بھارتی بیساکھیاں چھوڑ کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا

پیسے کیلئے بھارت جاکر ذلیل و خوار ہونے میں کون سی عقلمندی ہے


Mian Asghar Saleemi July 11, 2017
برابری کی بنیاد پر مشترکہ فلم سازی پر بھارت کبھی راضی نہیں ہوگا۔ فوٹو : فائل

پاکستانی فلم انڈسٹری میں زیبا اور محمد علی کی جوڑی کسی تعارف کی محتاج نہیں، حقیقی دنیا میں بھی مثالی جوڑا 1989ء میں بولی ووڈ فلم ''کلرک'' میں اکٹھے جلوہ گر ہوا، اس فلم کی ہدایات منوج کمار نے دیں، جو اداکار محمد علی کے دوست بھی تھے، اس فلم میں بولی ووڈ کے بڑے نام جیسے منوج کمار، ریکھا اور اشوک کمار سمیت بڑے فنکاروں نے کام کیا، مگر فلم کی ریلیز پر سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ محمد علی اور زیبا کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا، ان کی صلاحیتوں کو درحقیقت ضائع کر دیا گیا تھا۔صاف دکھائی دے رہا تھا کہ پاکستانی فنکاروں کے خلاف گھناؤنی سازش کی گئی ہے۔

بھارتی ہدایتکار منوج کمار کے اس رویئے سے محمد علی اور زیبا اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ دونوں نے آئندہ بھارتی فلموں میں کام کرنے سے ہی توبہ کر لی، بھارت کی پاکستانی فلموں اور اداکاروں کے خلاف سازشیں بننے کی روایت کوئی نئی نہیں ہے بلکہ جب بھی پاکستانی فنکار بالی ووڈ میں اداکاری کے جوہر دکھانے کے لئے گئے تو ان کو منفی کرداروں جیسے ولن یا دہشت گردوں کے روپ میں پیش کیا گیا،یا ان کا کردار اتنا محدود کر دیا گیا کہ بھارتی فنکاروں کی اداکاری کے آگے یہ ایسے دکھائی دیئے جیسے پاکستانی آرٹسٹوں کو اداکاری کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ہے۔

فلم انڈسٹری میں اکثر ''کوپروڈکشن'' کی ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے، شائقین کے نالج کے لئے اس کی تشریح اور تفصیل میں جانا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اسی اصطلاؔح کے بل بوتے پر ہی ہمارے بھولے بھالے شائقین کو ہمیشہ سے بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے۔ کوپروڈکشن سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی بھی ملک کے ساتھ اگر کام کریں تو اسے برابری کی سطح پر ہونا چاہیے، ماضی میں ہماری کوپرڈوکشن نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ چلتی رہی،یہ ممالک فلم انڈسٹری میں بھی ہمارے ہم پلہ تھے،ہم ان کے آرٹسٹ لیتے تھے اور وہ اپنی فلموں میں پاکستانی اداکاروں کو کاسٹ کرتے تھے،مل جل کر اچھا کام چلتا تھا تاہم جب سے ہم بھارت کے ساتھ کوپروڈکشن کے خبط میں مبتلا ہوئے، اپنی انا، عزت وقار سب کچھ گنوا بیٹھے۔

سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ بالی ووڈ کے ساتھ ہماری کوپروڈکشن ہو ہی نہیں سکتی۔ ان کا بجٹ اربوں روپے میں ہوتا ہے جبکہ ہمارا کروڑوں میں ، ان کا ایک آرٹسٹ جتنے پیسے لیتا ہے، ہم اس سے بھی کم بجٹ میں پوری فلم بنا لیتے ہیں۔ پھر ایک تاثر دینے کی یہ کوشش کی گئی کہ چلو ممبئی نہیں تو دونوں ملکوں کے پنجاب کی سطح پر ہی مشترکہ طور پر کام کر لیتے ہیں۔ ہم یہاں بھی یہ بھول گئے کہ ہمارے اور بھارتی پنجاب کے ماحول میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے،ہمارے لہجہ اور کلچر ان سے بہت مختلف ہے، اس کے باوجود چند سرے پھروں نے دو، تین پنجابی میں فلمیں بنائیں لیکن یہ فلمیں بھی شائقین میں مقبول نہ ہو سکیں۔

1966ء تک بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر کبھی بھی پابندی نہ تھی،دونوں ملکوں کی پہلے پالیسی یہ تھی کہ ایک فلم بھارت سے آئے گی اور دوسری پاکستان سے وہاؔں جائے گی، ہم اس پالیسی پر عمل تو کرتے رہے لیکن ہمسایہ ملک نے اس پالیسی کو زیادہ لفٹ نہ کروائی، بھارتی زیادہ تر بارڈر سسٹم میں ہماری فلم خرید لیتے تھے لیکن اپنے سینماؤں میں نہیں لگاتے تھے۔ ہمسایہ ملک کی اس پریکٹس سے پاکستان کے فلم پروڈیوسر کو تو فائدہ ضرور ہو جاتا تھا تاہم مجموعی طور پر پاکستان فلم انڈسٹری اس فائدے سے محروم رہتی تھی۔ 1966ء میں بھارتی فلم کی پاکستان میں نمائش پر پہلی بار پابندی لگی۔

اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پاکستانی فلم ''ڈوپٹہ'' کے بدلے میں بھارت سے فلم ''جال'' آ رہی تھی،فلم ڈوپٹہ نے پاکستان میں اچھا خاصا بزنس کیا،ایک بھارتی ڈسٹری بیوٹر نے سوچا کہ پاکستان میں یہ فلم اچھی چلی ہے تو میں بھی اس کی بھارت میں نمائش کیوں نہ کروں،اس ڈسٹری بیوٹر نے یہ پاکستانی فلم بھارتی سینمامیں لگائی تو وہاں شور مچ گیا، انتہا پسند ہندؤں نے اس سینما کو ہی آگ لگا دی، اس دلخراش واقعہ کے بعد پاکستان میں ''جال'' تحریک کا آغاز ہوا جس میں سید شوکت حسین رضوی، سنتوش کمار، یوسف خان، آغا طالش سمیت نامور اداکاروں اور اعلی شخصیات نے گرفتاریاں پیش کیں۔ اسی تحریک کے نتیجہ میں اس وقت کے صدر جنرل ایوب نے قا نون ایل او آر 8کے تحت پاکستان میں پہلی بار بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگا دی۔

یہ قانون ایسٹ اور ویسٹ پاکستان دونوں مقامات پر لاگو ہوا، 1984ء میں بھی اسی طرح کا ایک اور لیٹر اس وقت جاری ہوا جب صدر جنرل ضیاء الحق نے اسی قانون کے تحت بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر دوبارہ پابندی لگا دی۔اس لاء میں ایک اور اضافہ یہ کیا گیا کہ اس قانون کے تحت وہ انگلش فلمیں بھی پاکستان میں بین تھیں جن میں کسی بھارتی اداکار یا اداکارہ نے کام کیا تھا، وقت اپنی رفتار چلتا رہا کہ 2007ء میں بھارتی فلموں کی پاکستان میں دوبارہ نمائش کے حق میں نئی تحریک چلی جس میں ہماری فلم انڈسٹری نے نہایت چلاکی اور عیاری کے ساتھ حکومت کو یہ باور کروایا کہ ملک میں سینما بند ہو رہے ہیں، اگر فوری طور پر ایکشن نہ لیا گیا تو پاکستان فلم انڈسٹری ماضی کا حصہ بن جائے گی، اس تحریک کی بدولت حکومت دباؤ میں آ گئی اور چند نئے مطالبات تسلیم کرنے کے ساتھ جذوی طور پر بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کی اجازت بھی دے دی گئی۔

ماضی میں پاکستان اور بھارت کی طرف سے مشترکہ طور پر فلمیں بنانے کے دعوے تو ضرور کئے جاتے رہے لیکن اس پر عملی طور پر کچھ عمل درآمد نہیں کیا گیا، اس لئے دونوں ملکوں کے درمیان حقیقی معنوں میں مشترکہ طور پر ایک بھی فلم نہیں بن سکی۔ راج ببر نے اپنے طور پر ایک فلم بنائی تھی،کچھ آرٹسٹ پاکستان سے لئے اور کچھ بھارت سے مگر اس کا نتیجہ بھی زیرو نکلا،گلوکارجواد احمد نے بھارتی فلمساز وکرم کھاکھڑ کے ساتھ مل کر فلم'' ورثہ'' بنائی، نعمان اعجاز، مہرین راحیل سمیت دونوں طرف سے فنکار کاسٹ لئے گئے، لیکن مشترکہ طور پر فلم بنانے کا یہ تجربہ بھی زیادہ کامیاب نہ ہوسکا۔

اب تک 2 درجن سے زائد ٹاپ پاکستانی فنکاروں کو بھارتی فلموں میں کام کرنے کا موقع میسر آیا ہے، ان آرٹسٹوں میں ندیم بیگ، ماورا ہوکین، ہمائمہ ملک، میشا شفیع، متھیرا، میکل ذوالفقار، علی ظفر، وینا ملک ، سارہ لورین، زیبا بختیار، ساشا آغا،جاوید شیخ، میرا،صباء قمر، سلمی آغا، طلعت حسین، محسن خان، صومی علی، سلمان شاہد، انتیا ایوب، ہمایوں سعید، میرا، مہر حسن، ثناء اور معمر رانا قابل ذکر ہیں۔

پاکستان فنکاروں کی موجودگی میں بننے والی بھارتی زیادہ تر فلمیں یا تو فلاپ رہیں، اگرکامیاب بھی رہیں توان فلموں میں بھارتی عوام نے پاکستانی فنکاروں کی اداکاری کو ہی پسند نہ کیا، تازہ ترین مثال ماہرہ خان کی فلم رئیس کی ہے، فلم نے اچھا خاصا بزنس کیا لیکن ماہرہ خان کی اداکاری پر سخت نکتہ چینی کی گئی،انیتا سب سے پہلے 1993ء میں دیو آنند کے مدمقابل پیار کا ترانہ میں نظر آئیں، یہ فلم فلاپ ہوئی تاہم انہیں دیو آنند کی ہی اگلی فلم میں بھی کاسٹ کر لیا گیا، وہ فلم بھی ناکام ثابت ہوئی، اس طرح انیتا کا بولی ووڈ کیریئر اختتام پذیر ہو گیا۔

پرکشش زیبا بختیار نے 1991ء میں رشی کپور کے مدمقابل بولی ووڈ فلم حنامیں کام کرنے کا موقع ملا، اس کے بعد انہوں نے مزید فلموں میں کام کیا جو زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں۔حمائمہ ملک کا بولی ووڈ ڈبیو راجہ نٹور لال کی شکل میں ہوا جس میں بولڈ اداکاری پر ان پر خاصی تنقید بھی ہوئی۔ ادکارہ میرا نے 2005ء میں بولی ووڈ فلم نظر میں کام کیا جو باکس آفس پر فلاپ رہی، جس کے بعد بھی وہ کچھ فلموں میں نظر آئیں وہاں بھی وہ جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔

مہر حسن امریکی نژاد پاکستانی ہیں،انہوں نے مختلف زبانوں کی بھارتی فلموں میں کام کیا، ناکامی پر واپس لوٹنا پڑا،ادکارہ ثناء نے 2007ء میں قافلہ فلم کے بعد کچھ انڈین پنجابی فلموں میں بھی کام کیا، تاہم ان کی فلمیں بھی کسی کی توجہ حاصل نہ کر سکیں۔ٹی وی سے شہرت حاصل کرنے والی مونا لیزا نے 2010ء میں کجرارے سے بولی ووڈ کیریئر کا آغازکیا، یہ فلم زیادہ کامیاب ثابت نہ ہو سکی جس کے بعد انہوں نے سارہ لورین کے نام سے کچھ بولی ووڈ فلموں میں بھی کام کیا جس میں بے باک اداکاری پر انہیں شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

ندیم بلاشبہ پاکستان کے اردو سینما کے سپر سٹار ہیں، انہوں نے تین دہائیوں سے زائد عرصہ تک پاکستان میں راج کیا، ضیاء دور میں پاک، بھارت تعلقات میں گرم جوشی آنے کے بعد وہ پہلے پاکستانی سپر سٹار بنے جنہوں نے1983ء میں بننے والی بولی ووڈ فلم ''گہری چوٹ'' میں راج ببر کے ساتھ کام کیا، اس میں انہوں نے منفی کردار ادا کیا، ناکام اداکاری کے بعد انہوں نے دوبارہ کسی بھارتی فلم میں کام نہ کیا۔ ہمایوں سعید نے 2009ء میںبولی ووڈ فلم جشن میں بطور ولن کام کیا، یہ فلم بھی زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔ میکال نے 2007 میں فلم سائٹ سے ڈبیو کیا جس کے بعد یو آر میری جان میں بھی نظر آئے تاہم یہ فلمیں کامیاب ثابت نہ ہو سکیں۔

معمر رانا نے 2004ء میں بولی ووڈ فلم دوبارہ میں کام کیا جس کے بعد انہیں کچھ اور بھارتی فلموں میں بھی جلوہ گر ہونے کا موقع ملا تاہم کی فلمیں کسی کی توجہ کا باعث ہی نہ بن سکیں۔ طلعت حسین 1989ء میں بننے والی فلم سوتن کی بیٹی میں ایک وکیل کے روپ میں نظر آئے، یہ فلم بھی زیادہ کامیاب نہ ہو سکی۔

وینا ملک نے سب سے پہلے پنجابی انڈین فلم پنڈ دی کڑی میں کام کیا، جس کے بعد انہوں نے کئی اوربولی ووڈ فلموں میں کام کیا لیکن پرستاروں کو زیادہ متاثر نہ کر سکیں۔

اپنی جاندار اداکاری کی وجہ سے علی ظفر، فواد خان، گلوکار عاطف اسلم اور راحت فتح علی خان بھارت میں خاصے مقبول ہیں لیکن پاکستان میں سرجیکل سٹرائکس کے بھارتی نام نہاد دعوی کے ساتھ ہی پاکستانی فنکاروں کو 48 گھنٹے میں بھارت چھوڑنے کا الٹی میٹم دے دیا گیا۔

ماضی میں اداکار پہلے اپنی عزت کو ترجیح دیتے تھے، مالی فائدہ بعد میں دیکھتے تھے، موجودہ اداکار پیسوں کو ترجیح دیتے ہیں، آج کے فنکار بھارت میں کام کر نے پر بڑا ناز کرتے ہیں، لیکن وہ یہ کبھی نہیں سوچتے کہ جب ان کے ہمسایہ ملک میں پتلے جلائے جاتے ہیں، تشہیری مہموں میں بے عزت کر کے نکال دیا جاتا ہے، ملک چھوڑنے کا الٹی میٹیم دیا جاتا ہے تو پاکستان کے 20 کروڑ عوام پر کیا بیتتی ہے۔ نئی جنریشن میں واحد اداکار شان ہے جس نے محب الوطن کا ثبوت دیتے ہوئے بھارتی فلم میں کام کرنے سے انکار کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق انہیں''گجنی'' فلم میں کام کرنے کی پیشکش ہوئی، شان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میرے ملک کے عوام کسی بھی صورت مجھے مار کھاتا ہوئے روپ میں برداشت نہیں کریں گے۔ یوسف خان، آغا طالش بھی وہ اداکار تھے جنہوں نے کبھی بھی پاکستان کی عزت پر سمجھوتہ نہیں کیا۔پاکستان کے یہ نامور اداکار بھی کوپرڈوکشن کے حق میں تھے تاہم ان کا موقف تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فلمیں صرف برابری کی سطح پر ہی بننی چاہیے۔

پاکستان آربیٹریشن فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کے چیئرمین چوہدری کامران بھی کو پروڈکشن کے حق میں نظر آتے ہیں،''ایکسپریس'' سے خصوصی بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری بھارتی فلم انڈسٹری حکام کے ساتھ ممبئی میں دو، تین ملاقاتیں ہوئی ہیں،ہمارا یہ موقف تھا کہ ہم مشترکہ فلم سازی کے حق میں ہیں، ففٹی، ففٹی شیئرنگ کرنے کے لئے بھی تیار ہیں لیکن یہ شیئرنگ صرف ایک ملک تک ہی محدود نہیں رہنی چاہیے،دوسرے فریق کو بھی برابری کی سطح پر حصہ ڈالنا چاہیے، وہ اس طرف آنے کو تیار نہیں، میرا یہ کہنا ہے کہ ایسے حالات میں بھارت کے ساتھ کوپروڈکشن تو نہیں ہو سکتی۔

تجارت کرنی ہے یا فلمیں بنانی ہیں ، یہ برابری کی سطح پر ہونی چاہیے۔ اگر بھارت ہماری بات کو ماننے کو تیار نہیں تو ہمیں دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے قدموں پر خود کھڑا ہونا ہوگا، متعدد بار حکومت پاکستان کو لکھ چکے ہیں کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک ٹیبل پر بٹھا کر یہ کام کروائیں کہ سب سے پہلے پاکستان ہے ، باقی چیزیں بعد میں آنی چاہیے۔

چوہدری کامران کی یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے کہ بھارتی ہمارے ساتھ جتنا مرضی کمپرومائز کریں لیکن ان کا مائنڈ سیٹ ایسا بن چکا ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستانی قوم کو کسی بھی روپ میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، وہ اپنی فلموں میں پاکستانی اداکاروں کو منفی کرداروں یعنی دہشت گرد اور ولن کے روپ میں ہی دکھائیں گے، ایسا کر کے ہندو بنیا یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ دنیا میں جتنی دو نمبری، دہشت گردی اور تخریبی کاروائی ہو رہی ہے اس کے پیچھے پاکستانی ہی ملوث ہیں،بھارتی فلموں میں بھی اگر کسی پاکستانی یا مسلمان کو اچھا کردار ملے یا وہ اگر پاکستان کی تعریف کرے تو اسے فلمی رول میں مار دیا جاتا ہے۔

سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے نامور ادکار اور اداکارائیں بھارت جا کر فلموں میں کیوں ناکام ہو جاتے ہیں، کیوں انہیں منفی رول ہی دیئے جاتے ہیں، کیوں پاکستانی اداکاراؤں کو بے باک اور بولڈ سین کرنے کو دیئے جاتے ہیں، وجہ سیدھی سادھی یہ ہے کہ بھارتی ہمیں کسی بھی صورت اپنے سے آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتے، کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ کمزور انسان اور چھوٹی قومیں بڑے بازاروں اور بڑی منڈیوں سے ہمیشہ جیبیں کٹوا کر واپس آتی ہیں، بدقسمت لوگ اونٹ پر بھی بیٹھ جائیں توانہیں کتا کاٹ لیتا ہے اور ان کی جھونپڑیوں کو گلیشیرز میں بھی آگ لگ جاتی ہے۔

نپولین نے کہا تھا کہ اگر آپ100 گیڈروں کی ایک فوج تیار کریں اور ان کا لیڈرایک شیر مقرر کریں تو تمام گیڈر شیر کی طرح لڑیں گے لیکن اگر آپ 100 شیروں پر مشتمل ایک فوج تیار کریں اور ان کا لیڈر ایک گیڈر ہو تو تمام شیر گیڈؑرکی موت مریں گے۔ اب ہم نے سوچنا ہے کہ ہم نے شیروں کی طرح جینا ہے یا غیروں کی جی حضوری کرتے ہوئے زندگی گزارنی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں