شکاگو کی فضاؤں سے
شہری انتظام میں تین عہدے کلیدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔
ISLAMABAD:
داناؤں کا کہنا ہے کہ اگر موقع ملے تو یورپ امریکا کا دورہ جوانی میں کیا جائے، جب کہ بڑھاپا سعودی عرب یا اپنے وطن میں گزاریں۔ مگر یہ مواقعے کہاں ہم جیسوں کو ملتے ہیں۔ ہماری جوانی تو جنرل ضیا کی فسطائیت کی نذر ہوگئی۔ جب عمر ڈھلنے کو آئی، تو کہیں جاکر بیرون ملک جانے کے مواقع ملنا شروع ہوئے۔ اب اس عمر میں امریکا آئے ہیں، جب سینئر سٹیزن ہوچکے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ بیگم ساتھ ہیں اور قیام بیٹی کے گھر ہے۔ گویا کریلا اور نیم چڑھا۔
بہرحال دبئی کے راستے امریکا کے اہم شہر شکاگو پہنچ چکے ہیں۔ شکاگو آبادی کے لحاظ سے امریکا کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی ایک کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ یہ ایک اہم عالمی تجارتی مرکز ہے، جو اپنی کاروباری سرگرمیوں کے سبب عالمی سرمایہ کاروں کے لیے کشش کا باعث ہے۔
مشی گن جھیل کے اطراف میں آباد اس شہر کی بنیاد اٹھارویں صدی میں پڑی جب کہ شہری درجہ 1837 میں اس وقت ملا جب تیز رفتار صنعتکاری کے سبب اس کی آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہونے لگا۔ اس شہر میں دنیا بھر سے آئے مختلف رنگ ونسل اور عقائد کے لوگ آباد ہیں۔
ایشیائی باشندے جن میں جنوب ایشیا کے شہری، خاص طور پر پاکستانی بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ کچھ محلے اور ایک بازار پاکستانیوں کا ہے۔ ایک سڑک جسے بانی پاکستان محمد علی جناح کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، اس پر پاکستانیوں کی دکانیں اور ریستوران وغیرہ ہیں۔ اس سڑک پر اپنے کراچی کی زیب النسا اسٹریٹ کا گمان ہوتا ہے۔
اس شہر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ محنت کشوں نے اپنے حقوق کے لیے سب سے پہلے یہیں سے منظم تحریک شروع کی تھی۔ 4 مئی 1886 کو ہے مارکیٹ (Hay Market) نامی چوک پر جمع محنت کشوں پر، جو 8 گھنٹے کام کا مطالبہ کررہے تھے، پولیس نے گولی چلادی۔ جس کے نتیجے میں درجن بھر افراد جاں بحق اور ڈیڑھ سو کے قریب زخمی ہوئے۔ جب کہ سو سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا۔
شہید اور زخمی محنت کشوں کے خون سے تر قمیضوں کو محنت کشوں نے اپنا پرچم بنالیا۔ اس دن سے سرخ رنگ محنت کشوں کی جدوجہد کی علامت بن گیا ہے۔ آج 131 برس بعد Hay Market کا نام ونشان تک مٹ چکا ہے۔ شہر کے باسیوں کو محنت کشوں کی اس جدوجہد کے بارے میں بھی کوئی علم نہیں ہے۔ بلکہ اس سانحہ کے بارے میں سوال کرنے پر اکثریت منہ تکنے لگتی ہے۔
آج ILO کے محنت کشوں کے حقوق کے حوالے سے جتنے بھی کنونشنز ہیں، ان کی بنیاد شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ دنیا کے ان ممالک میں سے بیشتر میں ان کنونشنز پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے، جنھوں نے ان کنونشنز پر دستخط کیے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ برٹش انڈیا میں 1926 میں قائداعظم کی مساعی سے صنعتی تعلقات کا جو قانون منظور ہوا تھا، اس کی رو سے فوج کے سوا تمام سرکاری اداروں میں ملازمین کے تنظیم سازی کے حق کو تسلیم کیا گیا تھا۔ مگر قائداعظم کے اپنے قائم کردہ ملک کے ایک فوجی آمر جنرل ضیا نے اس قانون کو منسوخ کردیا۔ آج ایوب خان کی اسی ترمیم کے نتیجے میں بیشتر ریاستی محکموں کو لازمی سروس قرار دیتے ہوئے، ان کے ملازمین کو تنظیم سازی کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔
ایک بار پھر شکاگو کی طرف آتے ہیں۔ یہ ریاست Illinois کا مرکزی شہر ہے۔ شہر کا انتظام میئر کی سربراہی میں ایک 50 رکنی کونسل چلاتی ہے۔ جو اپنے شہر کے لیے بلدیاتی سطح کی قانون سازی بھی کرتی ہے۔ پولیس، تعلیم، صحت عامہ اور سماجی ترقی سمیت کوئی 35 شعبہ جات مقامی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ پورے امریکا میں تین درجاتی انتظامی ڈھانچہ قائم ہے۔ یعنی وفاقی حکومت، ریاستی حکومت اور مقامی حکومت۔ ریاستی حکومت کا اپنا دائرہ کار ہوتا ہے۔ یہاں مقامی، ریاستی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرتیں۔
شہری انتظام میں تین عہدے کلیدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اول میئر (جو منتخب ہوتا ہے)۔ دوئم سٹی کلرک (ہمارے یہاں کے صوبائی چیف سیکریٹری سے مماثل شہری سطح کا عہدہ ہے)۔ اس کی ذمے داری شہری حکومت کی تمام دستاویزات کا ریکارڈ رکھنا اور حکومتی احکامات کی تعمیل کو یقینی بنانا ہے، یعنی باالفاظ دیگر شہری انتظامی بیوروکریسی کا سربراہ۔ تیسرا کلیدی عہدہ خزانچی کا ہوتا ہے۔
یہ بھی بیوروکریٹک عہدہ ہے۔ اس کی ذمے داری شہر کو وفاق اور صوبے کے علاوہ اپنے مقامی ٹیکسوں سے ملنے والی رقوم کا حساب کتاب رکھنا ہے۔ خرچ اور آمدن کا میزانیہ تیار کرنا اور ان کی منتخب کونسل سے منظوری لینے کے علاوہ کونسل کے فیصلوں کے مطابق ترقیاتی کاموں کے لیے رقوم جاری کرنا ہے۔
امریکا کے وفاق کے قائم رہنے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہاں ریاستوں کو مکمل آئینی بااختیاریت حاصل ہے۔ اسی طرح ریاستیں شہری حکومتوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتیں۔ اگر نچلی سطح پر یہ اختیارات حاصل نہ ہوتے تو امریکا کا چند برس قائم رہنا بھی مشکل تھا۔ کیونکہ یہ مختلف تارکین وطن اقوام کا ملغوبہ ہے۔ دوسرے یہاں شہریت کے اصولوں پر سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر سے آئے لوگوں کو مختلف شرائط کے تحت ایک خاص مدت کے بعد مکمل شہری حقوق حاصل ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام لوگ جو مختلف رنگ ونسل اور عقائد سے تعلقات رکھتے ہیں، جمہوریت، ہمہ دینیت اور آزاد خیالی کی وجہ سے امریکی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ ہر شہری خواہ اس کا پس منظر کچھ ہی کیوں نہ ہو، میرٹ پر اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچنے کا مکمل حق رکھتا ہے۔
اس منزل تک پہنچنے کے لیے امریکی باشندوں کو طویل جدوجہد سے گزرنا پڑا ہے۔ خاص طور پر سیاہ فام باشندوں کو مساوی شہری حقوق کے لیے دو صدیوں پر محیط جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ لیکن اصل باشندوں یعنی سرخ ہندیوں کے ساتھ امتیازی سلوک آج بھی برقرار ہے۔
دوسری طرف ایشیائی باشندوں کی ایک بڑی تعداد بھی امریکا کے سیکولر قوانین کا بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں کا ایک حلقہ جو شناخت کے بحران میں مبتلا ہے، امریکی قوانین میں دی گئی اظہار کی آزادیوں کا منفی استعمال کررہا ہے۔ اس نے اسلام کے پرامن چہرے (Soft face) کی جگہ متشدد چہرہ (Hard face) پیش کرکے نہ صرف امریکا میں مستقل قیام پذیر مسلمانوں کے لیے مسائل پیدا کیے، بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے مسلمانوں کو بھی ان گنت نئے مسائل سے دوچار کردیا ہے۔
وہ امریکا جہاں مقامی حکومتیں مساجد اور مسلم کمیونٹی سینٹروں کی تعمیر کے لیے معمولی قیمت پر زمین اور دل کھول کر فنڈ مہیا کرتی تھیں، آج خاصی محتاط ہوچکی ہیں۔ ہمارے دائیں بازو کے بعض دانشور اور اہل علم امریکا میں ہونے والے اکا دکا واقعات کو تو اچھالتے ہیں، مگر انتہاپسند مسلمان جو کارستانیاں کرتے ہیں، ان سے منافقانہ انداز میں صرف نظر کرتے ہیں۔
9/11 سے قبل تک امریکا سمیت پورے امریکی اور یورپی براعظموں میں مسلمان میرٹ پر اعلیٰ ترین عہدے حاصل کررہے تھے۔ اعلیٰ ترین عہدوں تک ان کی رسائی میں آج بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن ان معاشروں میں معاندانہ سوچ ضرور پیدا ہوئی ہے۔ جس کے اسباب اپنی کوتاہیوں میں پوشیدہ ہیں، جس کا کھلے دل سے جائزہ لینا ضروری ہے۔
بہرحال یہ ایک طویل بحث ہے، جس کا طویل سیاسی، سماجی اور ثقافتی پس منظر ہے۔ لیکن ہم جب بھی دنیا کے کسی ملک میں جاتے ہہیں، تو ہمیں وہ شعر ضرور یاد آتا ہے، جو ہمارے والد مرحوم اکثر پڑھا کرتے تھے۔ جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اپنے وطن کے کانٹے بھی دیار غیر کے گل وسنبل سے حسین ہوتے ہیں۔
یہی سبب ہے کہ ہم اپنے ملک کے نظم حکمرانی اور سماجی ڈھانچے پر کتنی ہی تنقید کیوں نہ کریں، مگر اسے چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ البتہ جب بھی موقع ملے تو نگر نگر گھوم کر تجربات ضرور حاصل کرنا چاہئیں۔ کیونکہ اس طرح علم اور ذہنی وسعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمیں امریکا سمیت دنیا کے سبھی ترقی یافتہ ممالک کی طرز حکمرانی اور سماجی ترقی کے طریقہ کار کو سمجھنا اور سیکھنا چاہیے، تاکہ اپنے ملک کے معاملات کو بہتر کیا جاسکے۔