سوشلسٹ کوریا کوامریکی دھمکی
1950میں کو ریا میں ورکرز پارٹی آف کوریا کے بانی صدر کم ال سنگ کی رہنمائی میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا
1950میں کو ریا میں ورکرز پارٹی آف کوریا کے بانی صدر کم ال سنگ کی رہنمائی میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا۔ انقلاب کے فورا بعدکوریا کے جنوبی حصے پر امریکی سامراج نے مقامی آلہ کاروں کی مدد سے قبضہ جما لیا۔ بعدازاں کوریا کے سوشلسٹ انقلاب کی حمایت میں دنیا بھر سے کمیونسٹ گوریلاز نے امریکی حملہ آوروں کے خلاف مسلح جدو جہد شروع کی ۔ یہ لڑائی 1950-53تک چلتی رہی ۔ آ خرکار جنوبی کوریا کی امریکی نواز حکومت اور شمالی کوریا (سوشلسٹ کوریا) کے نمایندوں نے مذاکرات کیے اور اس میں طے پایا کہ شمالی کوریا سے دنیا بھر سے آئے ہوئے کمیونسٹ گوریلا واپس چلے جائیں گے اور جنوبی کوریا سے امریکی فوج واپس چلی جائے گی۔ اس کے بعد کمیونسٹ گوریلا تو چلے گئے لیکن جنوبی کوریا سے امریکی فوج وا پس نہیں گئی،اب بھی جنوبی کوریا میں امریکی فوجی اڈہ ہے۔اس کے خلاف جنوبی کوریا کی کمیونسٹ پارٹی اور امن پسند قوتیں مسلسل امریکی فوجی اڈے کے خاتمے کے لیے ریلیاں نکالتی ہیں اور مظاہرے کرتی ہیں ۔
جب سوویت یونین کا انہدام ہوا تو سوشلسٹ کوریا کے آنجہانی بانی صدرکم ا ل سنگ نے ایک نعرہ دیا کہ ''socialism will not perish ''یعنی سوشلزم ختم نہیں ہوگا ۔ شروع میں اس نعرے کے ساتھ ایک اعلامیہ کم ال سنگ کے دستخطوں کے ساتھ جاری ہوا تھا جس پر صرف 17ملکوں کی کمیونسٹ اور ورکرز پارٹیوں نے دستخط کیے تھے ۔ بعد ازاں اس اعلامیے پر 200 پارٹیوں نے دستخط کیے ۔ سوشلسٹ کوریا ایک ایسا ملک ہے جو اپنے سوشلسٹ نعروں کے ساتھ نہ صرف ڈٹا ہوا ہے بلکہ امریکی سامراج کا جرات مندانہ اور بہادری سے مقابلہ کررہا ہے ۔ شمالی کوریا میں سوفیصد لوگ خواندہ ہیں ۔ یہاں جا گیرداری ، سرمایہ داری اور نجی ملکیت کا خاتمہ کردیا گیا ہے ۔ سوشلسٹ کوریا میں بے روزگاری ، جہالت ، ایڈز، ہیپا ٹائٹس ، عصمت فروشی، منشیات نوشی،گدا گری اور بے علاجی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے ۔ شمالی کوریا آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اے ڈی پی سے کوئی قرضہ لیا ہوا ہے اور نہ کسی کا مقروض ہے ۔
امریکا نے اس کی ہر طرف سے اقتصادی ، معاشی اور مالیاتی ناکہ بندی کر رکھی ہے، اس کے باوجود سوشلسٹ کوریا صحت ، تعلیم اور سماجی ترقی کی جانب مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے۔ امریکا کے پاس ہزاروں اینٹی وارہیڈ اور میزائل موجود ہیں جب کہ سوشلسٹ کوریا کے پاس صرف نو ایٹمی وارہیڈ ہیں اور چند میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ اس پر امریکا مسلسل اعتراض ، احتجاج اور دھمکیاں دے رہا ہے ۔ابھی حال ہی میں اس نے شمالی کوریا پر بڑے حملے کی دھمکی بھی دے دی ہے۔ امریکا نے کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو شمالی کوریا کے خلاف خاصی بڑی فوجی طاقت استعمال کرسکتا ہے ۔ شمالی کوریا کی جانب سے حالیہ میزائل کے تجربے پر بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نے کہا کہ امریکا پیانگ یانگ کے خلاف ایک نئی قرارداد پیش کرے گا ۔ سفیر ہیلے نے کہا کہ شمالی کوریا کا آئی سی بی ایم کا تجربہ بہت تیزی سے کسی سفارتی حل کے امکان کا راستہ بند کررہا ہے۔
اس نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اپنے اور اپنے اتحادیوں کے دفاع کے لیے اپنی مکمل صلاحیت استعمال کرنے کے لیے تیار ہے ۔ ہماری صلاحیت ہی ہماری خاصی بڑی فوجی طاقت میں ہیں ، اگر ضرورت پڑی تو ہم انھیں استعمال کریں گے ۔ تاہم اس سمت میں جانے کو ترجیح نہیں دیتے۔ ادھر فر انس اور جرمنی نے بھی امریکی سامراج کی حمایت کا اعلان کیا ہے ، جب کہ روس نے کہا ہے کہ فوجی کارروائی کو خارج کردینا چا ہیے۔ چین کے نمائیندے نے کہا کہ بیجنگ کے لیے بھی شمالی کوریا کے اقدامات نا قابل قبول ہے ۔ تاہم انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ چین اور روس دونوں کا مطالبہ ہے کہ امریکا، جنوبی کوریا میں میزائل شکن نظام نصب نہ کرے اور یہ کہ دونوں ممالک ( امریکا اورجنوبی کوریا) شمالی کوریا کے قریب اپنی فوجی مشقیں بندکردیں۔
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کی شمالی کوریا کے ساتھ تجارت پر تنقید کی ۔ امریکی سفیر ہیلے نے کہا کہ امریکا ان ملکوں کے ساتھ تجارت منقطع کرسکتا ہے جو اقوام متحدہ کی قرارداد کے باوجود شمالی کوریا کے ساتھ تجارت جاری رکھے ہوئے ہیں ۔دوسری جانب امریکی صدر نے پولش ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا ایک خطرہ ہے جس سے سختی سے نمٹنا ہوگا ۔ روسی خطرات سے نمٹنے کے لیے پولینڈ کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔
امریکا کے لیے اگر شمالی کوریا خطرہ ہے تو پھر دنیا بھر کے سمندروں میںامریکا کے 68جنگی بحری بیڑے کیا کررہے ہیں؟ امریکی سامراج اور اسرائیل نے اقوام متحدہ کے قراردادوں پہ عمل کیا ہے ؟ اگر ایسا نہیں کیا توچین پر اعتراض سمجھ سے بالاتر ہے۔ امریکا کی لا کھوں فوج جنوبی کوریا، جاپان، سعودی عرب، قطر، اردن،کویت، مصر اور اسرائیل میں کیا کررہی ہیں ؟ ترکی میں نیٹوکی جرمن فوج اور بحرین کے ساحل سمندر پہ امریکی جنگی بحری بیڑا کس مقصد کے لیے کھڑا ہے؟ ٓامریکا ایک جانب سعودی عرب کو اور دوسری جانب قطرکو اسلحے کی فروخت کررہا ہے ۔اس وقت امریکا اپنی صنعتی پیداوارکا 70 فیصد اسلحہ پیدا کر تا ہے ۔ یقینا اس اسلحے کو فروخت کرنا ہوتا ہے اور جو خریدیں گے وہ اسے استعمال بھی کریں گے اور اس کے لیے میدان جنگ سجایا جاتا ہے ۔ یہ سارے کام امریکا اور اس کی سی آئی اے خود انجام دیتی ہے، جب کہ شمالی کوریا صرف اپنی دفاع کے لیے میزائیل کا تجربہ کیا ہے ۔ امریکا اب تک براہ راست اور باالواسطہ 88 ملکوں میں فوجی مداخلت کرچکا ہے۔
جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسان قتل ہوئے ۔ شمالی کوریا کسی بھی ملک پر حملہ آور ہوا ہے اور نہ مداخلت کی ہے۔ امریکا جنوبی کوریا سے اپنی فوج وا پس بلا لے اور جنوبی کوریا کے ساتھ فوجی مشقیں بند کردے تو شمالی کوریا کو میزائل کے تجربات کی کوئی ضرورت نہیں ۔ شمالی کوریا نے تو ایک کنفیڈریشن کی تجویز دی تھی مگر امریکا نے دونوں کوریاؤں کو متحد کرنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں اوراس اتحاد کو آگے نہیں بڑھنے دیا ۔شمالی کوریا کی یہ تجویز تھی کہ اپنے اپنے خطے میں خواہ نظام الگ الگ کیوں نہ ہو ہم ساتھ رہ سکتے ہیں ۔اس عمل سے متحدہ کوریا کی ترقی اور خوشحالی میں بے دریغ اضافہ ہوگا اور سامرا جی مداخلت کے بغیر خود مختار ی بر قرار رہے گی۔ ماضی میں جنوبی کوریا کے حکمران نے ان تجاویزکو مثبت قراردیا تھا ۔ ویسے بھی خطے کے ملکو ںکو ٹکڑوں میں بانٹ کر آ پس میں لڑوانا عالمی سامراج کے مفادات میں جاتا ہے ۔امریکا اس وقت افریقہ ، مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں مداخلت کرکے ملکوں کو آپس میں لڑوا رہا ہے۔ فی الحال جنوبی امریکا،جنوبی افریقہ ، یورپ اور وسطی ایشیا ان سازشوں سے ایک حد تک محفوظ ہیں ۔ چونکہ عالمی سرمایہ داری انحطاط پذیری کا شکار ہے اس لیے وہ وسائل پر قبضے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کرتا ہے۔
حال ہی میں جی 20 کا اجلاس منعقدہ جرمنی میں عالمی سرمایہ داری کے خلاف کمیونسٹوں، مزدوروں، طلبہ اور امن پسند قوتوں کا سمندر امنڈ آیا۔ جس پر جرمنی کی سیکیورٹی فورسز نے عوام پر لاٹھی چارج، آنسوگیس اور واٹرکینن کااستعمال کیا اورگرفتا ریاںعمل میں آئیں ۔ بہرحال ان تمام رکاوٹوں کو ختم کرتے ہوئے کوریا متحد ہوگا اور عالمی سرمایہ داری کا خاتمہ ہو کر ایک عالمی کمیونسٹ سماج قائم ہوگا۔ یہاں عوام کے مسائل حل ہوں گے اور سامراجی جنگوں کا بھی خاتمہ ہوگا۔