جج صاحب
اشرف شاد صحافت اور شاعری سے ہوتے ہوئے فکشن کی دنیا میں داخل ہوئے
اینٹی کلائمکس کے طور پر پہلے ہی یہ عرض کر دوں کہ اس عنوان یعنی ''جج صاحب'' کا کوئی تعلق آج کل کی عدالتی کارروائیوں' پاناما کیس' جے آئی ٹی' سپریم کورٹ یا اس سے متعلق کسی بھی جج صاحب سے نہیں ہے۔ یہ عنوان ہے اشرف شاد کے نئے ناول ''جج صاحب'' کا جسے حال ہی میں دوست پبلی کیشنز اسلام آباد نے شائع کیا ہے اور جو اس سے پہلے بھی اشرف شاد کے لکھے ہوئے اسی سیریز کے دو ناول ''صدر محترم'' اور ''وزیراعظم'' ان کی کچھ اور کتابوں سمیت قارئین تک پہنچا چکے ہیں۔
اشرف شاد صحافت اور شاعری سے ہوتے ہوئے فکشن کی دنیا میں داخل ہوئے، اگرچہ ایک بے باک اور نظریاتی صحافی' براڈ کاسٹر اور شاعر کی حیثیت سے انھوں نے بہت نام کمایا مگر جو شہرت اور پذیرائی انھیں اپنی کہانیوں اور ناولوں کی معرفت ملی، وہ معیار اور حقدار دونوں حوالوں سے غیر معمولی ہے۔ اعلیٰ ترین اور انتہائی اہم سرکاری عہدوں کی حامل ان شخصیات یعنی صدر محترم' وزیراعظم اور جج صاحب کو موضوع بنانے میں قدم قدم پر نئی پیچیدگیاں سر اٹھاتی ہیں اور اگر ناولوں کے مرکزی کرداروں کو حقیقت کے بجائے افسانے یعنی فکشن کے رنگ میں پیش کیا جائے تو معاملہ مزید الجھ جاتا ہے کہ یہ عکاسی کچھ کچھ داغ کے اس شعر کی صورت اختیار کر جاتی ہے کہ
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
اشرف شاد جہاں گرد آدمی ہیں، اپنی صحافیانہ بے باکی اور حق گوئی کی وجہ سے جب ان پر ستر کی دہائی میں وطن کی زمین تنگ ہوئی تو وہ امن اور رزق کی تلاش میں رضا کارانہ طور پر ایک ایسی نیم اختیاری جلا وطنی کا شکار ہوئے کہ گزشتہ تقریباً 45برس سے ان کا زیادہ وقت ملک سے باہر ہی گزرا ہے اگرچہ اس دوران میں وہ کویت' یو اے ای اور برونائی میں بھی کچھ عرصہ مقیم رہے لیکن آسٹریلیا کی آب و ہوا ان کو زیادہ راس آئی سو وہ گھوم گھام کر اب پچھلے کچھ برسوں سے دوبارہ آسٹریلیا میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔
فکشن کی دنیا میں ان کا داخلہ کب' کیوں اور کیسے ہوا اس کی تفصیلات سے تو میں پوری طرح سے آگاہ نہیں ہوں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان کی صحافت کی مشق پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت' براڈ کاسٹنگ کے تجربے اور حقائق کو شاعرانہ نگاہ سے دیکھ سکنے کی صلاحیت نے ان کے بیانیہ Narrative میں ایک ایسی مخصوص نوع کی گہرائی' وسعت اور تازگی پیدا کر دی ہے کہ ان کے ناولوں کے کردار' واقعات اور نثر تینوں قاری کو ایک ساتھ اپنے گھیرے میں لیے رکھتے ہیں۔ ان کے تینوں کرداری ناول اپنے عنوان اور موضوعات کے حوالے سے بوجوہ ایک ایسے علامتی انداز تحریر کے متقاضی تھے کہ بات کو حقیقت اور افسانے کے بین بین رکھا جائے اور یہ کوئی آسان کام نہیں کہ آپ کسی اصلی اور دیکھے ہوئے کردار کی ایسی تصویر بنائیں کہ قاری ہمہ وقت غالب کے اس شعر کی پہیلی کو ہی کھولنے میں لگا رہے۔
ہاں کھائیو مت فریب ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے' نہیں ہے
اشرف شاد سے گزشتہ چند ملاقاتوں کے دوران ہونے والی گفتگو' ماضی قریب میں چلنے والی عدلیہ تحریک اور اس میں جسٹس افتخار چوہدری کے متنازعہ اور دلچسپ رول کے حوالے سے توقع تھی کہ اس کتاب ''جج صاحب'' کا مرکزی کردار انھی کی ذات سے رشتہ آرا ہو گا ، ساتھ ہی ساتھ اس بات کی توقع بھی تھی کہ وہ حقیقت کو فکشن کا روپ دینے کے لیے کرداری خصائص اور واقعات کو جان بوجھ کر اس طرح سے تبدیل بھی کریں گے کہ ''علامت'' ''تشبیہ'' نہ بننے پائے لیکن یوں لگتا ہے کہ اس کتاب کو لکھنے میں بوجوہ جو تاخیر ہوئی اور اس دوران میں میڈیا کی وجہ سے کئی ایسی باتیں اسقدر عام اور دماغوں میں راسخ ہو گئیں کہ انھیں علامتی انداز میں بھی کہانی کا حصہ بنانا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا، شاید یہی وجہ ہے کہ 603 صفحات پر مبنی اس کتاب میں ''جج صاحب'' کا علامتی کردار 518صفحات تک جج کے بجائے ایک وکیل کی شکل میں سامنے آتا ہے یعنی 20ابواب میں سے صرف آخری چھ ابواب میں مرکزی کردار بیرسٹر ''کرم دیوان'' کو بطور جج دکھایا گیا ہے جب کہ اس سے پہلے کی ساری کہانی میں اس کی موجودگی ایک منفرد اور دلچسپ کردار کے طور پر تو ہے مگر دو تین واقعات سے قطع نظر کہیں بھی وہ کہانی کو آگے بڑھاتا یا صورت حال کا بوجھ اٹھاتا ہوا نظر نہیں آتا اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہی حصہ اس کتاب کا زیادہ جاندار' دلچسپ اور توجہ طلب حصہ ہے۔
جس میں اگرچہ کئی کردار بہت عمدگی اور خوش اسلوبی سے پیش کیے گئے ہیں مگر دیکھا جائے تو یہ سارا حصہ ایک نوجوان اور آگے بڑھنے کے جذبے سے سرشار درمیانے درجے کے وکیل ظفر اللہ ہاشمی کے گرد گھومتا ہے جو طوائفوں کے مقدمات لڑنے اور جیتنے کے حوالے سے مشہور ہے جن سے اسے دو وقت کی روٹی تو مل جاتی ہے مگر اپنی برادری میں وہ عزت نہیں مل رہی جس کی اسے تلاش ہے، اس کردار کی زندگی میں مستقبل کا ''جج صاحب'' اور اس وقت کا ایک انتہائی نامور' مہنگا اور خود پرست قسم کا وکیل بیرسٹر کرم دیوان اتفاقی طور پر داخل ہوتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف اس کی زندگی کا رخ بدل جاتا ہے بلکہ وہ دنیاوی اعتبار سے ترقی کی منزلیں بھی فلمی انداز میں طے کرتا چلا جاتا ہے۔
اس عمل کے دوران اس کی زندگی اور ناول میں کئی کردار شامل ہوتے ہیں جن کی عکاسی اشرف شاد نے ایسے خوب صورت' مفصل اور چونکانے والے انداز میں کی ہے کہ ہر نئے کردار اورباب کے ساتھ ناول کا پلاٹ مزید گہرا اور مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایسے حیران کن مگر کہانی کے اندر پہلے سے موجود بظاہر غیر متوقع انکشافات سامنے آتے چلے جاتے ہیں کہ ناول میں ایک عمدہ فلم یا کسی مقبول ٹیلی ویژن سیریل کے ماہرانہ انداز میں بنائے گئے اسکرین پلے کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو ناول کے بیشتر حصے میں نہ صرف قائم رہتی ہے بلکہ اس کی دلچسپی بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اشرف شاد پر ناول کے عنوان یعنی ''جج صاحب'' کو کلائمکس میں زیادہ جگہ دینے کا نفسیاتی دباؤ نہ ہوتا تو یہ کہانی آخر تک ایک کامیاب ٹی وی سیریل کا بنا بنایا اسکرین پلے ہوتی۔
کردار اور موضوع کی اس بحث سے قطع نظر اس ناول کی سب سے اہم بات اس کے پلاٹ کی چستی' کرداروں کی نقش گری' نثر کار چاؤ اور مکالموں کی خوب صورتی ہے کہ واقعات اور مناظر کے بیان اور کرداروں کی نفسیاتی کیفیات کی باریکیوں کو جس مہارت کے ساتھ اشرف شاد نے قلم بند کیا ہے اس کی مثالیں ہمیں معاصر فکشن میں کم کم ہی ملتی ہیں۔ قانون کی پیچیدگیوں اور عدالتی کارروائی کی منظر نگاری اور تفصیلات کو جس تحقیق اور خوبی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے وہ مصنف کی محنت کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کی بھی عکاس اور غماز ہے کہ ہمارے قوانین اور اس سے متعلق دیگر شعبہ جات میں انصاف کی فراہمی کس قدر مشکل اور عام آدمی کی دسترس سے دور کر دی گئی ہے۔ ظفر اللہ ہاشمی کی اپنی اور اس کی لا فرم کے دونوں پارٹنرز شاہ جی اور علم کی ضمنی کہانیاں بہت دلچسپ ہیں کہ ہر کہانی میں کچھ واقعات اور ان سے متعلق کرداروں کا ردعمل کہیں کہیں افسانوی رنگگ اختیار کر گیا ہے مگر اس کے باوجود یہ کردار ممکن اور اپنے اپنے سے لگتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے آغاز میں عرض کیا تھا، اس کتاب اور اس کے کرداروں کا کوئی براہ راست تعلق ان عدالتی فیصلوں اور ماحول سے نہیں جن پر آج کل میڈیا اور مختلف فورمز پر دن رات باتیں اور قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں مگر اس کے باوجود اس ناول میں جگہ جگہ ایسے کردار' مسائل اور واقعات سامنے آتے ہیں جن کا کوئی نہ کوئی تعلق عصری صورت حال سے نکل ہی آتا ہے، یہ اور بات ہے کہ
کبھی شیشے دھندلے ہوتے ہیں کبھی منظر صاف نہیں ہوتے