بشارت شہزاد اب ایف آئی اے خیبر پختونخوا کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے ہی عدالت لے جا کر اسحاق ڈار کا بیان ریکارڈ کرایا تھا، جے آئی ٹی نے ان سے حدیبیہ پیپر ملز کیس اور اسحاق ڈار کے بیان کا پس منظر بھی معلوم کیا، علاوہ ازیں حال ہی میں ایف آئی اے کے ریٹائر ہونے والے افسر جاوید علی شاہ کا بیان ریکارڈ کیا جبکہ جاوید علی شاہ رائے ونڈ جائیداد کے بارے میں تفتیش کرتے رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق رابطہ کرنے پر بشارت شہزاد نے خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ دریں اثنا پاناما جے آئی ٹی نے قطری شہزادے حماد بن جاسم کو ایک اور خط لکھا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق خط میں کہا گیا ہے کہ آپ پاناما کیس میں خط کی وجہ سے ہمارے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ آپ دوحہ میں پاکستانی سفارتخانے آ کر بیان ریکارڈ کرائیں۔

رپورٹ کے مطابق شہزادہ حماد بن جاسم نے جوابی خط میں ایک بار پھر سفارتخانے آنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے جے آئی ٹی کو دفتر یا گھر آنے کی پیشکش کرتے ہوئے پھر کہا ہے کہ پاکستانی شہری نہیں، بیان ریکارڈ کرنا ہے تو گھر آ جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں