جنوبی پنجاب کی محرومی کیا ہے

تخت لاہور پر بیٹھے حکمران اپنے طرز حکمرانی میں لچک پیدا کر لیں تو پنجاب کوتقسیم کرنے کے نعرے اپنی موت آپ مرجائیں گے۔


Latif Chaudhry February 05, 2013
[email protected]

کسی متوقع ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کے قیام کی قیاس آرائیاں اور جمہوریت کو نادیدہ خطرات کے شور میں ایسی آواز یں بھی گونج رہی ہیں کہ عام انتخابات سر پر آ گئے ہیں اور جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میری آواز بھی ان میں شامل ہے۔ پاپولر سیاسی جماعتیں کسی اور ایشو پر ہوں یا نہ ہوں لیکن جمہوریت کے معاملے میں متحد ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو تین برس کے لیے ٹیکنو کریٹ المعروف ہپو کریٹ سیٹ اپ لانے کی خواہش مند قوتوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔مسلم لیگ ق ، طاہر القادری اور عوام کو اگلے پانچ سال بھی انھی لیڈروں کو بھگتنا پڑے گا۔ میں اور آپ جلتے کڑھتے رہیں گے اور حکمران موجیں کرتے رہیں گے۔

عوام پر اگلے پانچ برس حکمرانی کرنے کے لیے پاپولر سیاسی جماعتیں اپنی اپنی صفیںسیدھی کر رہی ہیں۔انتخابی مہم میں کونسا سیاسی ایشو حکمرانی کرے گا' اس کا بھی فیصلہ ہوچکا ہے' یہ نئے صوبوں کی تشکیل کا ایشوہے۔ پیپلز پارٹی اپنی تاریخ میں پہلی بار پنجاب کو تقسیم کرنے کے نعرے کے ساتھ انتخابی میدان میں اترچکی ہے۔ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ یہ نعرہ اسے فائدہ پہنچاتا ہے یا تباہی سے دوچار کرتا ہے لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت خصوصاً بہاولپور اور جنوبی پنجاب کی روایتی اشرافیہ پر امید ہے کہ اس نعرے کی بنیاد پر وہ اگلا الیکشن جیت جائے گی۔ دو تین روز قبل ایک انٹرویو کے لیے گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ اس انٹرویو کے شرکاء میںانچارج میگزین لاہور غلام محی الدین' رانا نسیم 'چیف رپورٹر خالد قیوم اور راقم شامل تھے' دوسرے سیاسی ایشوز کے علاوہ جنوبی پنجاب یا سرائیکی وسیب کے احساس محرومی اور غریب عوام کو درپیش انتظامی مشکلات پر بھی سوال جواب ہوئے۔ میرا سوال یہ تھا کہ ملتان اوربہاولپور میںہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے بینچ موجود ہیں'ملتان اور بہاولپور میں اچھے اسپتال ہیں۔

پٹواری ، تحصیل دار' ڈپٹی کمشنر اور کمشنر بھی وہاں موجودہیں' آخر وہ کون سے انتظامی مسائل ہیں جن کے باعث وہاں کے عام آدمی یا طالب علم کو روزانہ ، ہر ہفتے یا ہر پندھرواڑے لاہور آنا پڑتا ہے۔ اس پر سید احمد محمود نے جو کچھ بتایا' وہ خاصا منطقی اور وزنی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ریونیو بورڈ پنجاب کے سارے معاملات لاہور میں طے ہوتے ہیں۔کسی کا ریونیو بورڈ میں کوئی مسئلہ ہے تو اسے رحیم یار خان ، صادق آباد' راجن پور' ڈیرہ غازی خان یا ملتان بہاولپور سے لاہور آنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹروں'اساتذہ اور دیگر صوبائی محکموں کے اسٹاف کے تقرر اور تبادلوں کے لیے بھی لاہور سیکریٹریٹ سے ہی رجوع کرنا پڑتا ہے۔ انھوں نے ایک واقعہ بھی بیان کیاکہ رحیم یار خان کے کسی کالج یا اسکول میں دو بسوں کی منظوری کے لیے لاہور سے منظوری لینا تھی۔ بسیں موجود تھیں' وہ وہیں گل سڑ گئیں لیکن منظوری نہیں دی گئی۔ اس کے بعد گورنر انتہائی مایوسی کے عالم میںگویا ہوئے ،''ہمارے دکھ بہت ہیں' اگر کوئی سننے والا ہو تو اسے سنائیں''۔

سچی بات یہ ہے کہ میں پنجاب میں نئے صوبے یا صوبوں کی تشکیل کے حق میں نہیں ہوں' یہ میرا ذاتی خیال ہے۔ میں لسانیات کا ماہر نہیں ہوںلیکن میں سمجھتا ہوں کہ سرائیکی،پوٹھوہاری یاپنجابی ایک ہی زبان کے لہجے ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیںہے۔یہاں تک کہ ہندکو بھی پنجابی ہی ہے۔اگر کوئی فرق تھا بھی تو وہ اب مٹ چکا ہے۔جب لاہورکا رہنے والاسرائیکی ،پوٹھوہاری یا ہندکو بخوبی سمجھتا ہے،اسی طرح راولپنڈی، اٹک،ایبٹ آباد، پشاور، ملتان،بہاولپوراور رحیم یار خان کا رہنے والا ماجھے کی پنجابی زبان سمجھتا ہے تو پھر کس بات کا فرق رہ جاتا ہے۔باقی رہ گئی بال کی کھال اتارنا تو یہ الگ بات ہے۔ میرا خیال ہے کہ آج کے اس جدید دور میں رحیم یار خان' ڈیرہ غازی خان ، راجن پور' ملتان یا بہاولپور سے لاہور آنا یا یہاں سے جنوبی پنجاب کے شہروں میں جانا کوئی مشکل کام نہیں ہے' آج یہ فاصلہ پانچ چھ گھنٹے کے سفر میں طے ہوجاتا ہے۔ اگر جدید ایکسپریس ویز اور موٹر ویز تعمیر ہوں تو لاہور سے جنوبی پنجاب کے شہروں کا فاصلہ دو سے تین گھنٹوں میں طے ہو سکتا ہے۔

بدقسمتی سے ریلوے کو تباہ کر دیا گیا ہے' اگر اسے جدید بنایا جاتا، کم از کم بلٹ ٹرین ہی چلا دی جاتی تو یہ فاصلے مزید کم کیے جا سکتے تھے۔ جہاں تک سرکاری ملازموں کے تقرر و تبادلوں کا تعلق ہے تو اس مقصد کے لیے بھی ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں سب سیکریٹریٹ قائم کیے جا سکتے ہیں جو وہیں احکامات صادر کر کے اس مسئلے کو حل کردیں۔ بلدیاتی انتخابات کراکے یا ضلعی حکومتوں کے نظام کو بحال کرکے بھی بعض مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو محکمہ صحت اور اسپتالوں کے پاس اپنے ہیلی کاپٹر موجود ہوتے ہیں' مقامی حکومتوں کے پاس بھی ہیلی کاپٹر موجود ہوتے ہیں۔ ایسی ہی سہولت اگر پاکستان میں موجود ہوتو جنوبی پنجاب کے کسی اسپتال میں زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا مریض کو بہاولپور یا ملتان سے ایک ڈیڑھ گھنٹے سے بھی کم وقت میں لاہور، اسلام آباد یا کراچی پہنچایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ کرے کون؟ہمارے حکمرانوں نے کبھی اپنے ملک کو اپنا سمجھا ہی نہیں ہے۔

گورنر پنجاب سید احمد محمود کی باتیں سن کر میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں، وہ یہ ہے کہ جنوبی پنجاب یا بہاولپور کی روایتی اشرافیہ وسطی اور شمالی پنجاب سے ابھرنے والی غیر روایتی صنعتی، کاروباری اور زرعی اشرافیہ کے ساتھ ہم آہنگی پیدا نہیں کر سکی۔ ادھر جنوبی پنجاب کی روایتی اشرافیہ اپنے علاقے سے ابھرنے والی نئی سیاسی اشرافیہ سے بھی خائف ہے۔ وہ انھیں ذہنی طور پر اپنے برابر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے' یہی طرز عمل وسطی اور شمالی پنجاب کی اشرافیہ کا بھی ہے۔ جنوبی پنجاب میں بھی جو غیر روایتی اشرافیہ پیدا ہوئی ہے ، وہ بھی جاگیرداروں، سرداروں اور گدی نشینوں کی حاکمیت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے' جنوبی پنجاب کی روایتی اشرافیہ کو یقین ہوگیا ہے کہ اب وہ الیکشن کے ذریعے پورے پنجاب پر بلاشرکت غیرے حکمرانی نہیں کرسکتی ہے۔

موجودہ گورنر پنجاب کے والد محترم مخدوم سید حسن محمود کی میاں نواز شریف سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شکست سے اس سوچ کا آغاز ہوا ، اس کے بعد مخدوم الطاف کو جس طرح پنجاب کا وزیراعلیٰ بننے سے روکا گیا، اس نے اس سوچ کو مزید گہرا کیا ہے۔ یہی وہ احساس محرومی ہے' جیسے جنوبی پنجاب کے عوام کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ سارا مسئلہ وسطی اور شمالی پنجاب سے آنے والے حکمرانوں کے طرز حکمرانی سے جنم لے رہا ہے۔جنوبی پنجاب کی اشرافیہ جس عزت ووقار کی مستحق ہے، اسے وہ ملنی چاہیے۔مخدوم سید احمد محمود اگر گورنر پنجاب نہ بھی ہوں تو ان کا ایک خاندانی وقار برقرار رہے گا ،اگر وہ مسلم لیگ ن میں نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں 'گورنر 'ایم این اے یا علاقے کی ایک اثر اور محترم شخصیت ہونے کے ناتے ، ان کی سفارشات پر توجہ دی جانی چاہیے، اگر لاہور کے تخت پر بیٹھے حکمران اپنے طرز حکمرانی میں لچک پیدا کر لیں تو پنجاب کوتقسیم کرنے کے نعرے اپنی موت آپ مرجائیں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں