جے آئی ٹی کا ہنگامہ

عمران خان لڑے جا رہے ہیں استقامت کے ساتھ اور ان کی ٹیم بھی ان کے ساتھ کھڑی ہے۔


فرح ناز July 15, 2017
[email protected]

KARACHI: پانامہ سیریزکے بعد جے آئی ٹی رپورٹ ہنگامہ اپنے عروج پر ہے سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی نے جوکام کیا ہے اس کو لوگ برسوں یاد رکھیں گے، اگر عدلیہ کی جانب سے اس رپورٹ کے ساتھ اتفاق کر لیا گیا اور یہ کہا گیا کہ ہمارے وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے تو پھر یقیناً ہمارے وزیر اعظم کو بے حد افسردگی کے ساتھ کرسی چھوڑنا پڑے گی ۔ اپنی تقریر میں وزیر اعظم یہ فرما چکے ہیں کہ اگر ان پر کچھ ثابت ہوتا ہے تو وہ لمحہ بھی نہیں لگائیں گے اور استعفیٰ دے دیں گے۔

طاقت اور وزارت ایک ایسا سرور ہے جو کوئی بھی آسانی سے چھوڑنے پر تیار نہیں۔ وزیر اعظم ہی نہیں ان کے صاحبزادوں اور صاحبزادی پر بھی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں الزامات ہیں۔ ایک ایک کرکے تمام ارکان کو جے آئی ٹی بلایا گیا وہ گئے اور بیانات بھی دیتے گئے۔ اب رپورٹ آنے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ یہ ردی پیپر ہے، یہ جھوٹ کا پلندہ ہے، اتنا تماشا دیکھنے کے بعد اب یقین ہوچلا ہے کہ سیاستدان عوام کو کتنا بے وقوف اور فارغ العقل سمجھتے ہیں، اتنی سچائیاں کہ ہر جگہ سے اس کی آوازیں آرہی ہیں، چینلز میں بیٹھ کر اپنے آپ کو ایمان دار اور معصوم ہی بتایا جا رہا ہے۔

کس طرح ان کو سمجھایا جائے کہ پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا سبب بننے والے واقعات میں سے شاید ایک یہ واقعہ بھی ہوجائے۔ پاکستان کی اتنی رسوائی شاید اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی، بات پریشانی کی ہے کہ ملک کے اعلیٰ عہدے پر فائز وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ پر ایک رپورٹ Investigate کرنے کے بعد کہے کہ ان کے کیسز نیب میں بھیجے جائیں، ان کا لائف اسٹائل ان کی ظاہر کی گئی کمائی سے کہیں زیادہ ہے، لندن کے فلیٹس اور شاید اربوں روپے اور ڈالرز کے مالکان پر منی ٹریل ثابت ہوگیا اور اس رپورٹ پر سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے، یہ دیکھنا باقی ہے۔

ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ جن کو عوام اپنے ووٹ اور بھروسے سے لے کر آئے ہیں وہی لوگ اس نہتے عوام کو بھوکا ننگا کرکے رکھ دیتے تھے۔ اپنے علاج و معالجے کے لیے امریکا لندن کے مہنگے مہنگے بڑے بڑے اسپتال اور اس سونا اگلتی ہوئی زمین کے عوام کے لیے نہ اسپتال، نہ علاج و معالجہ، نہ تعلیم، نہ صاف پانی اور نہ سکون سے جینے کا سامان۔

الیکشن کی تیاری کے زمانے میں مسلم لیگ ن کے رہنما اپنی دھواں دھار تقاریر میں فرماتے تھے کہ زرداری صاحب نے جو کرپشن کی ہے اور جو پیسہ پاکستان سے لوٹا ہے باہر کے بینکوں میں رکھا ہے وہ تمام پیسہ واپس پاکستان لائیں گے، بدقسمتی سے وہ یہ تو نہ کرسکے اور نہ اپنی تقاریر میں کیے گئے وعدے پورے کرسکے بلکہ اب ہر زبان پر ثبوت کے ساتھ ان کے خاندان کے منی ٹریل کے چرچے عام ہیں، سب کے سب ایک ہی ڈگر پر چلنے والے، کسی نے بھی پاکستان کا مخلص بیٹا بن کر نہ دکھایا۔ ہوس اور لالچ تو کبھی بھر نہیں سکتا ہے، مگر کروڑوں لوگوں کے حقوق غصب کرنا، کروڑوں لوگوں کو ان کی بنیادی سہولتوں سے محروم کرنا یہ کہاں کا انصاف ہے۔

صرف چند لوگ بادشاہوں کی زندگی گزاریں وہ بھی ان ہی کروڑوں عوام کے پیسے پر بڑے بڑے پروٹوکول سے ٹریفک بند، راستے بند، حاملہ خواتین نے رکشوں میں بچے پیدا کیے، مریض اسپتال پہنچتے پہنچے دم توڑ گئے، کئی اموات اس لیے ہوئیں کہ بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کی گئیں، ماؤں نے اپنی اولادوں کے ساتھ دریاؤں میں چھلانگ لگا کر جان دی، غربت و افلاس اور ٹیکس پر ٹیکس لگا کر عوام کی زندگی مشکل ترین کردی گئی۔ اسحق ڈار فرماتے ہیں کہ میرا ٹرسٹ 100 لوگوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ یہ وزیر خزانہ کیا صرف 100 لوگوں کے لیے بنے ہیں، ٹیکس کروڑوں لوگوں پر لگا ہے تو فائدہ بھی کروڑوں کو ملنا چاہیے۔

ٹی وی چینلز کو بہترین انٹرٹینمنٹ چینلز بھی ان لوگوں کی اداکاری اور ان لوگوں کے خطبوں نے بنایا ہے، ایک تماشا ہے جو چوبیس گھنٹے چینلز پر لگا رہتا ہے، ٹیپو سلطان نے کہا گیدڑ کی 100 سال کی زندگی سے بہتر ہے شیر کی ایک دن کی زندگی۔ یہی لوگ جو گیدڑوں کی زندگی گزار رہے ہیں انھی لوگوں نے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کام بھی کیا ہے۔ جے آئی ٹی ایک سخت رپورٹ ہے اور اخلاقی طور پر وزیر اعظم کو مستعفی ہوجانا چاہیے، لیکن اگر ان کو اخلاقیات ہی دکھانی ہوتی تو بہت پہلے دکھا چکے ہوتے۔ اس کا مطلب ہے آیندہ بھی نہیں ہوگا استعفیٰ نہیں ہوگا ہاں! اگر سپریم کورٹ نے آرڈر کردیے تو کچھ ہوسکتا ہے، دو ججز تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے، اس رپورٹ سے تمام ججز متفق ہوگئے تو گویا گھر کا راستہ۔

عمران خان لڑے جا رہے ہیں استقامت کے ساتھ اور ان کی ٹیم بھی ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ عمران خان کا موقف ہے کہ اب نہ صرف وزیر اعظم بلکہ شہباز شریف، اسحق ڈار وزیرخزانہ اور قومی اسمبلی اسپیکر ایاز صادق بھی استعفیٰ دیں۔ دھرنے کے 126 دنوں میں عمران خان الزامات لگاتے رہے اور تمام پارٹیز حکومت کے ساتھ کھڑی ہوکر اس کو مضبوط کرتی رہیں، اب جب کہ عمران خان خود کو فاتح سمجھ رہے ہیں تو پیپلز پارٹی، عمران خان کی طرف لٹکتی نظر آتی ہے مفادات کی اس جنگ میں اخلاقیات کہاں سے آئیں گی، کہنے والے کہتے ہیں کہ آج حکومت کا حساب ہو رہا ہے کل عمران خان، پھر آصف زرداری، تو بھائی اس میں برائی کیا ہے؟

ملک سے محبت، عوام سے محبت، لوگوں کے لیے فلاح و بہبود کون سکھائے گا، ہمیں، جھوٹ در جھوٹ، دولت کے پہاڑ در پہاڑ کہاں لے کر جائیں گے یہ لوگ۔ اتنی محنت اگر یہ تمام لوگ پاکستان کی ترقی کے لیے کرتے، پاکستانی عوام کی تعلیم کے لیے کرتے بنیادی ضرورتوں کے لیے کرتے تو آج پاکستان کہاں سے کہاں جاتا شاید اس سے کہیں زیادہ دولت یہ لوگ باہر ممالک میں لے جاسکتے، تاریخ میں اچھے کردار اور اچھے ناموں سے پہچانے جاتے، اور پھر سارا الزام عمران خان کو دینا، کس نے کہا تھا کہ لندن میں فلیٹس خریدو۔ جرم کریں آپ اور الزامات لگائیں ان لوگوں پر جنھوں نے یہ جرم عوام الناس کے سامنے کھول کر رکھ دیے۔ اللہ پاک ہم سب پر رحم فرمائے اور نبیوں کی زندگیوں کو ہمارے لیے نمونہ بنائے (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں