اصلاح احوال
آپ کی خوشیاں منانے کا عمل کتنے لوگوں کے لیے دل آزاری اور مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے؟
ایک طرف کچی آبادیوں اور مضافاتی علاقوں میں غربت ، جہالت حقوق نسواں اور بے روزگاری کے مسائل ہیں تو دوسری طرف این جی اوز ان موضوعات پر مبنی فائیوں اسٹار ہوٹلوں میں سیمینارز اور ورکشاپ منعقد کرتی ہیں جس میں نام ور شخصیات کو مدعو کرکے فوٹو سیشن کے بعد رپورٹ مرتب کرکے آگے فراہم کی جاتی ہے ۔ اور سمجھ لیتی ہیں کہ ان کا کام ہوگیا ، واقعی ان کا کام ہوجاتا ہے یعنی فنڈز کو ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے ، جب کہ معاشرے میں غربت ، جہالت ، حقوق نسواں اور بے روزگاری کے مسائل نہ صرف اپنی جگہ موجود ہوتے ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
معاشرے کو لفاظی اور چمک دھمک کی امید کی روشنی میں بھلایا ہوا ہے جب کہ معاشرے کو لفاظی اور چمک دھمک کی نہیں اصلاح احوال کی ضرورت ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ این جی اوز فائیو اسٹار ہوٹلوں سے نکل کر کچی آبادیوں اور مضافاتی علاقوں عملی کام کریں تاکہ مثبت معاشرے کی تشکیل میں مدد مل سکے ۔
دوسری طرف سوشل میڈیا ، ٹی وی اور فلموں میں کرداروں کی تمثیل نگاری کے ذریعے تشدد ، جرائم اور فحاشی کا پہلو اجاگر ہونے سے کم عمر بچوں کی نشوونما اور شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ والدین کی بچوں پر عدم توجہی کے باعث بچوں میں اپنے مسائل خود حل کرنے کے لیے فیصلے کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے ، موبائل اور ویڈیو گیمز نے ان کے اور تعلیمی مشاغل کے مابین صحت مند رشتہ کاٹ دیا ہے، بچوں میں بھی تشدد کا رجحان عروج پر ہے، جس سے معاشرے میں شدید بگاڑ پیدا ہورہا ہے ۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ والدین بچوں کی تمام مصروفیات پرکڑی نظر رکھیں ، والدین اور اولاد کے درمیان دوستی کا رشتہ ہونا چاہیے تاکہ بچے اور نوجوان اپنے تمام مسائل بلا خوف والدین سے بیان کرسکیں ، بچوں کی اصلاح کے دروازے کھلے رکھنے چاہییں ۔ یہ بھی ہمارے معاشرے کا وطیرہ بن چکا ہے کہ کچرا گلیوں اور سڑکوں پر جلانے سے اردگرد کے ماحول میں دھویں کے بادل چھا جاتے ہیں جس کی وجہ سے آلودگی میں اضافے کے ساتھ ساتھ شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور شہری سانس ودمے کے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔لہذا سڑکوں ، گلیوں اور میدانوں میں کچرا جلانے سے گریزکیا جائے ۔
ہمارے مشرقی معاشرے میں شادی کا مسنون طریقہ نکاح ہے جو جبر سے آزاد ہے یعنی لڑکے اور لڑکی کی رضا مندی ضروری ہے۔ یہ میاں اور بیوی کے درمیان الفت اور محبت کا خوبصورت رشتہ ہے ۔
شادی خوشیاں منانے کا موقع فراہم کرتی ہے لیکن اگر کوئی بھی چیز حد سے تجاوزکرجائے تو یہ عمل مناسب نہیں ہوگا ۔ ہمارا مہذب معاشرہ ہے جو سادگی سے خوشیاں منانے کا درس دیتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود ہمارے معاشرے میں بہت سے دیگر معاملات کی طرح شادی کی رسومات میں بھی غیر ضروری رسومات ادا کی جارہی ہیں جس سے نہ صرف معاشرتی اقدار کو نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے بلکہ فضول خرچی کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث بھی بنتا جارہا ہے۔
یہ صورت حال ہمارے سوچنے اور محسوس کرنے کی بات ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ شادی کی تقریبات مناتے ہوئے یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ آیا ہم جو شادی کی رسومات ادا کر رہے ہیں کہیں وہ ہماری معاشرتی زندگی ، تہذیب اور ثقافت سے متصادم تو نہیں ؟ کہیں ہماری خوشیاں دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث تو نہیں ؟ شادی کی رسم سادگی سے انجام دی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا لیکن آج کل صورت حال بہت مشکل ہے ۔
سادگی سے شادی انجام دینے کو معیوب سمجھا جاتا ہے ۔آج کل شادی کی رسومات اس قدر طول پکڑگئی ہیں کہ مہینے پہلے ہی سے آس پڑوس میں خبر پھیل جاتی ہے کہ فلاں گھر میں فلاں کی شادی ہورہی ہے ۔ پھر مایوں ، مہندی ، بارات ، ولیمہ اس کے بعد لڑکی کا اپنے میکے جانا پھر لڑکے والوں کا دوبارہ لڑکی کو سسرال لے کر آنا اور بھی جانے کیا کیا رسومات ہیں ۔ ان تمام دنوں کی رسومات کے الگ الگ تقاضے ہیں ۔ خاندان میں ناک اونچی رکھنے یا سسرالیوں پر رعب قائم رکھنے کے لیے جہیز کی بہتات ، دودھ ، شربت پلائی ، جوتا چرائی ، راستہ رکوائی ، پتا نہیں یہ کیا رسمیں ہیں اور ہمارے معاشرے میں کہاں سے آگئی ہیں ۔ ان کا ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں جب کہ ہمیں اس کا شعور بھی ہے اور یہی المیہ ہے کہ شعور ہونے کے باوجود بھی ہم انھیں کم کرنے کے بجائے ان میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں ۔
مہندی سے لے کر ولیمے کی تقریبات تک خوشی کے نام پر رات بھر جو شور شرابہ و ہلڑ بازی ( ناچ گانا ) کیا جاتا ہے اس کی تو کوئی حد نہیں جو دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے ۔ یہ خیال بالکل نہیں رہتا کہ کوئی آرام کررہا ہوتا ہے ، کوئی عبادت میں مشغول ہوتا ہے ، کوئی بیمار ہے ، کوئی طالب علم مطالعے میں مصروف ہے ، کسی کو صبح جلدی اٹھ کر ڈیوٹی ، اسکول ،کالج یا یونیورسٹی جانا ہے ۔ بہتر ہے کہ شادی کی خوشیاں مناتے ہوئے پڑسیوں کا خیال بھی رکھا جائے ۔ اس میں کوئی حرج نہیں نہ ہی کوئی برائی ہے۔
سوچا جائے تو یہ بھی اخلاقی ، معاشرتی اور انسانی جرم کے زمرے میں آتا ہے کہ وہ وہ عمل ہر وہ فعل ہر وہ بات جو دوسروں کے لیے باعث آزار ہے ، وہ جرم ہے تو کیوں آپ اپنی خوشیوں کو جرم کی نظرکرتے ہیں ۔ کیوں اپنا وقت اور روپیہ ناحق فضول رسومات میں ضایع کرتے ہیں ۔
ان غیر ضروری رسوم کے علاوہ جو بنیادی مسائل ہیں ۔ ان پر بھی نگا ہ ڈالنا ضروری ہے سب سے گھناؤنا عمل ان غریب گھرانوں کے معاشی اور سماجی حالات کا ادراک نہ ہونا ہے ، ہمیں سوچنا چاہیے کہ غریب اور مہنگائی نے متوسط طبقے کی کمر تو پہلے سے ہی توڑ دی ہے مگر اب تو بے روزگاری اور مہنگائی نے اس طبقے کا وجود بھی معدوم کردیا ہے اب تو غربت اور امارات دو حقیقتیں آمنے سامنے کھڑی ہیں درمیان میں وہ تہذیبی لکیر ختم ہورہی ہے جو مڈل کلاس کو شہری اور معاشی اعتبار سے آسودہ طبقے اور خاندانوں کو امیر وں کی بالا دستی اور اقتصادی غلبے سے بچائے رکھتی ہے ۔
آج کل غریب جس کے گھر میں تین بیٹیاں اور چارجوان لڑکے ہیں ،ان میں ایک دو بر سرروزگار جب کہ باقی بیروزگاری کا عذاب سہہ رہے ہوں، اس گھرانے میں شادی کی فضول رسموں کے لیے اخراجات کہاں سے آئیں گے ؟ اکثر غریب گھرانے شادی کے بعد قرضوں کے انبار تلے دب جاتے ہیں ۔ اس المیے پر ہم سب کو سوچنا چاہیے ۔ ہم اگر تھوڑی سی احتیاط کرلیں تو شادی کے اخراجات کم ہوسکتے ہیں ، پھر ایسا بھی ہوگا کہ دوسروں کو آپ کی خوشیاں ناگوار نہ گزریں ، اس میں آپ کا بھی فائدہ ہے اور دوسروں کا بھی ۔ خوشی ضرور منائیں لیکن حد میں رہ کر اس قدرکہ آپ کی خوشی سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ۔
سوچیں ! آپ کی خوشیاں منانے کا عمل کتنے لوگوں کے لیے دل آزاری اور مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے؟ جو آپ اپنی خوشیوں میں دیکھ پاتے ہیں نہ سوچ پاتے ہیں ۔ حق بات یہ ہے کہ یہ تمام بیجا رسمیں ہماری تہذیب و ثقافت نہیں ہیں ، انھیں اپنا کر اپنی شناخت نہ مٹائیں بلکہ اپنے معاشرے کو ان فضول رسومات سے پاک کرنے کی کوشش کریں کہ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے ۔