میں اور مسرور انور چوتھا اور آخری حصہ

بارہا مواقعوں پر بھٹو صاحب نے خود بھی یہ نغمہ عوام کے ساتھ آواز ملاکر جھوم کرگایا تھا اوراس نغمے کی خوبصورتی


یونس ہمدم July 08, 2017
[email protected]

جس طرح مسرور انور کو فلمی گیت لکھنے میں کمال حاصل تھا اسی طرح مسرور انور نے بعض قومی نغمے بھی اتنے بے مثال اور لاجواب لکھے ہیں جو ہمارے ملک اور قوم کے لیے قیمتی سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان نے 1965 میں پاکستان پر ایک خوفناک جنگ مسلط کی تھی اور ہماری قوم اس وقت یکجہتی کی مثال بن گئی تھی۔ قوم کا ہر فرد اس جنگ میں شریک تھا اور ملک کے فنکاروں ، گلوکاروں اور شاعروں نے بھی اپنی فوج اور اپنے صف شکنوں کو بڑا حوصلہ دیا تھا۔وہ ایک ایسا وقت تھا کہ ساری قوم دشمن کے سامنے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی ۔ اس وقت ہر گلوکار، ہر گلوکارہ اور ہر شاعر اپنے فن اور اپنی اپنی تخلیقات کے ساتھ میدان جنگ میں آگیا تھا اور قوم کا ہر فرد اپنی بساط کے ساتھ اس جنگ میں اپنا حصہ ڈال رہا تھا جب ریڈیو سے پہلی بار مہدی حسن کی گائیکی میں مسرور انورکا لکھا ہوا جوش و جذبے میں ڈوبا ہوا نغمہ نشر ہوا تھا تو اس نغمے نے ساری قوم کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر وطن کا دفاع کرنے والے فوجیوں کے دلوں میں بھی ایک نئی روح پھونک دی تھی اور وہ لازوال نغمہ تھا۔

اپنی جاں نذرکروں اپنی وفا پیش کروں

قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں

اب میں مسرور انور کے لکھے ہوئے ایک ایسے قومی نغمے کا تذکرہ کر رہا ہوں جس نے عوامی پسندیدگی میں پاکستان کے قومی ترانے کے بعد دوسرے قومی نغمے کی حیثیت اختیار کرلی تھی اور ایک وقت تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ایسا آیا تھا کہ پاکستان کا اصلی قومی ترانہ پس منظر میں چلایا تھا اور ہر طرف صرف مسرور انور کے لکھے ہوئے قومی نغمے کی گونج سنائی دیتی تھی اور وہ نغمہ تھا۔

سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے

تیرا ہر اک ذرہ ہم کو اپنی جان سے پیارا

اور اس گیت کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی تھی کہ پاکستان کے اسکولوں میں بھی بچے جھوم جھوم کر یہ گاتے تھے۔ یہ گیت سب سے پہلے کراچی ٹیلی وژن کے لیے پروڈیوسر ایم ظہیر خان نے ان دنوں ڈھاکہ سے کراچی آئی ہوئی گلوکارہ شہناز بیگم سے گوایا تھا اور اس نغمے میں موسیقی سہیل رعنا نے مرتب کی تھی پھر جیسے ہی یہ نغمہ ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ ہوا تو اس نغمے کی دھوم مچتی چلی گئی۔ بنگالی گلوکارہ نے سروں میں ڈوب کر یہ نغمہ گایا تھا اور پھر اس نغمے نے سارے پاکستان کے لوگوں کا دل موہ لیا تھا۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں ان کی ہر تقریر سے پہلے یہی نغمہ بجایا جاتا تھا اور اکثر اوقات کورس کی شکل میں اسٹیج پر گایا بھی جاتا تھا اور رفتہ رفتہ اس نغمے کو قومی ترانے جیسی اہمیت حاصل ہوتی چلی گئی تھی۔

بارہا مواقعوں پر بھٹو صاحب نے خود بھی یہ نغمہ عوام کے ساتھ آواز ملاکر جھوم کرگایا تھا اوراس نغمے کی خوبصورتی، دلکشی اور اہمیت آج بھی اسی طرح برقرار ہے اور سدا برقرار رہے گی اور یہ اعزاز مسرور انور ہی کو جاتا ہے کہ اس کے ایک قومی نغمے نے لاکھوں دلوں میں گھر کیا ہوا ہے۔ یہ نغمہ لکھ کر مسرور انور نے سنہرے حروف سے اپنا نام بھی پاکستان کی قومی تاریخ میں لکھوا لیا ہے۔ ایک اور نغمہ بھی مسرور انور کے کریڈٹ پر ہے جسے گلوکارہ نیرہ نور نے گایا تھا اور جس کے بول ہیں ''وطن کی مٹی گواہ رہنا' گواہ رہنا'' وطن سے محبت کے اظہار میں یہاں بھی مسرور انور بازی لے گیا تھا اس گیت کو بھی بڑی شہرت ملی تھی۔

اس قومی نغمے کے علاوہ مسرور انور کا لکھا ہوا ایک اور گیت اپنے وقت کی نامور اداکارہ اور بعد کی گلوکارہ صبیحہ خانم نے بھی گایا تھا جس کے بول ہیں ''جگ جگ جیوے میرا پیارا وطن'' اور مسرور انور کے لکھے ہوئے یہ تمام قومی گیت آج بھی اور کل بھی قومی اثاثے کی طرح ہماری قومی تاریخ کا حصہ بنے رہیں گے۔ مسرور انور نے فلموں میں بھی اپنا ایک منفرد مقام بنایا اور پھر ادبی حلقوں میں بھی اس کی شاعری نے بڑے بڑے شاعروں کو اس کی شاعری کا گرویدہ کردیا تھا اور اپنے وقت کے جید شاعر بھی مسرور انور کے ادبی قد کو سراہتے ہوئے بڑی خوشی محسوس کیا کرتے تھے۔

میں جب لاہور میں مصروف ہوگیا تھا تو کبھی کبھی مسرور انور مذاق میں تفریح لیتے ہوئے کہتا تھا'' یار یونس ہمدم! کبھی ہماری طرف بھی آجایا کرو وقت نکال کر ، ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔'' تو میں ہاتھ جوڑ کر کہتا تھا ۔''میرے یار! کیوں شرمندہ کرتے ہو، مجھ سے زیادہ تو تم مصروف رہتے ہو، یہ شکایت تو مجھے تم سے کرنی چاہیے۔'' پھر ہم کافی دیر تک صرف اپنی باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک دن مسرور انور اور میں کافی وقت نکال کر دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے تو مسرور انور نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا تھا'' یار ہمدم ! میری خواہش ہے کہ میں اپنے تمام گیتوں کو یکجا کروں اور پھر انھیں ایک کتاب کی شکل دے کر منظر عام پر لے کر آؤں۔ یہ گیت ہی میری زندگی اور میری زندگی کی خوشیاں ہیں، مگر میری مصروفیات بعض اوقات اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہیں کہ مجھے اس طرف کچھ کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔'' میں نے مسرور انور سے کہا '' یار! یہ کام ویسے اتنا آسان بھی نہیں ہے۔

اس کے لیے سب سے زیادہ وقت ہی کی ضرورت ہے اور وہ وقت ہی تمہیں نہیں مل پاتا جو تمہیں ضرورت کے دوسرے کاموں میں الجھائے رکھتا ہے اور اس کام کے لیے کچھ سنجیدگی کی بھی ضرورت ہے، اگر تم چاہو تو ہم وقت نکال کر دونوں دو چار دن بیٹھتے ہیں اور پھر کراچی کی فلموں سے لے کر لاہور کی تمام فلموں کے گیتوں کی ایک فہرست بناتے ہیں اور پھر مزید مرحلوں سے کیسے کام کو آگے پہنچانا ہے میں اس کے بارے میں بھی اپنا وقت تمہیں دیتا رہوں گا مگر اصلی کام کا آغاز تم نے ہی کرنا ہے۔'' مسرور انور نے کہا ''چلو ٹھیک ہے اس بارے میں ضرور کوئی پروگرام مرتب کرکے تمہیں بتاؤں گا'' اور پھر ہماری بیٹھک کسی آیندہ ملاقات پر چلی گئی۔

مسرور انور پھر مصروف ہوگیا ، پھر دو تین مہینے ہم دونوں کی ملاقات نہ ہوسکی میں بھی اپنی کئی فلموں کی آؤٹ شوٹنگز میں مصروف ہوگیا اور مسرور انور بھی اپنی فلموں کی عکس بندی کی غرض سے مری اور نتھیا گلی چلا گیا، پھر جب واپس آیا تو پتا چلا کہ اس کی طبیعت خراب ہے، میں اس کی خیر وعافیت پوچھنے گیا۔ تو اس نے کہا کہ '' یار! میری آج کل طبیعت کچھ زیادہ خراب رہنے لگی ہے۔ میں جو کچھ بھی غذا کھاتا ہوں وہ ہضم بڑی مشکل سے ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ میرا جگر کافی متاثر ہوگیا ہے اور جگر کی خرابی کی وجہ ہی سے میری صحت دن بہ دن گرتی جا رہی ہے۔''

مسرور انور تمباکو کے پان بڑی کثرت سے کھاتا تھا اور دن رات اس کے پان چلتے رہتے تھے بعض اوقات تو وہ کھانا کھانا چھوڑ دیتا تھا مگر تمباکو والے پان نہیں چھوڑتا تھا۔ جب لاہور کی فلم انڈسٹری کو زوال آیا تو میں لاہور چھوڑ کر واپس کراچی آگیا تھا پھر میں دوبارہ لاہور نہیں گیا کئی سال کے بعد مجھے اخبارات کے ذریعے پتا چلا کہ مسرور انور کو ایک دن اچانک دل کا دورہ پڑا اور پھر وہ دل کا دورہ جان لیوا ہی ثابت ہوا۔ وہ یکم اپریل 1996 میں پچپن چھپن سال کی عمر ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا اور اس طرح خوبصورت گیتوں کا خالق اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ مسرور انور جتنا اچھا شاعر تھا اس سے زیادہ اچھا وہ ملنسار، دوست نواز اور بہترین انسان تھا۔ فلمی شاعری کا ایک سنہرا دور اس کے جانے سے ختم ہوگیا تھا۔ وہ میرے بچپن، لڑکپن، جوانی کا ساتھی اور ایک ہی پروفیشن کا بہترین دوست تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کرے۔ اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور اس کے درجات بلند کرے۔ (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں