خطرناک خوش فہمی

بھارت کبھی بھی چین کا کسی شعبے میں مقابلہ نہیں کرسکتا۔


عثمان دموہی July 09, 2017
[email protected]

جب آزاد کشمیر کے ایک چھوٹے سے خطے پر سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے لیے بھارت کو پندرہ مہینے تیاری کرنا پڑی تو پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے اسے کم سے کم پچیس سال تیاری کرنا پڑے گی اور پھر چین پر حملہ کرنے کے لیے تو یقینا پچاس سال تیاری کے لیے درکار ہوںگے۔

سابق بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکھ نے بڑے فخریہ انداز میں صحافیوں کو بتایاہے کہ بھارتی فوج نے آزاد کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک کے لیے پندرہ مہینے تک تیاری کی تھی۔ انھوں نے یہ بھی بتایاکہ انھیں پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا خیال کس طرح آیا؟ وہ ایک ٹی وی پروگرام دیکھ رہے تھے جس میں برما کی سرحد کے اندر بھارتی سرجیکل اسٹرائیک پر گفتگوکی جارہی تھی ، جب ایک اینکر نے ایک سابق فوجی افسر سے سوال کیا کہ کیا آپ مغربی سرحد پر بھی ایسی ہی کارروائی کرنے کی جرأت کرسکتے ہیں۔

مسٹر منوہر پاریکھ کے مطابق انھوں نے اینکرکا وہ سوال بہت غور سے سنا اور اسی وقت پاکستان پر تو نہیں البتہ آزاد کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ مضحکہ خیز بیان دے کر حقیقت میں انھوں نے اپنی فوج کی نا اہلی کی پول کھول کر خود اپنی فوج کو مذاق بنادیا ہے۔ جب کہ پاکستانی ذرایع کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ یہ نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک تھی۔ آزاد کشمیر کے کسی علاقے میں ایسا کوئی واقعہ رونما ہی نہیں ہوا، اس لیے کہ بھارت جانتا ہے کہ پاکستان برما نہیں ہے۔

ادھر بھارتی آرمی چیف بین راوت نے بھی ایک مضحکہ خیز بیان دے کر بھارت کی جگ ہنسائی کا سامان پیدا کردیا ہے۔ انھوں نے کہاہے کہ پاکستان کیا ہم چین سمیت ڈھائی محاذوں پر بیک وقت لڑسکتے ہیں۔ یعنی چین اور پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت کے اندر موجود دہشت گردوں سے بھی نمٹ سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے سابق وزیر دفاع کو تو آزاد کشمیر کے ایک چھوٹے سے خطے میں نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کے لیے پندرہ مہینے فوج کو تیاری کرانا پڑی تھی تو آرمی چیف صاحب کیا بغیر تیاری کے ہی چین اور پاکستان پر حملہ کردیںگے؟

جب سے چین نے بھارت کو یاد دلایا ہے کہ وہ اس سے الجھنے سے پہلے 1962 میں اس کے دیے گئے سبق کو نہ بھولے تب سے بھارت میں سخت کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ در اصل حال ہی میں چین سے پنگا خود بھارت نے لیا ہے۔ چین بھوٹان کی سرحد کے قریب اپنے علاقے میں معمول کے مطابق ایک سڑک تعمیرکررہا ہے۔ بھارتی فوجیوں نے ہنگامہ کرکے فی الحال سڑک کی تعمیر کو رکوادیا ہے۔ حالانکہ اس سڑک کی تعمیر سے بھارت کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچنے کا کوئی احتمال نہیں ہے مگر وہ پوری دنیا میں واویلا کر رہا ہے کہ مجوزہ سڑک کی تعمیر سے اس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

بھارتی فوجیوں کے چینی سرحد میں در اندازی کی کوشش کے بعد چین نے اپنی سرحد کو بند کردیا ہے اور بھارت سے تبت جانے والے یاتریوں کو اپنی سرحد میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ موجودہ بھارتی وزیردفاع مسٹر جیٹلی نے چین کو دھمکی دی ہے کہ بھارت 1962 والا ملک نہیں ہے۔ اب 2017 میں بھارت کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مسٹر جیٹلی کی اس دھمکی نے بھارت کے دانشوروں، تجزیہ کاروں اور سفارت کاروں کو حیران اور پریشان کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کبھی بھی چین کا کسی شعبے میں مقابلہ نہیں کرسکتا۔ وہ نہ کبھی چین جیسی معاشی طاقت اور نہ ہی فوجی طاقت بن سکتا ہے۔

تیز رفتار ترقی کرتے چین کا مقابلہ کرنا تو مغربی ممالک کے لیے بھی ایک ٹیڑھی کھیر بن گیا ہے۔ چین کی معیشت اور فوجی طاقت خود امریکا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ بھارت معاشی طور پر ضرور پاکستان سے آگے ہے مگر میزائل اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں پیچھے ہے۔ بھارت کے ایک ممتاز دفاعی تجزیہ کار راہول دیوی جو بھارت کی فوجی طاقت کے بہت معترف ہیں بھارتی وزیر دفاع مسٹر جیٹلی کے چین کو دیے گئے دھمکی آمیز بیان سے سخت برہم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیٹلی کا بیان جارحانہ اور حقیقت کے برعکس ہے۔ چین کے ساتھ کسی قسم کا تصادم مول لینا بھارت کے لیے بہت مہنگا پڑسکتا ہے۔

مانا کہ بھارت نے 1962 کے بعد روس اور مغربی ممالک سے بہت سا جدید اسلحہ خریدا ہے مگر پھر بھی بھارت چین کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ در اصل بھارتی قائدین کے دماغوں کو خراب کرنے والا امریکا ہے جس نے ان میں چین کا مقابلہ کرنے کا مصنوعی جذبہ بیدار کردیا ہے تاہم چین کو ہلکا سمجھنا بھارت کو اپنی تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔

بھارت کے کچھ خوش فہم تجزیہ کار ضرور اپنے تبصروں سے بھارتی حکمرانوں کی ہمت بڑھانے کے لیے چین کو ایک بڑی فوجی طاقت ماننے سے انکاری ہیں۔ ان کا کہناہے کہ 1962 میں بھی بھارت ایک بڑی فوجی طاقت تھا اور بھارتی فوجیوں نے چین کے حملے کا منہ توڑ جواب دیا تھا۔ تاہم یہ اور بات ہے کہ وہ اچانک ہمارے ملک میں بہت اندر تک گھس آئے تھے۔ ہمارے کئی بڑے مشرقی شہروں پر انھوں نے قبضہ کرلیا تھا اور اچانک حملے کی وجہ سے ہمارے فوجی کئی محاذوں سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے مگر یہ سب کچھ اس لیے بھی ہوا تھا کہ ہماری سیاسی قیادت نے ہمارے فوجیوں کو تحمل سے کام لینے کا اشارہ کردیا تھا۔

دراصل ہمارے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو چینی حملے کی شکایت لے کر اقوام متحدہ جانے والے تھے جہاں وہ چینی جارحیت کو رکواکر تمام بھارتی بعض علاقے خالی کرانا چاہتے تھے وہ دراصل ایسا اس سے قبل کشمیر میں پاکستانی حملے کے وقت بھی کرچکے تھے اور ان کے وہاں جانے کا بھارت کو بہت فائدہ ہوا تھا کہ جنگ بھی رک گئی تھی کشمیر کے ایک بڑے علاقے پر ہم قابض بھی ہوگئے تھے اور پاکستانی فوجوں کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔

چنانچہ وہ چینی جارحیت کا کیس لے کر اقوام متحدہ گئے مگر چین کے خلاف کچھ نہ کرسکے اس لیے کہ اس وقت چین اقوام متحدہ کا ممبر ہی نہیں تھا اس طرح چین اس وقت ہم پر بھاری پڑگیا تھا مگر اب حالات بہت مختلف ہیں۔ یہ آر ایس ایس کے ترجمان زی ٹی وی چینل پر ایک خوش فہم بھارتی تجزیہ کار کا تبصرہ تھا۔

سابق بھارتی سفارت کاروں نے بھی بھارتی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے اگر چین کے ساتھ جنگ چھڑ گئی تو بھارت کی موجودہ ترقی خاک میں مل جائے گی اور پھر اسے چین کے مقبوضہ علاقوں سے ہی نہیں جموں کشمیر سے بھی اپنا بوریہ بستر لپیٹنا پڑے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں