نوازشریف کیخلاف ماضی میں نیب اور دیگر اداروں نے 32 مقدمات درج کیے

جے آئی ٹی نے ان مقدمات کے ریکارڈکوتحقیقات میںشامل کیا، ایک الزام کینیامیں2شوگرملیں لگانے کا بھی تھا


Online/Qaiser Sherazi July 13, 2017
راولپنڈی میں3ریفرنس زیرسماعت رہے،ہیلی کاپٹرریفرنس میں14سال قیدہوئی، اپیل کاکوئی ریکارڈ نہیں ملا فوٹو : فائل

جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے پاناما کیس میں شریف فیملی کے خلاف جن ریفرنسوںکو ری اوپن کرنے کی سفارش کی ہے ان میں3 ریفرنس حدیبیہ پیپرز منی لانڈرنگ، اتفاق فاؤنڈری اور رائے ونڈ محل احتساب عدالت اٹک قلعہ میں زیر سماعت تھے جو اب احتساب عدالت نمبر1 راولپنڈی کہلاتی ہے۔ نوازشریف کے خلاف ایف آئی اے میں مبینہ طور پر پہلی بار براہ راست42 اسسٹنٹ ڈائریکٹر (ڈی ایس پی) سیاسی بنیادوں پر بھرتی کرنے کا مقدمہ تیارکیا گیا تھا لیکن عدالت میں نہیںبھیجاگیا۔ حدیبیہ پیپرز منی لانڈرنگ ریفرنس ایسا کیس ہے جس میں تمام شریف فیملی بطور ملزمان نامزد ہے۔

ان تینوں ریفرنسوں میں فردجرم تک عائد نہیںکی گئی تھی، یہ تینوں ابتدائی مراحل میں تھے کہ نیب پراسیکیوٹر خواجہ اظہر رشید نے12 اپریل2001 کو احتساب عدالت میں چیئرمین نیب کی طرف سے درخواست دائرکی کہ ریفرنسوںکے ملزمان بیرون ملک (جدہ) جاچکے ہیں اس لیے سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی جائے۔ اس کیس میں مجموعی طور پر642.74 ملین روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ اتفاق فاؤنڈری ریفرنس کے نامزد ملزمان میں وزیراعظم نوازشریف، شہباز شریف، میاں شریف مرحوم، عباس شریف مرحوم،کمال قریشی، مختار حسین شامل ہیں، اس ریفرنس میں1994 میں نیشنل بینک سے 1063.16ملین روپے قرضہ حاصل کرکے فیکٹری ڈیفالٹ قرار دے کر واپس نہ کرنے کا الزام ہے۔

تیسرا ریفرنس رائے ونڈمحل کیس ہے جس میں پوری شریف فیملی شامل ہے، اس میں الزام ہے کہ 401کنال اراضی پر محل بناتے ہوئے247.35ملین روپے کی کرپشن کی گئی۔ شریف فیملی کے واپس آنے پر پراسیکیوٹر نے ستمبر 2012 درخواست دائرکی کہ ریفرنسوںکے ملزمان ملک میں واپس آچکے ہیں، ریفرنس ری اوپن کیے جائیں۔ اس وقت کے جج چوہدری عبدالحق نے یہ درخواست منظور کرتے ہوئے ریفرنس ری اوپن کیے تاہم شریف فیملی کے وکیل اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے ان نوٹسوںکو لاہورہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں چیلنج کردیا اور حکم امتناع حاصل کرلیا، بعد ازاں تینوں ریفرنس خارج کرنے کیلیے ہائیکورٹ میں اپیلیں دائرکی گئیں۔ لاہورہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے ان اپیلوں پر منقسم فیصلہ سنایا۔ جسٹس خواجہ امتیازاحمدنے کیس ختم کرنے جبکہ جسٹس فرخ عرفان نے ری اوپن کرکے ٹرائل شروع کرنے کے فیصلے دیے۔

جس کے بعد چیف جسٹس نے یہ ریفرنس ریفری جج جسٹس سردارشمیم کو بھیج دیے، انھوں نے بھی ریفرنس ختم کرنے کے فیصلے کی تائیدکردی جس پر یہ ریفرنس2015 میں ختم کردیے گئے اور اس فیصلے کے خلاف نیب نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کی، یہ تینوں ریفرنس مکمل طورپراحتساب عدالت نمبر1راولپنڈی کے ریکارڈ روم میں موجود ہیں۔ ہفتہ رواں کے دوران عدالت کے عملے نے ان ریفرنسوںکی فائلوںکی جھاڑ پونچھ کی ہے۔ ایکسپریس کے سوال پر عملے نے بتایاکہ وہ صرف ان ریفرنسوںکی ہی نہیں بلکہ تمام ریکارڈکی صفائی کررہے ہیں، احتساب عدالت نے صرف ہیلی کاپٹر ریفرنس میں وزیراعظم نوازشریف کو22 جولائی سال2000کو14سال قید اور2کروڑ روپے جرمانہ کی سزا سنائی، جرمانہ ادا نہ کرنے پر مزید 3 سال قیدکا حکم دیاتھا جبکہ شریک ملزم سیف الرحمن کو بری کیا گیا، اس ریفرنس میں ملزم کی طرف سے اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کرنے کا کوئی ریکارڈ احتساب عدالت میں دستیاب نہیں ہے۔ آن لائن کے مطابق جے آئی ٹی نے وزیراعظم نوازشریف کے خلاف نیب، ایف آئی اے اور ایس ای سی پی میں ماضی میں درج شدہ32مقدمات کے ریکارڈکو بھی تحقیقات میں شامل کیاہے۔

ان میں مختلف محکموں میں ہزاروں سرکاری ملازمین کو نکال کر پسندیدہ لوگوں کی بھرتیاں، خراب یوریا کھادکی خریدو فروخت کے ذریعے158ملین نقصان، غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس کو فریزکرنے کے رازکو لیک کرنے اور500ملین ڈالر بیرون ملک بھجوانے،کینیا میں2 شوگر ملیں لگانے، رائے ونڈ اسٹیٹ کو مختلف محکموںکے ذریعے سہولتیں فراہم کرنے، بی ایم ڈبلیو کاروں کی درآمد، چین سے ناقص کھادکی درآمد شامل ہیں۔ میسرز ریڈکو کو 15 ایکڑ اراضی دینے، برڈلاج مری کی خریداری، موٹروے ایم 2 میںشجرکاری میں غفلت، پی آئی اے میں غیرقانونی بھرتیاں، ایل ڈی اے میں غیر قانونی الاٹمنٹس، اپنی کمپنی کیلیے گندم برآمدکے کنٹریکٹ میں اختیارات کا ناجائزاستعمال، حدیبیہ انجینئرنگ کمپنی میں نامعلوم ذرائع سے اثاثوںکا حصول، رائے ونڈ میں زمین کی خریداری میں نامعلوم ذرائع سے سرمائے کا حصول، شریف ٹرسٹ کا معاملہ، رائے ونڈ اسٹیٹ میں سڑک کی تعمیر میں اختیارات کا ناجائز استعمال، فلیٹ، مینشن اور عمارتوںکی تعمیر، ایل ڈی اے میں غیرقانونی الاٹمنٹس کے علاوہ ایف آئی اے میں حدیبیہ انجینئرنگ کے خلاف ایف آئی آر نمبر 12 اور 13(1994)اور ایس ای سی پی میں رمضان شوگرمل اور چوہدری شوگرمل کے خلاف تحقیقات بھی شامل ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں