آخری باب

مسلم لیگ ن کے رویے سے عیاں ہے کہ قانون کی حکمرانی کا تصور ان کے نز دیک اہمیت نہیں رکھتا۔


اکرام سہگل July 15, 2017

پاکستانی تاریخ میں احتساب کی روایت کے اعتبار سے 10جولائی 2017کا دن دور رس اثرات مرتب کرے گا اور ممکن ہے کہ ملک کی منزل کے تعین میں بھی اس کی جھلک نظر آئے۔ پاناماگیٹ کی تحقیق کرنے والی جے آئی ٹی نے شریف خاندان کے ظاہر کردہ اثاثوں اور ذرایع آمدن میں بڑی عدم مطابقت کی نشان دہی کردی ہے۔

دستاویزات میں ردّوبدل، جعل سازی، حلف کے باوجود دروغ گوئی اور ریکارڈ میں تحریف جیسے الزامات کے ٹھوس شواہد اس رپورٹ میں پیش کیے گئے ہیں۔ جے آئی ٹی نے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کی ملکیت میں برطانیہ اور پاکستان کی کمپنیوں کے ذریعے''قرض اور تحائف کی شکل میں بھاری رقوم کی خلاف ضابطہ منتقلی'' کے ثبوت فراہم کیے ہیں۔سادہ سا سوال یہ ہے کہ مسلسل خسارے میں رہنے والے کاروبار سے اتنی بیش قیمت جائیدادیں کیسے خریدی جاسکتی ہیں؟

جے آئی ٹی میاں نواز شریف، ان کی اولاد حسن، حسین اور مریم نواز کے خلاف نیب کے ذریعے تفتیش کی تجویز پیش کرچکی ہے۔ تفتیش کے نتائج کو بیان کرتے ہوئے رپورٹ کے اختتامیے میں جے آئی ٹی نے قطری خط کو بھی محض فسانہ قرار دیا۔ متحدہ عرب امارات میں مزید ایک آف شور کمپنی ایف زیڈ ای کا بھی انکشاف ہوا ہے، نواز شریف 2014 تک جس کے چیئرمین رہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں نشان دہی کی گئی ہے کہ اپنے کاروبار سے حاصل ہونے والے حصے اور مالی فوائد کے علاوہ نواز شریف کے ذاتی بینک اکاؤنٹ میں ایسی رقوم کی منتقلی ہوتی رہی ہے جن کے ذرایع نامعلوم ہیں۔

وزیر اعظم اپنے اثاثوں کی تفصیل ظاہر کرنے میں غلط بیانی کے مرتکب بھی پائے گئے۔ وزیراعظم اور ان کے خاندان کے خلاف پاناما گیٹ کے بعد کھلنے والے پنڈورا باکس کے اثرات ''منی لانڈرنگ'' کی وجہ سے صرف پاکستان تک محدود نہیں رہیں گے۔ ممکنہ طور پر شریف خاندان کو برطانیہ، اقوام متحدہ اور سعودی عرب میں فوجداری مقدمات کا سامنے کے ساتھ ساتھ وہاں اپنے، اب تک کے پوشیدہ، اثاثوں کو بھی ظاہر کرنا پڑ سکتا ہے۔

مسلم لیگ نون کے سرکردہ راہنماؤں نے 20اپریل کے عدالتی فیصلے پر بنا سوچے سمجھے فتح کا جشن منایا۔ جب کہ دو معزز سینیئر جج صاحبان نے وزیر اعظم کو ''صادق اور امین'' ثابت نہ ہونے کی وجہ سے نااہل قرار دیا تھا۔ اپنے دو سنیئر ساتھیوں کی فیصلہ کُن رائے سے اختلاف کیے بغیر، بینچ کے دیگر جج صاحبان نے بھی وزیر اعظم کو بری نہیں کیا بلکہ جے آئی ٹی تشکیل دے کر ٹھوس شواہد جمع کرنے کے احکامات جاری کیے۔

نون لیگ کے بزرج مہر جب جے آئی ٹی میں اپنے پسندیدہ ارکان شامل کرانے میں ناکام ہوگئے تو اسے متنازع بنانے کے لیے سرگرم ہوئے۔ نون لیگ کے ارکان پارلیمنٹ نے جے آئی ٹی کے خلاف انتہائی نامناسب لب و لہجہ اختیار کیا۔ پراپیگنڈے کے لیے بشمول پی ٹی وی ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال کیا اور جے آئی ٹی خلاف نفرت انگیز فضا پیدا کرنے کی کوشش کی، جس کا اصل ہدف سپریم کورٹ ہی تھی۔ جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کیا گیا، ردّی قرار دیا گیا لیکن ہیجان برپا کرکے بھی حکومتی پارٹی اپنی حمایت میں عوام کو سڑکوں پر نہیں لاسکی۔ ''سازشیں'' ناکام بنانے کا عہد کرتے ہوئے بیرسٹر ظفر اﷲ نے جے آئی ٹی رپورٹ کے لیے ''سیاسی بیان'' اور ''عمران نامہ'' جیسی اختراعات تراشیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی ریاست کو مفلوج کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے حالات میں خانہ جنگی اور داخلی انتشار جیسی کوئی بھی صورت حال پیدا کی جاسکتی ہے۔

ان بنیادوں پر عدالت وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن میں ان کے کئی ساتھیوں کو انصاف کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور انصاف کے اداروں کو بدنام کرنے کی پاداش میں نااہل قرار دینے کا پورا اختیار رکھتی ہے۔ اس بات کے کافی ثبوت مہیا ہوچکے کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کے افراد نے غلط بیانی کی، تحقیقاتی عمل کو متاثر کرنے کے لیے اثر ورسوخ کے استعمال سے لے کر مالی وسائل تک ہر راستہ اختیار کیا۔ مسلم لیگ ن کے لیے اگر حکومت کا تسلسل چاہتی ہے تو نیا لیڈر منتخب کرنے کے سوا اب چارہ نہیں۔

بظاہر اپنی خاندانی سیاسی میراث کی وارث مریم نواز نے، 5جولائی کو جے آئی کی پیشی کے موقعے پر، اپنے سیاسی کرئیر کا آغاز ایک متاثر کُن پرفارمنس سے کیا۔ جے آئی ٹی نے انکشاف کیا کہ مریم نواز کی جانب سے جمع کروائی گئیں دستاویز میں، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ ''بینفشل اونر'' نہیں بلکہ ٹرسٹی ہیں، جعل سازی کی گئی۔ جس ''کیلیبری'' فونٹ میں یہ دستاویز لکھی گئی وہ اس وقت تک عوامی استعمال کے لیے دستیاب ہی نہیں تھا، جس دور میں اس دستاویز کا وجود ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ قانوناً یہ ایک جرم ہے، اس سے قطع نظر جے آئی ٹی مزید تفصیلات بتاتی ہے کہ معلوم ذرایع آمدن سے ہٹ کر مریم نواز 2009سے 2016کے دوران 73ملین سے 830ارب روپے کے بھاری تحائف وصول کرتی رہی ہیں۔

ان کا ابتدا میں ہی سیاسی کرئیر غیر یقینی ہوگیا لیکن مریم کو امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ن لیگ والے خود ہی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جب آصف زرداری صدر بن سکتے ہیں تو پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔ میڈیا میں جو لوگ عوام کو گمراہ کرتے رہے، ان کا فیصلہ بھی ہو جانا چاہیے۔ کیا گمراہ کُن پراپگنڈاپھیلانے والوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟ خبر لیک کے ایشو پر ٹھنڈے دل و دماغ سے حالات کا سامنا کرنے کا سہرا جنرل باجوہ(اور ان کی کمانڈ) کے سر جاتا ہے۔

مسلم لیگ ن کے رویے سے عیاں ہے کہ قانون کی حکمرانی کا تصور ان کے نز دیک اہمیت نہیں رکھتا۔ ن لیگ والے بلاجواز ملک میں سیاسی انتشار پیدا کرسکتے ہیں۔ ان کا طرز بیاں نفرت انگیز ہے جو کشیدگی کو اُس سطح پر لے جاسکتاہے، جہاں کئی ممالک داخلی انتشار کا شکار ہوچکے ہیں۔ لیکن انھیں اس کی کب پروا رہی؟آئین کی پاسداری، سویلین اتھارٹی کے لیے ایسے سخت اقدامات کی ضرورت پڑتی ہے جن کا مقصد شہریوں کا تحفظ کے ساتھ ساتھ جمہوریت کا تحفظ بھی ہوتا ہے۔

نظام انصاف کی کڑی آزمائش شروع ہوچکی۔ جب تک مجرم ثابت ہونے والوں کو ، چاہے وہ امیر ہوں یا غریب، سزا نہیں دی جاتی، عدل قائم نہیں ہوگا؟ سچائی کے معاملے وزیر اعظم مفلس پائے گئے ہیں ، کیا اب اپنی اس اخلاقی حیثیت سے وہ حکمرانی کے قابل رہے ہیں؟ عدالتوں میں مزید تضحیک کا سامنا کرنے کے بجائے میاں نواز شریف کا مستعفی ہونا ہی ان کے (اور پاکستان کے) حق میں بہتر ہے۔ وزیر اعظم کے جو ساتھی سپریم کورٹ کو دھمکا رہے ہیں وہ ان کے خیر خواہ نہیں۔ بالآخر اس قصے کا آخری باب عدالت ہی میں رقم کیا جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے ''قرعہ فال'' کس کے نام نکلتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں