شریف الدین پیرزادہ کی رحلت ایک سانحہ
شریف الدین پیرزادہ نے اہم اور حساس عہدوں پر کام کیا۔
PESHAWAR/
MARDAN:
سید شریف الدین پیرزادہ ایڈووکیٹ کی تاریخ پیدائش 12 جون 1933 اور جنم بھومی برہان پور بھارت ہے۔ ان کا انتقال 2 جون بروز جمعہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ہوا۔ اللہ انھیں غریقِ رحمت فرمائے، آمین۔
شریف الدین پیرزادہ کا شمار ان گنی چنی شخصیات میں ہوتا ہے جو اپنی عمر ملک و قوم کی محبت اور دین اسلام کے لیے وقف کردیتی ہیں اور ان کی اعلیٰ صفات کے باعث زندگی کا ہر لمحہ جاویداں ہوجاتا ہے۔ وہ ان چند خوش نصیب لوگوں میں سے ایک تھے جنھیں قسمت کی دیوی قدم قدم پر خوش آمدید کہتی ہے، یہ ان کی خوش نصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ انھیں قائداعظم جیسے عظیم رہنما بانی پاکستان کی صحبت نصیب ہوئی۔
پیرزادہ کی تعلیم و تربیت میں قائداعظم کا نمایاں کردار رہا ہے۔ انھوں نے میٹرک رابرٹسن ہائی اسکول سے پاس کیا اور سینٹ ریویرز کالج سے گریجویشن کیا، انھوں نے اسی تاریخی ادارے لنکنرز ان سے بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کی، جہاں سے قائداعظم نے تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ اپنی صلاحیتوں کے سبب قائداعظم کے اعزازی سیکریٹری رہے، انھوں نے قائداعظم کے مشفقانہ رویے کا بارہا اظہار کیا، ممتاز صحافی جلیس سلاسل کے ایک سوال کے جواب میں جو انھوں نے انٹرویو کے درمیان کہا تھا کہ قائداعظم سے پہلی بار شرفِ ملاقات کیسے حاصل ہوا؟
انھوں نے اس سوال کا جواب دیا کہ دوران تعلیم ریویرز کالج کے پرنسپل نے مجھے حکم دیا تھا کہ قائداعظم کے خطابات کے حوالے سے ایک ایسی کتاب لکھو، جس کے ذریعے پاکستان کا نقشہ واضح ہوسکے۔ لہٰذا میں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایک مختصر کتاب Pakistan at the Glance لکھی اور قائداعظم کی خدمت میں بھجوادی، قائداعظم نے کتاب کے مطالعے کے بعد آئی آئی چندریگر بعدازاں وزیراعظم پاکستان کو کہا کہ اس نوجوان کو میرے پاس لاؤ، میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔
پھر قائداعظم کی ہدایت کے مطابق آئی آئی چندریگر کے توسط سے میری قائداعظم سے ملاقات ہوئی۔ دوران ملاقات قائداعظم نے کہا کہ کیا تم میرے سیکریٹری کی حیثیت سے کام کروگے؟ میں نے کہا کہ میں ملازمت نہیں کرسکتا۔ قائداعظم نے کہا کہ کیا تم امیر باپ کے بیٹے ہو؟ میرا جواب نفی میں تھا، میں نے اپنے جواب کی وضاحت کی کہ میں ابھی تعلیم حاصل کر رہا ہوں، 2 بجے دوپہر کے بعد ہی مجھے وقت مل سکتا ہے۔ قائداعظم نے کہا ٹھیک ہے اور اس طرح میں قائداعظم کے سیکریٹری کی حیثیت سے جملہ امور انجام دینے لگا۔
انھی دنوں انڈین کانگریس کے طلبا نے Jinnah Sahab Please کے عنوان سے ایک پمفلٹ شایع کیا اور وہ کتابچہ 500 میں فروخت ہوا، قائداعظم نے پیرزادہ کو اس کا جواب لکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ انھوں نے Unpardon Trim of Jinnah لکھی اور جب قائداعظم نے اس کا مطالعہ کیا تو خوب ہنسے اور کہا یہ ٹھیک ہے۔ اس طرح شریف الدین پیرزادہ کا لکھا ہوا جواب دو ہزار میں فروخت ہوا، جوکہ بہت بڑی بات اور بڑی کامیابی کی ضمانت تھی۔
جب پیرزادہ نے گریجویشن کی تعلیم مکمل کرلی تو قائداعظم نے پوچھا اب تعلیمی لحاظ سے تمہارا کیا پروگرام ہے؟ پیرزادہ نے جواباً کہا کہ میرے والد کی خواہش ہے کہ میں ڈاکٹر بنوں لیکن کچھ لوگ رکاوٹ ڈال رہے ہیں، قائداعظم نے پیرزادہ کی بات سن کر کہا کہ تم لا کالج میں داخلہ لے لو تاکہ وکیل بن سکو۔ پیرزادہ نے داخلہ تو لے لیا لیکن کتابیں خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ جب قائداعظم کو معلوم ہوا تو انھوں نے اپنی لائبریری سے استفادہ کرنے کا کہا۔
قائداعظم کی کرمفرمائی کی بدولت انھوں نے فرسٹ کلاس، فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ بقول شریف الدین پیرزادہ میں وکیل قائداعظم کی خواہش پر نہیں بلکہ حکم کے مطابق بنا ہوں۔ اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ پیرزادہ کا شمار ان وکلا میں ہوتا ہے، جنھیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ ان کی بے پناہ شہرت اور عزت نے ان کے بہت سے حاسدین اور دشمنوں کو جنم دیا۔
شریف الدین پیرزادہ نے اہم اور حساس عہدوں پر کام کیا۔ 1941 سے 44 تک وہ قائداعظم کے اعزازی سیکریٹری کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 1946 کے عام انتخابات میں بمبئی مسلم لیگ کی نشریاتی مہم کے نگران رہے۔ 1965 اور 1966 میں حکومت کے اٹارنی کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1966 سے 1967 کے عرصے میں پیرزادہ پاکستان کے وزیر خارجہ رہے۔
جنوری 1978 سے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق کے مشیر اور وفاقی وزیر رہے، اس کے علاوہ متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں، اجلاسوں اور کمیٹیوں میں پاکستان کی نمایندگی کے لیے حکومت وقت کا انتخاب شریف الدین ہی رہے۔ پیرزادہ نے بے شمار مقالات لکھے، انھوں نے پاکستان اور قائداعظم کے حوالے سے اپنے علم، تجربات کی بنا پر 9 کتابیں تخلیق کیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں۔
(1)۔ Pakistan at a Glance(2)۔ Jinnah Pakistan Bombay 1943......Bomby 1941(3)۔ Foundation of Pakistan 1971
پیرزادہ کے لیے یہ بات بھی بڑی مشہور ہے کہ وہ جب اسلام آباد کے ایئرپورٹ پر اترتے تو دوسرے روز کے اخبارات میں یہ خبر جلی حروف میں شایع ہوتی کہ موجودہ حکومت کے خاتمے کے دن آگئے ہیں۔ انھیں نازک مواقعوں پر آئینی مشاورت کے لیے بلایا جاتا۔ انھوں نے ہمیشہ نظریہ پاکستان کا تحفظ کرتے ہوئے اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کیا۔ بے شک پاکستان اور اسلام کے لیے انھوں نے جو خدمات انجام دیں وہ سنہرے لفظوں میں لکھے جانے کے قابل ہے، لیکن کیا کیا جائے کہ ہر دور میں بڑے کام کرنیوالوں کے حاسدین اور منافقین اپنا کردار ضرور انجام دیتے ہیں۔
پیرزادہ ایڈووکیٹ سے شرف ملاقات کے متمنی خواجہ رضی حیدر جو قائداعظم اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں، انھوں نے جلیس سلاسل سے کہا کہ میں شریف الدین پیرزادہ سے ملنا چاہتا ہوں، لیکن تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا۔ چنانچہ وقت مقررہ پر ملاقات ہوتی ہے، ابھی سلاسل صاحب نے نام ہی بتایا تھا کہ پیرزادہ نے فرمایا اگر کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ قائداعظم اور تحریک پاکستان کے بارے میں کس مصنف کی تحریریں پڑھیں، تو میں انھیں مشورہ دیتا ہوں کہ خواجہ رضی حیدر کی کتابیں پڑھیں۔
''آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل'' والا محاورہ ہمارے دوست احباب اور ہم نشینوں پر صادق آتا ہے۔ لوگ اپنے مربی و محسن کو بہت جلد فراموش کردیتے ہیں۔ ایسے ہی واقعات قائداعظم رائٹرز گلڈ کے صدر جلیس سلاسل اور جنرل سیکریٹری (راقم) کے ساتھ بھی پیش آئے۔ ہماری تنظیم قائداعظم رائٹرز گلڈ نے شریف الدین پیرزادہ کی رحلت کے حوالے سے ایک تعزیتی پروگرام ترتیب دیا تھا۔ تقریب کے لیے ہال بک ہوچکا تھا اور Invitation Cards کو آخری مرحلے میں پہنچانا باقی تھا۔ لیکن اس دوران ایسی صورتحال پیش آئی کہ جس کے تحت یہ کہنا پڑا کہ ''جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے''۔
یہ وہی اعلیٰ حضرات تھے جن پر پیرزادہ کی خصوصی عنایتیں تھیں۔ کیا کیا جائے زمانے کا یہی چلن ہے۔ ان کے ساتھیوں، دوستوں اور اعلیٰ شخصیات نے اپنے رویوں سے یہ ثابت کردیا کہ وہ کسی قیمت پر اپنے محسن اور دوست کے تعزیتی ریفرنس میں شرکت کرنا دانشمندی نہیں سمجھتے ہیں کہ یہ حالات کا تقاضا ہے۔ قائداعظم رائٹرز گلڈ کے لیے یہ بات بھی باعث طمانیت ہے کہ شریف الدین پیرزادہ اس کے باقاعدہ رکن تھے۔ پیرزادہ نے جلیس سلاسل کی کتاب ''ٹیبل ٹاکس'' کی تقریب رونمائی کے موقع پر فرمایا تھا کہ جلیس سلاسل نے انٹرویوز میں ایک نیا انداز اختیار کیا ہے، وہ انٹرویو کرتے ہوئے ماضی کا پوسٹ مارٹم اور مستقبل کی نشاندہی کرتے جاتے ہیں۔
''ٹیبل ٹاکس'' کے مطالعے سے مجھے یہ بھی پتا چلا کہ جلیس سلاسل صرف دفاع کے میدان میں ہی نہیں سیاست، صحافت اور تعلیم کے شعبوں میں بھی دسترس رکھتے ہیں۔ جلیس سلاسل کا فرض ہے کہ وہ شریف الدین پیرزادہ سے اپنی 36 سالہ رفاقت کا حق اس طرح ادا کریں کہ نئی نسل کو ان کی حب الوطنی اور دین اسلام سے محبت کے حوالے سے آگاہی دیں۔