مہدی حسن کی ہم قدر نہ کرسکے حصہ اوّل
مہدی حسن کی قبرکے آس پاس جھاڑ جھنکار کو دیکھتے ہوئے بھی اس کے عقیدت مند تو الگ بات ہے
ISLAMABAD:
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم طلسماتی آواز کے مالک عظیم گلوکار مہدی حسن کی قدر نہ کرسکے۔ گزشتہ دنوں اس مہان گائیک کی پانچویں برسی بڑی خاموشی سے گزر گئی اور ان کے صاحبزادوں نے بڑے دکھ کے ساتھ اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ سندھ حکومت نے لیجنڈ گلوکار مہدی حسن کے انتقال کے موقعے پر جو اعلانات کیے تھے کہ حکومت جلد ہی اس مایہ ناز گلوکار کے شایان شان قبر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ایک یادگار بھی تعمیر کریں گے اور مہدی حسن کے نام سے ایک اکیڈمی اور ایک لائبریری کا بھی جلد ہی قیام عمل میں لایا جائے گا تاکہ ان کے بے شمار مداحوں اور عقیدت مندوں کو مہدی حسن کے متعلق ایک اچھا تاثر ملے گا مگر ' ہنوز دلی دور است ' کے مصداق حکومت کے اعلانات ڈھاک کے تین پات ہی ثابت ہوئے ہیں گزشتہ ماہ ان کی پانچویں برسی تھی۔
ان کے چند عقیدت مندوں کو سوشل میڈیا پر ان کی قبر پر فاتحہ پڑھتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور میں مہدی حسن کی قبر کے ایک طرف سے ٹوٹے ہوئے کتبے کو دیکھ رہا تھا اور مجھے بھی بہت دکھ ہو رہا تھا کہ جس حکومت کے وزیروں کے گھروں سے اربوں روپے کرپشن کے ضمن میں دستیاب ہوئے ہوں، اس حکومت کو چند لاکھ روپے مہدی حسن کی قبر کو بہتر انداز سے تعمیر کرنے پر کَھل رہے ہیں ۔
مہدی حسن کی قبرکے آس پاس جھاڑ جھنکار کو دیکھتے ہوئے بھی اس کے عقیدت مند تو الگ بات ہے اس صورتحال پر مہدی حسن کی قبر اپنی جگہ خود نوحہ کناں تھی اور میں سوچ رہا تھا اے کاش یہ اس ملک کا فنکار نہ ہوتا اس بات میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ اگر یہی لاجواب گلوکار ہندوستان کا فنکار ہوتا اور وہیں اس کا انتقال ہوتا اور وہیں اس کا مزار بنتا تو اس کے ہزاروں عقیدت مند اس کو سروں کا دیوتا مان کر اس کے بت بناکر مندر میں رکھ دیتے اور اس کی پوجا کرنے سے بھی پیچھے نہ ہٹتے۔
مہدی حسن ایک ایسا گلوکار تھا جسے اس صدی تو کیا آیندہ صدی میں بھی اس کی گائیکی کو چھو نہ سکے گا۔ ساری دنیا میں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے ان کے گیتوں اور غزلوں نے دنیا بھر میں اردو زبان کو فروغ دیا ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے حکمران اور بادشاہ آئے اور خاموشی سے چلے گئے اور سب ہی پیوند خاک ہوجاتے ہیں اور دنیا سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں۔ ان کا کوئی نام لیوا نہیں ہوتا ہے مگر مہدی حسن کا نام ایک ایسا نام ہے جو موسیقی کی دنیا میں بھی سدا زندہ رہے گا اور ان کی آواز کا جادو بھی ہمیشہ دلوں میں روشن رہے گا۔
ان کی آواز لاکھوں دلوں کو برسوں مہکاتی رہے گی یہ وہ مہدی حسن ہے جس کے بارے میں شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض نے جب ان سے کوئی ان کی غزل ''گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے'' سنانے کی فرمائش کرتا تھا تو انھوں نے کہا تھا ارے بھئی! اب اس غزل کی فرمائش مجھ سے نہ کیا کرو اس غزل کا مالک اب مہدی حسن ہے۔ اب یہ غزل اس کی طلسماتی آواز میں ہی دلوں کو گرماتی ہے۔ یہ وہ مہدی حسن ہے جس کے بارے میں نامور شاعر احمد فراز سے ہندوستان کے ایک مشاعرے کے موقعے پر چند نوجوانوں نے جب یہ کہا کہ فراز صاحب آپ رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ جیسی کوئی غزل ہمارے کسی ہندوستانی غزل سنگر کے لیے بھی کبھی لکھ کر دیں تو فراز نے یہ کہہ کر ان نوجوانوں کے منہ بند کردیے تھے کہ دوستو! میں ایک ایسی ہی غزل لکھ کر تو دے دوں گا مگر تم دوسرا مہدی حسن کہاں سے لے کر آؤ گے جو اس کو سروں کا حسن بخشے گا۔
یہ وہ مہدی حسن ہے جب مہدی حسن پاکستان میں سخت بیمار ہوئے تھے اور اسپتال میں انھیں داخل کرایا گیا تھا تو پاکستان اور ہندوستان میں مہدی حسن کے دیوانوں کو بڑی فکر ہوگئی تھی اور اس دوران ہندوستان کے ایک لیجنڈ شاعر اور گیت نگار گلزار نے مہدی حسن سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے ایک خوبصورت نظم کہی تھی۔ جو میں قارئین کی نذر کر رہا ہوں:
آنکھوں کو ویزہ نہیں لگتا
سپنوں کی سرحد نہیں ہوتی
بند آنکھوں سے روز میں چلا جاتا ہوں
سرحد پار ملنے مہدی حسن سے
سنتا ہوں ان کی آواز کو چوٹ لگی ہے
اور غزل خاموش ہے سامنے بیٹھی ہوئی ہے
کانپ رہے ہیں ہونٹ غزل کے
لیکن ان آنکھوں کا لہجہ بدلا نہیں
جب کہتے ہیں
سوکھ گئے ہیں پھول کتابوں میں
یار فراز بھی بچھڑ گئے ہیں
اب شاید ملیں گے خوابوں میں
بند آنکھوں سے روز چلا جاتا ہوں ملنے
مہدی حسن سے
سپنوں کی سرحد نہیں ہوتی
آنکھوں کو ویزہ نہیں لگتا
یہ وہ مہدی حسن ہے جس کے بارے میں ہندوستان کی نامور گلوکارہ لتا منگیشکر نے کہا تھا کہ خاں صاحب مہدی حسن جیسے گائیک اس صدی میں تو کیا آیندہ صدی میں بھی شاید ہی پیدا ہوں وہ ایک ایسے گلوکار ہیں جن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے ۔ ان کی آواز ایک ایسی روشنی ہے جو ان گنت چراغوں کو روشنی دے رہی ہے اور روشنی کو موت نہیں آتی ہے روشنی تو ہمیشہ زندہ رہتی ہے واقعی مہدی حسن ایک ایسے گلوکار کا نام ہے جسے سر خود سلام کرتے تھے اور راگ و راگنیاں ان سے ہم کلام ہوتی تھیں ملکۂ ترنم نور جہاں نے بھی مہدی حسن کے بارے میں کیا خوبصورت بات کہی تھی کہ جو لوگ سریلے ہوتے ہیں ان کے آباؤ اجداد نے ضرور موتی دان کیے ہوتے ہیں، مہدی حسن کے بزرگوں نے ضرور ایسا کوئی کام کیا ہوگا کہ ان کے گھر مہدی حسن جیسی انتہائی سریلی آواز نے جنم لیا۔
مہدی حسن کی جادو بھری آواز نے بڑے بڑے شاعروں کو خواص کے محدود طبقے سے عوام کے دلوں تک پہنچایا اور ان کے خوبصورت کلام کے حسن سے عوام کو روشناس کرایا، بہت سے شاعر کتابوں سے نکل کر لوگوں کے گلی کوچوں تک صرف مہدی حسن کی آواز کی بدولت پہنچے۔ مہدی حسن ایک ایسے گلوکار تھے جنھیں محلوں میں رہنے والے بھی بڑے فخر سے سنتے تھے اور کچے مکانوں میں رہنے والے بھی بڑی محبت سے سنتے تھے۔ اس آواز کی گونج بڑے بڑے ریستورانوں سے لے کر عام چائے خانوں تک میں سنی جاتی تھی۔
مہدی حسن کا تعلق راجستھان سے تھا اور ان کے آباؤ اجداد کو نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں مہدی حسن کی وجہ سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ یہ آواز ہندوستان ہی سے پاکستان پہنچی تھی۔ مہدی حسن کو فلمی دنیا میں لانے والے موسیقار رفیق غزنوی تھے جنھوں نے سب سے پہلے کراچی کی ایک فلم ''شکار'' میں مہدی حسن کی آواز میں ایک غزل ریکارڈ کی تھی جس کے بول تھے:
میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے
اس غزل میں آواز کی انفرادیت نے موسیقی کے حلقوں کو چونکا دیا تھا پھر جب ہدایت کار بٹ کاشر کی فلم ''ہمیں جینے دو'' میں مہدی حسن کی گائی ہوئی ایک اور غزل منظر عام پر آئی جس کا مطلع تھا:
الٰہی آنسو بھری زندگی کسی کو نہ دے
خوشی کے بعد غمِ بے کسی کسی کو نہ دے
اور جیسے ہی مذکورہ غزل ریڈیو سے نشر ہوئی لوگوں کے دلوں میں اترتی چلی گئی تھی اور جب فیض احمد فیض کی غزل:
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
کو لوگوں نے ریڈیو سے سنا تو پھر اس غزل نے پاکستان سے لے کر ہندوستان تک موسیقی کے حلقوں میں ایک دھوم مچادی تھی۔ یہ غزل فضاؤں میں خوشبو کی طرح بکھر گئی تھی۔ اس غزل نے مقناطیس کی طرح لوگوں کے دل اپنی طرف کھینچ لیے تھے۔
اور اس غزل کی شہرت کے ساتھ ہی مہدی حسن نے لاہور کی فلم انڈسٹری میں قدم رکھا تھا۔ وہ زمانہ سلیم رضا اور منیر حسین کا زمانہ تھا مگر مہدی حسن کی مدھر اور سریلی آواز نے ساری فلمی دنیا کو اپنی طرف کرلیا تھا۔ لاہور کا ہر بڑا موسیقار مہدی حسن کی آواز کا دیوانہ ہوگیا تھا مہدی حسن کے گانے کا ڈھنگ اور اسلوب ہی سب سے جدا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ فلمی دنیا کا ہر لیجنڈ ہیرو یہ خواہش کرتا تھا کہ اس کے لیے مہدی حسن کی آواز ہی کو لیا جائے گا۔
محمد علی، ندیم، وحید مراد اور شاہد ہر ہیرو کی آواز کے لیے زیادہ تر مہدی حسن کی آواز کا ہی انتخاب کیا جاتا تھا۔ اور پھر اس دور میں میڈم نور جہاں کے ساتھ جتنے بھی ڈوئیٹ ریکارڈ کیے گئے مہدی حسن اور نور جہاں کی آوازوں میں ان گیتوں کا کوئی نعم البدل سامنے نہ آسکا۔ میڈم نور جہاں خود بھی مہدی حسن کی آواز کی دل سے قدر کرتی تھیں۔
(جاری ہے)