بیٹھے بٹھائے نئی زندگی
ہر سال کی طرح صوبائی دارالحکومت میں اس سال بھی ساون کے موسم میں بارشیں اپنا رنگ دکھانا شروع کر چکی ہیں
سب اخبارات اس ایک خبر پر متفق ہیں کہ صوبائی دارالحکومت کی ستر کچی آبادیوں کو مالکانہ حقو ق دیے جائیں گے۔ خبر میں ان آبادیوں کی تفصیل بھی درج ہے جو کچی سے پکی ہونے جا رہی ہیں ۔ خبر یہ بھی ہے کہ ان آبادیوں کا حیل و حلیہ ہی تبدیل ہو گا بلکہ ان کی جون بھی بدل جائے گی۔ لاہور میں کتنی ہی آبادیاں ہیں جو کچی ہیں لیکن متعلقہ محکمے کی ذرا سی توجہ ان کو کچے سے پکا کر سکتی ہے اور اب اس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔کچے سے پکا ہونیوالے علاقوں میں خوشی کے چراغ جل رہے ہونگے کہ کسی افسر کی مہربانی سے ان کی ذات ہی بدل گئی ہو گی۔
اپنی صحت کی وجہ سے مقامی سفر بھی مشکل ہے ورنہ میں ان آبادیوں میں جا کران کے مکینوں کو نئی زندگی کی مبارکباد پیش کرتا جو بظاہر بیٹھے بٹھائے پرانی سے نئی ہو گئی، اب ان کے حقوق بدل جائینگے اور ان کے باشندے کسی نئے لاہور کے باسی ہوں گے۔ یقیناً ان لوگوں کو وہ مراعات ملنی شروع ہو جائیں گی جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ یہاں لاہور میں کتنے ہی علاقے ہیں جو محض نام کے پسماندہ ہیں ورنہ ان کو وہ سب مراعات ملتی ہیں جو ان کے پڑوسیوں کو عملاً حاصل ہیںالبتہ بعض جگہوں پر بلکہ یوں کہیں کہ کاغذات میں حاصل نہیں ہیں ۔ سرکاری کارروائی میں ان کو سب کچھ مل رہا ہے، اس طرح وہ بھی پکی آبادیاں ہیں۔
لاہور کے باشندے جب بھی موقع ملتا ہے خود ہی کچے سے پکے ہو جاتے ہیں۔ لاہور شہر میں کچے مکان ضرور موجود ہیں لیکن ان کی حالت پکے مکانوں سے بہتر ہے، یہ شہر کا ایک ایسا شعبہ ہے جس میں جس کا جی چاہتا ہے کچے سے پکا ہو جاتا ہے ۔کہا یہ جا سکتا ہے کہ لاہور شہر اپنی تعمیر میں خود بھی مصروف رہتا ہے اور کچا پکا ہوتا رہتا ہے ۔ جس کو خدا توفیق دیتا ہے وہ اپنے گھر بیٹھے بٹھائے پکا ہو جاتا ہے ۔ شہروں کے طریقہ کار کے مطابق ہردیوار اوپر کرنا ایک ضابطے میں آتا ہے اور اس کی تعمیر یونہی نہیں ہو جاتی مگر کسی ضابطے کے تحت عمل میں آتی ہے اور جب یہ کسی قاعدے کے تحت تعمیر ہو جاتی ہے تو اس کی ایک قانونی حیثیت ہوتی ہے۔
گاؤں ہو یا شہراس کی ہر دیوار و دروازہ قانونی ہوتا ہے جسے چھیڑا نہیں جا سکتا اور جس کی حیثیت مستقل رہتی ہے اگر کوئی اسے چھیڑتا ہے تو قانونی خلاف ورزی کرتا ہے اور قانون کی خلاف ورزی کا تحفظ قانون کی کتاب میں درج ہو تا ہے ۔ یہ کتاب کسی کارپوریشن کی یا کسی بڑے سرکاری ادارے کی نہیں ہوتی بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو دیوار کھڑی کر دی جائے محفوظ رہے اور اپنے مکینوں کی حفاظت کرتی رہے۔
دیواریں اور مکان انسانوں کی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں اس لیے لازم ہے کہ ان کی حفاظت بھی کی جائے تا کہ ان کے اندر آباد لوگ یہاں محفوظ رہیں اور ان کا مال و اسباب بھی۔ اب جب کہ کچے مکانوں کو پختہ آبادیوں اور مکانوں کی حیثیت دی جا رہی ہے تو ان کو ہر حال میں پختہ رکھا جائے گا کیونکہ اس کے بغیر ان کی سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
ان مکانوں کو صحیح وسلامت رکھنے کے لیے ان کا تحفظ کیا جائے اور کسی تعمیر کو محفوظ رکھنے کے طریقے عام ہیں اور ان پر عمل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس وقت مسئلہ کچے مکانوں کی جگہ پکے مکانوں کا ہے جن کی دیکھ بھال اگر مناسب طریقے سے نہ کی جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نہایت مفید مکان بوسیدہ ہو جاتے ہیں اور ان کی مضبوط دیواریں کھوکھلی ہونا شروع ہو گئیں اور ان کی زندگی خطروں سے سے دوچار ہو گئی ۔
ہر سال کی طرح صوبائی دارالحکومت میں اس سال بھی ساون کے موسم میں بارشیں اپنا رنگ دکھانا شروع کر چکی ہیں اور حکومت کی جانب سے بوسیدہ مکانوں میں رہنے والوں کو خبردار کیا جارہا ہے کہ ان مکانوں میں رہنے سے ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں ۔ہمیشہ کی طرح حکومت کی جانب سے یہ اعلانات ہی رہتے ہیں لیکن ان کے بارے میں کوئی ٹھوس عملی اقدامات نہیں اُٹھائے جاتے جو کہ ان حادثات سے بچاؤ کی تدبیر ہوں ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان بوسیدہ مکانوں میں برسہا برس سے مقیم لوگوں کو بھی نئی آبادیاں بسا کر ان میں آباد کر دیا جائے جہاں سے ان کی اگلی نسل اپنی نئی زندگی کا آغاز کر سکے کہ بزرگ تو اپنے پرانے علاقوں کی محبت میں ہی اسیر رہتے ہیں اور اپنے آپ کو ان سے ہی جڑا رکھنا چاہتے ہیں۔
یہ بھی ایک عجیب قسم کی کیفیت ہوتی ہے کہ آپ جہاں پلے بڑھے ہوں اس جگہ سے آپ کوخاص قسم کی انسیت ہو جاتی ہے اور میرے جیسے لوگ تو محبوبہ کی زلفوں کی طرح اپنے آبائی علاقے کی محبت میں اسیر رہنے کے علاوہ ہر وقت آہیں ہی بھرتے رہتے ہیں کہ اب عمر کے اس حصے میں واپس روانگی بہت ہی مشکل ہے کہ گاؤں میں حکومتوں کی مہربانیوں سے نہ تو ڈاکٹر کی سہولت ہے اور نہ اپنی اگلی نسل کو پڑھا لکھا کر اچھا شہر ی بنانے کے لیے معیاری اسکول دستیاب ہیں۔
اس اہم مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دے دی جائے تو حکومت کو ان سب مشکلات کے حل کا طریقہ بھی معلوم ہے اوراس سے بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کا رجحان بھی کم ہو جائے جس سے ان بڑے شہروں میں پیدا ہونے والے مسائل سے نپٹنے میں آسانی کے علاوہ نت نئی سڑکوں اور پلوں کی تعمیر میں بھی کمی آجائے گی اور ان پر خرچ ہونے والا پیسہ صوبائی اضلاع میں ان بنیادی سہولتوں پر خرچ کے لیے فراہم کیا جا سکتا ہے ۔ ایسی کوششیں حکومت ہی کر سکتی ہے یہ اس کی ذمے داری بھی ہے اور عوام کی ضرورت بھی ۔
ایک بار واشنگٹن میں اکمل علیمی کے ساتھ ایک راستے سے گزتے ہوئے میں نے دیکھا کہ تعمیراتی کام ہو رہا ہے اور ایک بڑے سائز کا بینر بھی لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہے (یہاں آپ کا ٹیکس خرچ کیا جا رہا ہے)۔