امریکا کی پاکستان سے دوری
امریکا کی محبت میں ہم نے ہر وہ کام کیا جسے اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں کلہاڑا مارنا کہا جاتا ہے۔
www.facebook.com/shah Naqvi
امریکی سینیٹرز نے کہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں۔ پاکستان پر واضع کر دیا کہ اپنا رویہ بدلے۔ دہشت گردی بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے خاتمے میں پاکستان کے اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی سینیٹ کی طاقتور آرمڈ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان مکین کی سربراہی میں سینٹرز کے پانچ رکنی وفد نے پہلے اسلام آباد اور پھرکابل کا دورہ کیا۔
جان مکین نے کہا کہ امریکا دہشت گردی بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے خاتمے میں پاکستان کے اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ہم نے پاکستان پر واضع کر دیا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں وہ دہشت گرد تنظیموں اور بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے خلاف امریکا کا ساتھ دے گا۔ اگر پاکستان نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو شاید بحیثیت قوم ہم پاکستان کی جانب اپنا رویہ تبدیل کر لیں۔
ادھر افغان صدر اشرف غنی نے سینیٹر جان مکین سے ملاقات میں کہا کہ افغانستان امریکا کی نگرانی میں پاکستان کے ساتھ مشترکہ سرحدی کارروائیوں کی تجویز سے متفق ہے۔ اشرف غنی کا کہنا تھا کہ افغانستان نے تجارتی اور ٹرانزٹ لنکس کو مختلف النوع بنا دیا ہے۔ اس لیے اب ہمارا پاکستان پر مزید انحصار نہیں رہا۔کہا جا رہا تھا کہ امریکا کی افغانستان پاکستان کے حوالے سے نئی پالیسی آئے گی جو خاصی سخت ہو گی۔
جان مکین نے کابل پہنچ کر جو بیان دیا ہے وہ نئی امریکی پالیسی کا ابتدائیہ ہے۔ جس میں وقت کے ساتھ مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔کسی امریکی اعلیٰ عہدیدار نے اس سے پہلے شاید اتنا سخت بیان نہیں دیا۔ یاد رہے کہ جان مکین سابق صدارتی امیدوار، ری پبلیکن پارٹی کے انتہائی سینئر رہنما ہیں اور اس وقت سینیٹ میں امریکی مسلح افواج کی کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ اس لیے ان کے بیان کو ہلکا نہیں لینا چاہیے بلکہ اس کی گہرائی میں جا کر اس کے مضمرات پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
جان مکین وہ صاحب ہیں جنھیں امریکا میں پاکستان کا حامی کہا جاتا ہے۔ اب وہ بھی پاکستان کو دھمکی دے رہے ہیں۔ پاکستان کی پوری تاریخ شاہد ہے کہ ہم اس خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار رہے یہاں تک کہ امریکا کو دنیا کی واحد سپر طاقت بنانے کے لیے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے سے بھی گریز نہیں کیاجس کے تباہ کن اثرات سے پاکستانی قوم مسلسل گزر رہی ہے اور نہ جانے کب تک گزرتی رہے گی۔
امریکا کی محبت میں ہم نے ہر وہ کام کیا جسے اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں کلہاڑا مارنا کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکی نظروں میں ہم مشکوک ہیں۔ ہم پر شک کیا جاتا ہے اعتماد نہیں کیا جاتا۔ ڈومور کا تقاضا ختم ہونے میں نہیں آتا۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں کی بدولت بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔ امریکا کا جب جی چاہتا ہے ہمیں استعمال کر کے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتا ہے۔
ان قربانیوں کے باوجود اب بھارت امریکا کا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ اسے برصغیر سے مشرق وسطیٰ تک کے خطے میں ایک بڑا کردار مل چکا ہے جو وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر ادا کرے گا۔ بھارتی وزیراعظم کے حالیہ دورہ اسرائیل میں اسرائیلی وزیراعظم نے بھارت اسرائیل تعلقات کو آسمانوں پر طے کی گئی شادی سے تعبیر کیا۔ یہاں تک کہاکہ اسرائیل اور بھارت کے دہشت گرد اور دہشت گردی کے حوالے سے دشمن مشترکہ ہیں۔
اب لے دے کر ہمارے پاس چین ہی رہ گیا ہے جس پر ہمارا سارا انحصار ہے۔ باقی تین ہمسائیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات صحیح نہیں ۔ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتے جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے، وہ اپنے ملک میں ہونے والی ہر دہشت گردی کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔ اس طرح پاکستان میں جو دہشت گردی ہوتی ہے اس کا سرا مولوی فضل اللہ اور دوسرے دہشت گرد گروہوں سے ملتا ہے جو افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں۔ رہ گیا ایران ، ریاض کانفرنس کے بعد وہ بھی ہم سے مزید دورہو گیا ہے۔
ریاض کانفرنس میں جس طرح وزیراعظم نواز شریف کو نظر انداز کیا گیا اس کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ اسی طرح افغانستان میں امریکا کا ساتھ دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل ضیا الحق کو بھی پچھتاتے ہوئے کہنا پڑا کہ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا ہوا۔ بھارت نے امریکا کے تمام تر دباؤ کے باوجود افغانستان میں اس کا ساتھ نہیں دیا۔ اس کے باوجود وہ امریکا کا چہیتا اور لاڈلا ہے۔
امریکا کے قریب جانے کے باوجود اس کے روس سے بہترین تعلقات ہیں، افغانستان سے بھی اور ایران سے بھی۔ 30لاکھ افغانوں کی میزبانی جو ہم نے پاکستانی قوم اور پاکستان کے مفاد پر کی' آج افغانستان ہمیں اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔ اور اس میزبانی کا نتیجہ منشیات کلاشنکوف فرقہ واریت اور دہشت گردی کی شکل میں نکلا جس میں لاکھوں پاکستانی تباہ برباد ہو گئے۔ ایک اچھی اور کامیاب خارجہ پالیسی کا حسن اس کا توازن ہے۔ عالمی حالات کے دباؤ میں خارجہ پالیسی میں توازن برقرار رکھنا بہت بڑی آزمائش ہے۔
بھارت نے بڑی کامیابی سے اس توازن کو برقرار رکھا۔ آج وہ امریکا اور روس سے اپنے مفادات کی بھرپور فصل کاٹ رہا ہے۔ جب کہ ہم امریکا سے تعلقات کے ضمن میں عدم توازن کی ہر حد سے گزر گئے۔ پاکستان اور پاکستانی قوم کی اتنی تباہی و بربادی کے باوجود ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ریاض کانفرنس کے حوالے سے پاکستانی خارجہ پالیسی پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے عدم توازن کا شکار ہونے جا رہی ہے جو مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک کے خطے کا ناک نقشہ تبدیل کر سکتا ہے۔ ہم تو اپنے اوپر رحم کرنے کو تیار نہیں۔ بس اب تو دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان اور پاکستانی قوم کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
جے آئی ٹی رپورٹ جس دن یہ کالم چھپے گا اس دن سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہو گی۔ اس حوالے سے جولائی کا آخر اگست کا شروع اور اگست کا تیسرا ہفتہ فیصلہ کن اہمیت رکھتے ہیں۔ اس وقت چاند سورج گرہن بھی رونما ہوں گے۔ اس وقت پاکستانی سیاست کا پھر ایک نیا جنم ہو گا۔
سیل فون:0346-4527997