موڈیز کا پاکستان کی بی 3 ریٹنگ برقرار رکھنے کا اعلان

آؤٹ لک مستحکم، سی پیک کےباعث وسط مدتی ترقیاتی منظرنامہ ٹھوس،مقامی سیاست وجیوپالیٹیکل خدشات ریٹنگ کے لیے خطرہ ہیں،بیان


Business Desk July 13, 2017
قرضوں کا بوجھ بلند، مالیاتی خسارہ زیادہ،غیرملکی زرمبادلہ ذخائر کیلیے درآمدات میں نمایاں اضافہ رسک،معاشی نموبڑھنے کاامکان بھی ظاہر فوٹو: فائل

موڈیز انٹرنیشنل سروسز نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے باعث انفرااسٹرکچر مسائل کے حل کی امید پر پاکستان کی بی تھری (B3) ریٹنگ برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے جس کا آؤٹ لک بھی مستحکم رکھا گیا ہے۔

گزشتہ روز جاری کردہ بیان میں بین الاقوامی ریٹنگ فرم نے کہاکہ پاکستانی ریٹنگ برقرار رکھنے کا فیصلہ کریڈٹ سپورٹ اور رکاوٹی عناصر کو متوازن کرتا ہے، پاکستان کا وسط مدتی گروتھ آؤٹ لک ٹھوس ہے جس کو چین پاکستان اقتصادی راہداریاور آئی ایم ایف کے ایکسٹینڈڈفنڈ فیسلیٹی (ای ایف ایف) پروگرام 2013-16 کے تحت کی گئیں میکرواسٹیبلیٹی۔انہانسنگ اصلاحات کے جاری اثرات سے مدد مل رہی ہے، سی پیک سے پاکستان کو انفرااسٹرکچر رکاوٹوں سے نمٹنے میں مدد ملے گی تاہم مقامی سیاست اور جیوپالیٹیکل خطرات ریٹنگ کے سلسلے میں ہنوز نمایاں رکاوٹ ہیں۔ موڈیز نے کہاکہ پاکستانی حکومت کے قرضوں کا بوجھ بلند ہے جبکہ مالیاتی خسارہ نسبتاً زیادہ ہے جس کی وجہ آمدن کی محدود بنیاد ہے جس سے ترقیاتی اخراجات بھی محدود ہیں تاہم غیرملکی زرمبادلہ ذخائر اگرچہ چند برسوں کے مقابلے میں مضبوط ہیں مگر درآمدات میں کوئی بھی نمایاں اضافہ اس کے لیے خطرہ ہے، پاکستان کی بی تھری ریٹنگ کا آؤٹ لک مستحکم رکھنے کا فیصلہ مذکورہ دو طرح کے عناصر سے متعلق خطرات کو وسیع تر متوازن کرنے کی عکاسی ہے۔

موڈیز نے سیکنڈ پاکستان انٹرنیشنل سکوک کو لمیٹڈ اور تھرڈ پاکستان انٹرنیشنل سکوک کو لمیٹڈ کی فارن کرنسی سینئر ان سیکیورڈ ریٹنگز کو بھی بی تھری پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، پاکستان کی Ba3 لوکل کرنسی بانڈ اور ڈپازٹ سیلنگز میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، B2 فارن کرنسی بانڈ سیلنگ اور Caa1 فارن کرنسی ڈپازٹ سیلنگ بھی برقرار رکھی گئی ہیں۔ موڈیز کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے 3سالانہ ای ایف ایف پروگرام کے تحت شروع کی گئیں اصلاحات کے نتیجے میں میکرواکنامک استحکام کو تقویت ملنے اور 2015میں سی پیک پروجیکٹ شروع ہونے سے معاشی ترقی کا منظرنامہ مضبوط ہوا ہے، جون 2016 کو ختم ہونے والے مالی سال میں ریئل جی ڈی پی گروتھ 4.5 فیصد پر پہنچ گئی تھی جو مالی سال 2015 اور 2014 میں 4.1 فیصد تھی۔

توقع ہے کہ آئندہ چند برسوں میں یہ گروتھ ریٹس برقرار رہیں گے یا ان میں اضافہ ہوگا، میکرواکنامک استحکام کے حوالے سے آئی ایم ایف پروگرام مالیاتی خسارہ کم کرنے، زیادہ بہتر افراط زر انتظام اور زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے میں کامیاب رہا ہے مگر مزید پیشرفت چیلنجنگ ہوگی کیونکہ مالیاتی میٹرکس اور زرمبادلہ ذخائر کی مناسبت کمزور ہے مگر لگتا ہے کہ حکام کی جانب سے گزشتہ تین چار برسوں میں کیے گئے اقدامات واپس نہیں لیے جائیں گے، اصلاحات کے نفاذ کے لیے حکومتی عزم مالیاتی و زری نظم کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوگا ۔

جس سے حالیہ میکرواکنامک استحکام کے فوائد کو تحفظ ملے گا، سی پیک کے اقتصادی فوائد بتدریج حاصل ہونے اور ماضی کی پالیسی اصلاحات کے مسلسل اقتصادی پوٹینشل کوسپورٹ ملنے سے آئندہ چند برسوں میں ریئل جی ڈی پی گروتھ 6 فیصد تک بڑھ جائے گی، سی پیک سے پاکستان کی مسابقتی صلاحیت بڑھے گی اور سپلائی سائیڈ خصوصاً توانائی و ٹرانسپورٹ انفرااسٹرکچر کی رکاوٹیں ختم ہونے نجی سرمایہ کاری سے جی ڈی پی گروتھ کوفروغ ملے گا تاہم سیکیورٹی ایشوز اور عوامی منصوبوں پرعملدرآمد کے کمزور ریکارڈ کی وجہ سے لگتا ہے کہ پروجیکٹ پر عملدرآمد میں کی رفتار سست رہے گی، اس لیے اگرچہ سی پیک پاکستان کی کریڈٹ پروفائل کو سپورٹ کرے گا مگر اس کے اقتصادی فوائد حکومتی اہداف کے مقابلے میں زیادہ سست روی سے حاصل ہوںگے جس کے نتیجے میں ریئل جی ڈی پی گروتھ آئندہ 2سال میں 5.5 فیصد کے قریب رہے گی جبکہ حکومت نے معاشی ترقی کی شرح رواں مالی سال 6 فیصد اور 2020 تک 7 فیصد پر پہنچنے کی پیش گوئی کی ہے۔ موڈیز نے کمزور حکومتی آمدنی کو مالیاتی خطرہ قرار دیا ہے جو فزیکل اور سوشل انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ پراخراجات کی حکومتی صلاحیت کو کم کرتے ہوئے معاشی نمو کے امکانات کو محدود کرتا ہے۔

مالی سال 2016 میں حکومتی آمدنی جی ڈی پی کا 15.5 فیصد رہی جو پاکستانی ریٹنگ کے حامل دیگر بیشتر ملکوں سے کم ہے، یہ حکومتی ٹیکس بیس محدود ہونے کی عکاسی ہے اور اس کا تعلق بہت کم فی کس آمدنی کے علاوہ کمزور ٹیکس کمپلائنس وایڈمنسٹریشن سے ہے حالانکہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اصلاحات سے کچھ بہتری آئی ہے، مالی سال 2016 میں حکومت پر قرضوں کا بوجھ جی ڈی پی کا 67.6 فیصد تھا جو بی ریٹنگ کے حامل ملکوں کی 52.6 فیصد اوسط سے بہت زیادہ ہے، توقع ہے کہ قرضوں کا یہ بوجھ آئندہ 2سال تک بڑی حد تک برقرار ہے گا، اسی طرح مالیاتی خسارے کو محدود رکھنا بھی چیلنجنگ ہوگا جو مالی سال 2013 میں 8.1سے گھٹ کر 2016 میں 4.4فیصد رہ گیا۔

حکومت نے سال 2017 میں مالی خسارے کا ہدف 3.8فیصد اور سال 2018 کیلیے 3.5 فیصد رکھا ہے مگر نسبتاً منظم اخراجات کے باوجود گزشتہ مالی سال کی پہلی ششمالی میں آمدنی کا ہدف حاصل نہ ہوسکا جس کے نتیجے میں جون 2017 میں حکومت نے مالی سال 2017اور 2018کیلیے مالیاتی خسارے کے اہداف نظرثانی سے بالترتیب 4.2 اور 4.1 فیصد کردیے، خدشہ ہے کہ مالی سال 2017 میں مالیاتی خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کا 4.7فیصد اور 2018 میں 5 فیصد تک پہنچ جائے گا، حکومت مالی سال 2018 کے ریونیو اہداف کی بنیاد معاشی نمو کی پیش گوئیوں پر ہے جس کیلیے ہم پرامید ہیں، دریں اثناء حکومتی اخراجات اور اس کے ساتھ پاور سبسڈیزمالیاتی خزانے پربوجھ کاباعث ہونگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں