تنقید کا طوفان دعووں کا سیلاب

گشتہ ہفتے حیدر آباد کی سیاست پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مخالفت کے گرد گھومتی رہی۔


Junaid Khanzada February 05, 2013
حیدر آباد میں بھی سیاسی میدان تیزی سے گرم ہونے لگا ہے۔ فوٹو : فائل

حیدرآباد میں گذشتہ ہفتے کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں سے سیاست دانوں کی آمدورفت جاری رہی۔

پچھلے دنوں قاضی حسین احمد اور پروفیسر غفور احمد کی یاد میں لطیف آباد میں جماعت اسلامی (حیدرآباد) کے تحت تعزیتی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منور حسن نے خطاب کیا۔ اس موقع پر حزب اختلاف کی جماعتوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ الیکشن ملتوی کرنے کی ہر سازش ناکام بنادیں گے، جماعت اسلامی اپنی انتخابی حکمت عملی الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد سامنے لائے گی۔ الیکشن کے ضمن میں تمام جماعتوں سے رابطے ہیں اور زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے ایک صوبے میں ایک سے زیادہ جماعتوں کے ساتھ انتخابی مفاہمت اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

متحدہ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ ایم کیوایم کے جرائم کی فہرست اتنی طویل ہے کہ وہ کسی بھی صورت اقتدار سے باہر نہیں رہ سکتی، اگر کوئی جماعت الیکشن میں عددی اکثریت کی بنیاد پر سندھ میں متحدہ کو شامل کیے بغیر حکومت بنائے تو سندھ کے عوام کو بوری بند نعشوں اور بھتا خوری کلچر سے نجات مل سکتی ہے۔ انھوں نے واضح کیاکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی کوشش ہے کہ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی اور شہری سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ سے نجات اور ون ٹو ون مقابلے کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنانا ہے تاکہ ووٹروں میں یہ احساس پیدا ہوسکے کہ وہ پولنگ اسٹیشنوں سے صحیح سلامت واپس آئیں گے۔ انھوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی کو بھی اب سمجھنا چاہیے کہ اس نے مفاہمت کے نام پر دہشت گردوں کو اپنی گود میں بٹھا رکھا ہے۔

جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی سینیئر نائب صدر شاہ محمد اویس نورانی نے خطاب کے دوران کسی کا نام لیے بغیر کہاکہ چند روز قبل نگراں وزیر اعظم کے لیے بھارت جاکر ناچنے اور ان بھارتی فوجیوں کو مٹھائی کھلانے والی کا نام سامنے آیا ہے جو انتہائی افسوس ناک ہے۔ آج اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا تک نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھاکہ قاضی حسین احمد اور پروفیسر غفور احمد نے ہمیشہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیا اور کسی نقصان کی پروا کیے بغیر حق پر ڈٹے رہے، انھیں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ تعزیتی کانفرنس سے پروفیسر غفور احمد (مرحوم) کے صاحب زادے طارق فوزی، پی ٹی آئی کے صوبائی صدر سردار نادر اکمل لغاری، جماعت اسلامی سندھ کے امیر معراج الہدٰی صدیقی، نون لیگ سندھ کے جنرل سیکریٹری سلیم ضیاء، جمعیت علمائے اسلام کے راہ نما مولانا تاج محمد ناہیوں، جماعت اسلامی سندھ کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری عبدالوحید قریشی، ضلعی امیر شیخ شوکت علی، سابق ضلعی امیر مشتاق احمد خان، نیشنل لیبر فیڈریشن سندھ کے صدر رانا محمود علی خان، جماعۃ الدعوۃ حیدرآباد زون کے امیر فیصل ندیم و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

دوسری جانب وفاقی وزیر سینٹیر مولا بخش چانڈیو گذشتہ ہفتے بھی حیدرآباد میں موجود تھے۔ وہ قاسم آباد میں ترقیاتی کاموں کی افتتاحی تقاریب اور مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی پیپلز پارٹی میں شمولیت سے متعلق سرگرم رہے۔ گذشتہ ہفتے انھوں نے مسلم لیگ نون کی سندھ کونسل کے رکن سید مہران شاہ اور ان کے ساتھیوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا مرحلے طے کروایا۔ اس موقع پر ایک تقریب سے خطاب اور میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ نون لیگ نے اپنی سیاسی زندگی بچانے کے لیے دھرنا دیا، لیکن یہ بتانا ہوگاکہ پچھلے دنوں دیا گیا ایک دھرنا اگر جمہوریت دشمن تھا تو ان کا دھرنا کس طرح جمہوریت دوست ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ نواز شریف کی مہربانی ہے کہ قانون سازی سمیت ہر جگہ نون لیگ نے ہمارا ساتھ دیا، کبھی قانون سازی کی حمایت میں ووٹ دے کر اور کبھی پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر کے۔ اب جب کہ عام انتخابات قریب ہیں تو وہ ہر جگہ ہمارے ساتھ نہیں کھڑے ہوسکتے، کیوں کہ اس طرح وہ اپوزیشن جماعت کیسے کہلائیں گے۔ مولا بخش چانڈیو کاکہنا تھاکہ الیکشن کے التواء کی سازشیں ہو رہی ہیں، جو ناکام ہوںگی۔ ان کا کہنا تھاکہ پیپلزپارٹی کے خلاف گرینڈ الائنس بنتے رہے ہیں، لیکن عوام نے ہمیشہ پیپلز پارٹی پر اعتماد کیا ہے، اگر اس بار کوئی سازش نہ ہوئی اور عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا گیا تو فیصلہ پیپلز پارٹی کے حق میں ہی ہو گا۔ پی پی پی میں شمولیت اختیار کرنے والے سید مہران شاہ کا کہنا تھاکہ بھٹو مخالف نعرے کبھی کام یاب نہیں ہو سکے، جس کی وجہ اس قیادت کی سیاسی بصیرت اور قائدین کی عوام کے لیے قربانیاں ہیں۔ مولا بخش چانڈیو نے متعدد علاقوں میں سڑکوں اور گلیوں کو پختہ کرنے کی اسکیموں کا افتتاح بھی کیا۔

گذشتہ دنوں بارہ ربیع کے سلسلے میں حیدرآباد میں جلسۂ عام سے جمعیت علمائے پاکستان کی مرکزی قیادت نے خطاب کیا، جس میں سربراہ صاحب زادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر کا کہنا تھاکہ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کا منصوبہ کبھی کام یاب نہیں ہو گا۔ انھوں نے عوام پر زور دیا کہ الیکشن میں ایسے لوگوں کو منتخب کرائیں، جو نظام مصطفی ﷺ نافذ کریں۔ انھوں نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ اگر ملک گیر سطح پر متحدہ مجلس عمل بحال نہ بھی ہوئی تو امید ہے کہ سندھ کی سطح پر گرینڈ الائنس تشکیل پا جائے گا، جس میں حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتیں مل کر پی پی پی اور ایم کیو ایم کا مقابلہ کریں گی۔ اسی جلسے سے جے یو پی کے سینئر نائب صدر محمد شاہ محمد اویس نورانی نے بھی نہایت سخت خطاب کیا۔

ان کا کہنا تھاکہ ایک طرف سارے بھتا خور جمع ہیں اور دوسری طرف ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ جمہوری نظام کو کسی صورت ڈی ریل نہیں کریں گے، باہر سے آنے والے کسی بھی فرد کو حکومت پر شب خون مارنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انھوں نے کہاکہ اب وقت آ گیا ہے کہ پچیس سال سے یرغمال کراچی اور اس کے شہریوں کو آزادی دلائی جائے۔

قاسم آباد میں پچھلے دنوں مسلم لیگ (ہم خیال) کی سندھ کونسل کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں ویڈیو خطاب میں اس کے مرکزی صدر ڈاکٹرارباب غلام رحیم نے رواں ماہ پاکستان واپس آنے کا اعلان کیا۔انھوں نے کہا کہ پارٹی سے مشورے کے بعد واپسی کے مقام کا حتمی اعلان کریں گے۔ انھوں نے اپوزیشن جماعتوں کے برعکس موقف اختیار کرتے ہوئے کہاکہ پیپلزپارٹی کی خواہش تھی کہ الیکشن ایک سال کے لیے ملتوی ہو جائیں، لیکن علامہ طاہرالقادری، سول سوسائٹی اور بعض قوتوں نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ متحدہ سے متعلق ارباب غلام رحیم نے نہایت نرم رویہ اختیار کیے رکھا اور اسے ایک سیاسی جماعت اور حقیقت قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ آج جو پارٹیاں ایم کیو ایم کی مخالفت کر رہی ہیں، وہ الیکشن کے بعد حکومت بنانے کے لیے نائن زیرو پر نظر آئیں گی۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی راہ نما حافظ حسین احمد نے بھی گذشتہ ہفتے حیدرآباد کا دورہ کیا۔ انھوں نے بلوچستان کی مثال دیتے ہوئے کراچی میں گورنر راج کی بات کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بلوچستان کے مسئلے کا حل گورنر راج ہے، تو اس کے مقابلے میں کراچی کے حالات انتہائی خراب ہیں، یہاں بھی گورنر راج لگایا جائے۔ ان کا کہنا تھاکہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلوچستان میں گورنر راج لگا کر اپنی سابق روایات کو برقرار رکھا ہے اور جمہوریت پر کاری ضرب لگائی ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہیے۔ عوام اس کی حقیقت سے واقف ہو گئے ہیں اور عام انتخابات میں پی پی پی کو یک سر مسترد کر دیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں