بھٹو کے بعد نواز شریف
ملک کو خطرے میں دیکھ کر حب الوطنی سے سرشار میاں صاحب نے تمام مغربی دھمکیوں کو نظر انداز کردیا
ملک کے دو لخت ہونے کے بعد ملک جس تباہی اور صدمے سے دو چار ہوا تھا، اقتدار سنبھال کر شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اس کی تلافی کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ بھارت سے با وقار مذاکرات کے ذریعے کھوئی ہوئی زمین واپس لے لی اور ساتھ ہی نوے ہزار فوجیوں کو واپس لانے میں کامیاب ہوگئے۔
یہ مرحلہ ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کا تھا اس لیے آدھا ملک توڑنے کے بعد دشمن کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے تھے کہ وہ بقیہ ملک کو بھی ہڑپ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگا، حربی طاقت بڑھانے کے لیے اسلحہ ساز فیکٹریوں میں نئی جان ڈالی گئی۔ ملک کو دشمن سے محفوظ بنانے کے لیے آخری حربے کے طور پر ایٹم بم بنانے کا منصوبہ بنایا گیا۔عوامی تائید حاصل کرنے کے بعد بھٹو نے بہ بانگ دہل اعلان کیا کہ ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم تیار کرکے رہیںگے اور یہ صرف بیان بازی نہیں تھی اور نہ ہی عوام کو خوش کرنے کی کوئی سیاسی چال تھی۔
سنجیدگی سے ایٹم بم بنانے کی شروعات کردی گئی مگر پاکستان کے ایک اسلامی ملک ہوتے ہوئے اس کا ایٹمی قوت بننا بھلا سامراجی ممالک کو کیسے برداشت ہوسکتا تھا۔ حالانکہ اس سے قبل 1974 میں بھارت اپنا پہلا ایٹمی دھماکا کرچکا تھا۔ یہ دھماکا بھی مغربی ممالک کے لیے کوئی اچھی خبر نہیںہونا چاہیے تھی مگر چونکہ بھارت اسلامی ملک نہیں ہے چنانچہ اس کے ایٹمی دھماکے کو قبول کرلیا گیا اور بعض اطلاعات کے مطابق مغربی ممالک کی طرف سے اندرا گاندھی کو مبارک باد کے پیغامات تک پہنچائے گئے۔
پاکستان کے ایٹم بم تیار کرنے کی خبریں رفتہ رفتہ مغربی ممالک تک پہنچنے لگیں۔ مغربی میڈیا نے اسے فوراً سلامی بم کا نام دے دیا اور پھر تمام ہی مغربی ممالک پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے لیے متحرک ہوگئے۔ امریکی حکومت اس مہم میں پیش پیش تھی۔ اس وقت کے یہودی امریکی وزیر خارجہ ہینری کسنجر کو پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا اسرائیل کے لیے خطرے کی گھنٹی لگنے لگا کیونکہ ایک یہودی ہونے کے ناتے اسرائیل تو ان کے دل میں بستا تھا۔
انھوں نے بھٹو کو براہ راست دھمکی دی کہ اگر ایٹم بم بنانے کی غلطی کی گئی تو نشان عبرت بنادیے جاؤگے مگر بھٹو نے اپنی جان اور اقتدار کی پرواہ نہیں کی اور ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کے جنون میں ایٹم بم بنانے کا کام پہلے سے زیادہ تیز کردیا۔ بالآخر بھٹو کو اپنوں ہی کے ہاتھوں ایٹم بم بنانے کی بھینٹ چڑھادیا گیا مگر بھٹو مرنے کے بعد بھی زندہ رہا اور اس نے جو ایٹم بم بنانے کا کام شروع کیا تھا وہ جاری و ساری رہا۔
ضیا الحق کے دور میں یہ کام پائے تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔ ملک کے مایہ ناز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنا فرض ادا کردیا تھا مگر ضیا الحق میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنی حکومت کو خطرے میں ڈال کر ایٹمی دھماکا کرسکتے۔ پھر بے نظیر کی حکومت کے اچانک خاتمے کے بعد میاں نواز شریف بھاری مینڈیٹ کے ساتھ وزیراعظم مقرر ہوئے۔ اسی وقت بھارت نے پوکھران میں کئی ایٹمی دھماکے کیے جن سے میاں صاحب کا جذبہ حب الوطنی جاگ اٹھا اور انھوں نے بھارتی دھماکوں کے جو اب میں پاکستانی ایٹمی دھماکے کرنے کی ٹھان لی۔
اس خبر پر تمام مغربی ممالک اکٹھے ہوکر میاں صاحب کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور انھیں ہر طرح کی دھمکیاں دی گئیں۔ ساتھ ہی لالچ بھی دی گئی کہ اگر ایٹمی دھماکا نہ کرو تو بڑے انعام و اکرام سے نوازے جاسکتے ہو، ساتھ ہی اقتدار کو بھی استحکام اور طوالت بخشی جاسکتی ہے مگر میاں صاحب کیسے مان جاتے کیونکہ بھارت اپنے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد پاکستان پر حملہ کرنے کا الٹی میٹم دینے لگا تھا۔ اس نے آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کا باقاعدہ منصوبہ بھی تیار کرلیا تھا اور اگرمیاں صاحب بروقت ایٹمی دھماکے نہ کرتے تو شاید بھارت پاکستان پر نہیں تو کم از کم آزاد کشمیر پر ضرور حملہ آور ہوجاتا۔
ملک کو خطرے میں دیکھ کر حب الوطنی سے سرشار میاں صاحب نے تمام مغربی دھمکیوں کو نظر انداز کردیا اور ان کی جانب سے ان کے اقتدار کو خطرات لاحق ہوسکتے تھے۔ انھیں بھی نظر انداز کرکے بالآخر 28مئی 1998 کو چاغی میں بھارت کے چھ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں سات ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ پھر کیا تھا تمام سامراجی ممالک ہاتھ دھوکر ان کے اور پاکستان کے پیچھے پڑ گئے۔ ایٹمی دھماکوں کی پاداش میں میاں صاحب کی بھاری مینڈیٹ کی حامل حکومت کو برخاست کردیا گیا اور بات یہاں تک ہی نہیں رکی بھٹو کی طرح انھیں پھانسی کے پھندے پر لٹکائے جانے تک جا پہنچی وہ تو بھلا ہو سعودی حکومت کا کہ جس نے انھیں بچالیا۔
اب انھیں اس وقت پھر ان ہی دھماکوں کی سزا دینے کی تیاریاں جاری ہیں۔ 2013 میں منعقدہ الیکشن میں بھاری مینڈیٹ لینے کے باوجود پہلے ان پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔ پورے ملک میں گو نواز گو مہم چلائی گئی۔ دھاندلی کے مقدمے عدالتوں میں دائر کیے گئے مگر ہر جگہ مخالفین کو منہ کی کھانا پڑی۔
اب میاں صاحب نے مغربی دنیا کی مرضی کے خلاف ایک نیا کام شروع کیا ہے اور وہ ہے چین کی شراکت داری سے گوادر بندرگاہ پر سی پیک منصوبے کی شروعات۔ ایٹمی دھماکے کرنے کی ابھی ان کو سزا پوری نہیں ہوئی تھی کہ انھوں نے سی پیک کے ذریعے مغرب کو مزید ناراض کرلیا ہے۔ چنانچہ نہ صرف میاں صاحب کی حکومت کے خلاف بلکہ سی پیک کا راستہ روکنے کے لیے دارالحکومت اسلام آباد میں تین مہینے سے زائد تک دھرنا دیا گیا، پورے ملک کو مفلوج کرکے رکھ دیا گیا۔
تمام معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں، سرکاری سرگرمیاں ٹھپ ہوگئیں۔ چینی صدر جو سی پیک کا معاہدہ کرنے اسلام آباد آنے والے تھے ان کا دورہ ناکام بنادیا گیا۔ اسی دوران اسمبلی پر حملہ کیا گیا، سرکاری ٹی وی پر قبضہ کیا گیا حکومت کے ختم ہونے کی گنتی شروع کردی گئی، مگر عوام نے اس سازش کوناکام بنادیا اب اس وقت ایک سیاسی جماعت ایڑھی چوٹی کا زور لگارہی ہے کہ کسی طرح میاں صاحب پاناما کیس کے ذریعے نا اہل قرار دے دیے جائیں۔
سپریم کورٹ نے حتمی فیصلے تک پہنچنے کے لیے اس کیس کو جے آئی ٹی کو ریفر کردیا تھا، مگر حکومتی حلقوں کی جانب سے جے آئی ٹی کے انداز تفتیش پر شکوک وشبہات اظہار کیا گیا۔ اب تو جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی ہے مگر اول تو حکومتی حلقوں کے مطابق رپورٹ پہلے ہی متنازع ہوچکی ہے دوسرے یہ کہ اس کے کام کے انداز سے ایسا لگتا رہا کہ تحقیقاتی عمل میں شریک کوئی ادارہ یا فرد معاملے کو پہلے ہی سے ایک طے شدہ مخصوص نتیجے تک پہنچانے کے لیے کوشاں رہا۔ حکومتی حلقوں کا موقف ہے کہ اس طرز عمل سے پوری رپورٹ غیر معتبر ہوچکی ہے۔
ایک سیاسی پارٹی کی جانب سے میاں صاحب کے خلاف اپنے تند وتیز بیانات کے ذریعے جے آئی ٹی کو مسلسل متاثر کرنے کا عمل جاری رہا تھا اب آخری بات یہ ہے کہ اگر مخالفین کی فرمائش پر میاں صاحب کی حکومت ختم کردی گئی تو ملک کا کیا بنے گا؟کیا ملک پھر انارکی کا شکار نہیں ہوجائے گا اور پھر کیا عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے گا؟ مگر ان سوالوں سے مخالفین کو کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ وہی ہے کہ ایٹم بم بنانے کی سزا بھٹو کو مل چکی مگر دھماکے کرنے کی سزا ابھی بھی میاں صاحب کے سر پر قرض چلی آرہی ہے پھر اب تو سی پیک کی سزا بھی ان پر واجب ہوچکی ہے۔