معاشی نمو اور روزگار کے ذرایع
پاکستان میں روزگار کے نئے ذرایع اسی صورت میں پیدا ہوسکتے ہیں، جب حکومت صنعتکاری میں اضافہ کے لیے مناسب ماحول پیدا کرے
LONDON:
ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت اور بے روزگاری معاشی سے زیادہ سیاسی اورسماجی معاملہ ہے،جسے سیاسی عزم کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔دنیا میں ایسے کئی ممالک موجود ہیں جنہوں نے وسائل کی کمی کے باوجود فعال منصوبہ بندی اور حکمت عملیوں کے ذریعے ان مسائل پر قابو پالیا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاشی نموکے متبادل ذرایع دریافت کرکے روزگارکی شرح میں اضافہ ممکن ہے۔جس کے نتیجے میں غربت کاخاتمہ یا اس میںکمی ممکن ہے۔یہی سبب ہے کہ دنیا میں سیاست کا رجحان تبدیل ہو رہا ہے اور روایتی سیاست کے بجائے ٹیکنو پالیٹکس(Techno-politics) اپنی جگہ بنارہی ہے۔جس کے ذریعے دنیا بھر میں حکومتیں ماہرین کی مدد سے ایسے منصوبوں پر عمل کر رہی ہیں،جس سے کثیر الجہتی ترقی کی راہیں کھل رہی ہیں اور روزگار اور غربت کے مسائل حل ہونے کی وجہ سے عوام کا معیار زندگی بہتر ہو رہا ہے۔ مگر ہمارے یہاں آج بھی سیاست کا محور شخصیات ہونے کے باعث ہم روایتی سیاست کی مضبوط گرفت سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔یوں فکری،سیاسی اور انتظامی طور پر ایڈہاک ازم میں مبتلاہونے کی وجہ سے ہم بہتر منصوبہ بندی اور پالیسی سازی نہیں کر پا رہے۔جس کے نتیجہ میں روزگار کے ذرایع سکڑے ہیں اورمعیشت کے ساتھ سماجی بدحالی میںاضافہ ہورہاہے۔سیاسی رسہ کشی میں مبتلاسیاسی جماعتوں کو اس پہلو پر غور کرنے کی فرصت نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ(پائلر)نے Jobs & Growthکے عنوان سے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا۔جس میں پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹرندیم الحق کلیدی مقرر تھے۔جب کہ ڈاکٹر قیصر بنگالی اور معروف صنعتکار ماجد عزیز شریک مقرر تھے۔اس مذاکرے میں ڈاکٹر ندیم الحق تو موضوع سے انصاف نہیں کرسکے۔ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ حکومت اور حکومت کے زیر انتظام چلنے والے منصوبہ بندی کے ادارے ہنوز کنفیوژن کاشکارہیں۔جس کی وجہ سے صحیح سمت میں منصوبہ بندی کی توقع نہیںکی جاسکتی۔جہاں تک ماجد عزیزکی گفتگوکاتعلق ہے،تو ایک روایتی صنعتکار ہونے کے ناتے ان کی گفتگو بھی گلے شکوے سے آگے نہیںبڑھ سکی اور وہ روزگار میں اضافے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ پیش کرنے میں ناکام رہے ۔البتہ ڈاکٹرقیصر بنگالی نے اس موضوع پر بعض اہم حقائق سے پردہ اٹھایااور چونکادینے والے اعدادوشمار پیش کیے۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اپنیPresentation میں پاکستان میں جاری معاشی نمو کے ماڈل کوفرسودہ قراردیتے ہوئے اس میں تبدیلی پر زور دیا۔ان کا کہناتھا کہ پبلک سیکٹرکی فرسودگی اورنجی شعبے کی کمزوری کے سبب ترقیاتی اہداف حاصل نہیں ہورہے۔ان کاکہناتھا کہ 1960ء کے عشرے میں PIDCقائم کرنے کا مقصد نجی شعبہ کوعوامی ضروریات کی صنعتیں لگانے میں پبلک سیکٹرکاماہرانہ تعاون فراہم کرناتھا۔اگراس ادارے کو انھی اہداف کے ساتھ ایک بار پھر فعال کرکے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں صنعتکاری کے عمل کوفروغ دیا جائے تو معاشی نموکی رفتار کو تیز اور روزگار کے مسائل کوباآسانی حل کیاجاسکتاہے۔اس سلسلے میں انھوں نے حیدرآباد،میرپورخاص ہائی وے کی مثال دی،جو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں تعمیر کی گئی ہے۔یہ ایک عمدہ ہائی وے ہے، جسکی تعمیر پرحکومت کا خرچ بہت معمولی ہے،جب کہ سڑک تعمیر کرنے والی کورین کمپنی30سال کے دوران ٹول ٹیکس کے ذریعے اپنے حصے کی رقم اور منافع حاصل کرے گی۔ انھوں نے معیشت کی بہتری کے لیے چار تجاویز دیں۔اول،نموپذیر(Productive)سرمایہ کاری۔ دوئم، تیز رفتار صنعتکاری۔ سوئم، ریلوے کی ازسرنو فعالیت اور چہارم،بجلی اور تونائی کے بحران پر قابوپانے کے لیے تھرکول کا استعمال۔
درج بالاگفتگو کے تناظر میں پاکستان کودرپیش مسائل اورترقی معکوس کا جائزہ لیاجائے،تو چار بنیادی اسباب سامنے آتے ہیں۔اول،نظم حکمرانی کا بحران۔ دوئم،فرسودہ تعلیمی نظام۔سوئم،اقتدارو اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی راہ میںحائل رکاوٹیں۔چہارم،غیر متوازن خارجہ اور مالیاتی پالیسیاں۔لیکن ان تمام خامیوںاور خرابیوں کی جڑ نظم حکمرانی کا بحران ہے۔پاکستان میں 65 برسوں کے دوران شہید ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت کے سوا کوئی بھی ایسی حکومت قائم نہیں ہوئی،جو عوام کے جذبات واحساسات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔اس لیے کسی بھی سطح پر ترقی دوست منصوبہ بندی نہیں ہوسکی۔ابتدائی دس برسوں کے دوران نوآبادیاتی دور کی انتظامیہ نے ملک کو انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت جیسے تیسے چلایا۔ایوب خان کے دور سے حکمرانی کا زوال شروع ہوا،جو بھٹودور میں کسی حد تک رکا رہا،لیکن جنرل ضیاء کے دور میں ایک بار پھر تیزی سے شروع ہوگیا،جو آج تک جاری ہے۔فوجی حکومتوں کے علاوہ سیاسی حکومتیں بھی اس ویژن سے عاری رہیں، جو ترقیاتی منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔مثلاً ابتدائی برسوں میں شروع ہونے والی پنج سالہ منصوبہ بندی اب ختم کردی گئی۔جس کی وجہ سے ترقیاتی منصوبہ بندی ایڈہاک بنیادوں پرہو رہی ہے۔دوسرے ملک میں 1981ء کے بعدصرف ایک بار 1998ء میںمردم شماری ہوئی ہے۔اس کے بعد سے آج تک مردم شماری نہیں ہوسکی۔نتیجتاً وسائل کی مناسب تقسیم سمیت بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔اس کے علاوہ بیشتر ریاستی امورچلانے کے لیے Strategyتیارکرنے کے بجائے محض tactics کے ذریعہ چلائے جا رہے ہیں۔لہٰذا پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے نظم حکمرانی میں کلیدی تبدیلیاں ضروری ہوگئی ہیں۔
پاکستان کا دوسرا مسئلہ نظامِ تعلیم کا زوال پذیرہونا ہے۔پاکستان میں ابتدائی دس برس تک نوآبادیاتی دور کا نظام تعلیم چلتا رہا۔ایوب خان نے نظام تعلیم پر پہلاتجربہ کیا اور نصاب تعلیم کوجدید بنانے کے بجائے اسے اپنے مفادات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔مرحوم ذوالفقار علی بھٹونے نجی تعلیمی اداروںکوقومیاکرعام آدمی کی تعلیم تک رسائی کویقینی بنانے کی کوشش کی مگر ساتھ ہی اساتذہ کی سیاسی بنیادوں پر تقرری کی بدعت بھی شروع ہوئی۔تعلیم کی تباہی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ نجی تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لیے ایک طریقہ کار موجودتھا۔ جنرل ضیاء الحق نے جس بھونڈے انداز میں تعلیمی اداروں کی نجکاری کی اور جس اندازمیں نئے نجی تعلیمی اداروں کے قیام کی اجازت دی اس نے تعلیم کے نظام کو مزید تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا۔ ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت ملک میں چار مختلف نظام تعلیم چل رہے ہیں، مگر کسی ایک میں بھی قومی ضروریات کے مطابق ڈیلیور کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ ملک کے تمام سیکنڈری بورڈز کے تیس سال کے نتائج پر نظر ڈالی جائے تواندازہ ہوگا کہ 1984ء تک پہلی دس پوزیشنز سرکاری اسکولوں سے آتی تھیں۔ پھر سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی بھرتی میںسیاسی مداخلت اور محکمہ تعلیم میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور کرپشن کی وجہ سے سرکاری اسکول تباہی کے دہانے پر جا پہنچے اور تعلیم کے نام پر دکان سجانے والوں کی چاندی ہوگئی۔
ترقی کی راہ میں تیسری رکاوٹ اقتدار واختیارکی مرکزیت ہے۔ پاکستان میںسیاسی حکومتوں نے اقتدار واختیار کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔بلکہ فوجی حکومتوں نے جو نظام دیا،اسے بھی سبوتاژکرنے کاکوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔اقتدار واختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کے بغیرسماجی ترقی اور شراکتی جمہوریت کے فروغ کی توقع نہیں کی جاسکتی۔یہ بھی طے ہے کہ امن وامان کی صورتحال میں بہتری ضلع کی سطح پرانتظامی اختیارات کی منتقلی سے مشروط ہوتی ہے۔ اس لیے اختیارات کی حقیقی معنی میں منتقلی معیشت کے استحکام اور روزگارکے نئے ذرایع کے لیے ضروری ہوچکی ہے۔
چوتھا مسئلہ خارجہ پالیسی کا ہے،جس پرغیر پیشہ ورانہ افراد کی گرفت کی وجہ سے اس پرسردجنگ کاMindsetحاوی ہے،جو اس کی فرسودگی اور غیر فعالیت کاسبب ہے۔یہی سبب ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی سرمایہ کاری میں اضافہ اور تجارت کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔اسی طرح مالیاتی پالیسی بھی غیر پیشہ ورانہ اندازمیں ایڈہاک بنیادوںپرچلائی جارہی ہے،جس کی وجہ سے سرمایہ کاری، صنعتکاری اور روزگار کے نئے ذرایع پیدا ہونے میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ہر حکومت روزگار کے نئے ذرایع پیداکرنے کے بجائے اپنے کارکنوں کوسرکاری اداروں اور پبلک سیکٹرکی کارپوریشنوں میں کھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔جس کی وجہ سے ایک طرف ان اداروں پر عملہ کا اضافہ اورغیر ضروری بوجھ پڑ رہا ہے اور دوسرے پیشہ ورانہ اہلیت میں کم افراد کی بھرتی کے نتیجے میں ان کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔
پاکستان میں روزگار کے نئے ذرایع اسی صورت میں پیدا ہوسکتے ہیں، جب حکومت صنعتکاری میں اضافہ کے لیے مناسب ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرے۔اس سلسلے میں انفرااسٹرکچر کو جدید بنانے،فنی تعلیم کوضروریات سے ہم آہنگ کرنے ،ٹیکس کے نظام میں کلیدی تبدیلیاں لانے اورامن وامان کی صورتحال کو بہتربنانے پرتوجہ دی جائے۔اس سلسلے میںPIDCکی دوبارہ فعالیت اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کومستحکم کرنے کی ڈاکٹرقیصر بنگالی کی حقیقت پسندی پر مبنی تجاویز پر عملد درآمد ضروری ہے۔ساتھ ہی پائلر کے ڈائریکٹرکرامت کی تجویز پر بھی توجہ دینا ضروری ہے کہ روزگار کولازمی طور پرشائستہ و باوقارDecentہونا چاہیے،کیونکہ جب تک روزگار کو باعزت نہیں بنایا جاتا،طبقاتی نظام میں تبدیلی کے آثار پیدا نہیں ہوسکتے۔