معاملہ انتشار کے بغیر بھی حل ہوسکتا ہے
ایک ایسا معاملہ جس میں صرف ایک شخص کااحتساب ہو باقی سارے بڑے بڑے مگرمچھ محفوظ ا ور شاد وآباد رہیں
وزیراعظم میاں نواز شریف نے جب 2013ء میں بھاری اکثریت سے الیکشن جیتا تھا تو اُنہیں اِس بات کا وہم وگمان بھی نہ تھا کہ سابقہ دو ادوارکی نسبت اُن کا یہ دور اُن کے لیے اور بھی زیادہ کٹھن اور مشکل بنادیا جائے گا۔اُن کے بقول اِن چار سالوں میں یہ تیسرا حملہ ہے جو اُن کی آئینی و جمہوری حکومت پر کیا گیا ہے۔
پہلے 2014ء میں الیکشن میںمبینہ دھاندلی کے ایشو کو بنیاد بناکر 126دنوں پرمبنی دھرنے نے اُن کی حکومت کو زبردست خطرات سے دوچارکردیا تھا اور ایک موقعے پر تو ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت بس اب گئی کہ تب گئی، مگر اپوزیشن کی غیر مشروط حمایت کی بدولت وہ دھرنا ناکام و نامراد ٹھہرا۔ پھرگزشتہ برس نیوز لیکس کے معاملے کو ہمارے کچھ سیاسی لیڈروں کی جانب سے اتنی ہوا دی گئی کہ ایک بار پھر حکومت کے خاتمے کی خبریں آنے لگیں۔ جمہوریت کے دشمنوں کے لیے یہ موقعہ بھی انتہائی مسرت اورشادمانی کا تھا اور وہ ایک بار پھر حکومت کے جانے کی تاریخیں دینے لگے، لیکن یہ معاملہ بھی افہام و تفہیم سے طے پاگیا تو اپوزیشن کے ارمانوں پر اوس پڑنے لگی اور وہ اب پاناما معاملے کو لے کر اپنی حسرتوں کے پوراہونے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔
پاناما لیکس کا معاملہ اپریل 2016 ء میں اچانک منظر عام پر آیا اور میاں صاحب کو اقتدار سے بیدخل کرنے کے خواہش مندوں کے لیے یہ امید کی آخری کرن بن کر رہ گیا۔کچھ لوگ اِسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لیا جانے والا سوموٹو قرار دیتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ اِسے ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک فیصلہ کن گھڑی بھی گردانتے رہے۔
ایک ایسا معاملہ جس میں صرف ایک شخص کااحتساب ہو باقی سارے بڑے بڑے مگرمچھ محفوظ ا ور شاد وآباد رہیں بھلا کیسے کرپشن کے خاتمے کا بموجب بن سکتا ہے یہ ہم جیسے بہت سے ناچیز لوگوں کی سمجھ سے بالاتر تھا ۔ خیر اسے ایسا سمجھنے والے صاحب علم ودانش نے عوام کو بھی یہی باور کرایا اوراِسے ایک مقدس مشن قرار دے کر پوری طاقت و توانائی سے اپنے اِس مشن پر لگ گئے۔ابتدا میں حکومت اور اپوزیشن کے بیچ کمیشن کی تجویز پر ٹی اوآر بنانے پر خاصہ وقت صرف ہوا اور بات کسی سمجھوتے پر پہنچے بغیر ختم ہوکر رہ گئی ۔
اِسی دوران اپوزیشن کی جانب سے احتجاجی تحریک شروع کرنے اور جلسے اور ریلیوں کا اہتمام ہونے لگا، لیکن ہماری عدالت عالیہ نے گزشتہ سال اکتوبر میں اِس کیس کو ازخود سماعت کے لیے جب قبول کرلیا تو خان صاحب نے اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کا اپنا منصوبہ منسوخ کرکے عدالتِ عظمیٰ پر اپنے بھر پور اعتماد کر ڈالا۔ سپریم کورٹ نے روزانہ کی بنیاد پر باقاعدہ سماعت شروع کی اور چھ ماہ بعد فیصلہ آیا۔مذکورہ فیصلے کے تحت کیس کی مزید تحقیقات اور انکوائری کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنادی گئی جسے جے آئی ٹی کانام دیاگیا۔ اور اب اِس جے آئی ٹی نے بھی اپنی تحقیقات مکمل کرکے ایک تفصیلی رپورٹ سپریم کورٹ کے حوالے کردی ہے۔اِس کے بعد یہ معاملہ ایک بار پھر عدالت عالیہ کے پاس آ پہنچا ہے اور وہی اِس کیس کا حتمی فیصلہ سنانے کی مجاز ہے، مگر ہمارے وہ لوگ جو گذشتہ چار سالوں سے میاں صاحب کو اپنے منصب سے بیدخل کرنا چاہتے تھے ۔
اُن کے صبر کا پیمانہ لگتا ہے اب لبریز ہوچکا ہے ، انتہائی اضطراب اور بے چینی کی حالت میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل ہی میاں نواز شریف کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں حسب عادت اور حسب توقع وزیرِ اعظم کے استعفے کا مطالبہ کرنے لگے، جب کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہJITکی رپورٹ حتمی نہیں ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ کو ابھی اُس رپورٹ کابغور جائزہ لینا ہے اور پھر فریقین کی جانب سے اُس پر دلائل بھی سننے ہیں۔اتنی آسان اور سہل بات یا تواُن کی سمجھ میں نہیں آرہی یا پھر وہ اِس سے دانستہ وغیر دانستہ نظریں چرا رہے ہیں۔میاں صاحب کا اپنے منصب سے ہٹنے یا نا ہٹنے کا مرحلہ تو اُس وقت آئے گا جب عدالتِ عظمیٰ اِس سلسلے میں اپنا کوئی فیصلہ صادر کرتی ہے۔
میاں صاحب یہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جب عدالت اُنہیں گھر جانے کا کہے گی وہ ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کریں گے۔ ویسے بھی اب ممکن ہی نہیں رہا کہ میاں صاحب عدالت کے فیصلے سے انکار کر پائیں۔ یہ بات خود حکومت کے اکابرین بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ فیصلہ وزیرِ اعظم کے خلاف آنے کی صورت میں اُس سے انحراف کسی طور ممکن ہی نہ ہوگا۔اِس لیے اپوزیشن کوکسی انتشار یا ہنگامہ آرائی کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت پر فریقین نے اعتماد کااظہارکیا ہے ۔ فیصلہ کسی کے حق میں آئے یاکسی کے خلاف دونوں صورتوں میں ملک کا امن و امان برقرار رکھنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ پر تنقید اور اعتراضات کرنا متعلقہ فریقوں کا آئینی حق ہے۔ اِس رپورٹ کو بنانے والے کوئی اعلیٰ عدلیہ کے ججز نہیں تھے کہ اُن پر تنقید نہیں کی جاسکتی ۔ وہ عام آفیسرز تھے۔اُن کا نکتہ نظر جانبدارانہ اور غیر منصفانہ بھی ہوسکتا ہے۔ اُن سے کچھ غلطیاں اورکوتاہیاں بھی سرزد ہوسکتی ہیں۔اُنہوں نے جو شواہد اور دستایزات حاصل کی ہیں اُن میں کچھ خرابیاں اور خامیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ پھر اُنہیں اِس مشکل اور پیچیدہ کام کے لیے جو عرصہ مدت تفویض کیاگیا تھا وہ اتنا مختصر تھا کہ باوجود رات دن جانفشانی سے کام کرنے کے وہ شاید تمام کا تمام پورا نہیں کرپائے ہوں۔اِس لیے اُن کی پیش کردہ رپورٹ پر اعتراض کرنا کسی بھی لحاظ سے توہین عدالت کے زمرے میں نہیں گردانہ جاسکتا۔
اِس رپورٹ کوہماری عدلیہ کی جانب سے عوام کے لیے جاری بھی اِسی لیے کیا گیا ہے کہ ہر کوئی اِس کو پڑھ بھی سکتا ہے اور اِس کی خامیوں اورغلطیوں کی نشاندہی بھی کرسکتا ہے۔اب یہ معاملہ ایک بار پھر ہماری اعلیٰ عدلیہ کے پاس پہنچ گیا ہے۔ اُسے قانون اور آئین کے مطابق اِس رپورٹ پر کوئی فیصلہ کرنا ہے۔ اِس بات پر نہیں کہ کسی کا رہن سہن یا اسٹائل اُس کی آمدن کے مطابق نہیں ہے ۔اگر اِس بات کو لے کر ہمیں کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنی ہے تو پھر اِس پاکستان میں ہمیں اور بھی ایسے کئی بڑے بڑے رہنما اور لوگ ملیں گے جن کا رہن سہن اُن کی آمدن کے مطابق ہرگز نہیں ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کو ایک ایسا فیصلہ کرنا ہے جو صرف پاپولر ہی نہ ہو بلکہ آئین و دستور کے مطابق ایک شفاف اور منصفانہ تاریخی فیصلہ ہو۔جو قطع نظر اِس کے کہ اِس کے مضمرات اور اثرات کسی کے لیے خواہ کتنے ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہوںوہ انصاف کے تمام اصولوں اور تقاضوں کو پورا کرتا ہوا دکھائی دے۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ ہی ایک حتمی فیصلہ ہے اور سپریم کورٹ اسی پر مہر تصدیق ثبت کردے گی وہ شاید قانون کی پیچیدگیوں سے ناواقف ہیں یا پھر اتنے بھولے اورمعصوم ہیں کہ اُنہیں عام سول سرونٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے ججزکا فرق ہی نہیں معلوم۔ اُنہیں شاید یہ نہیں پتا کہ عدلیہ چاہے تو جے آئی ٹی کے ساری کی ساری رپورٹ کو غیر تسلی بخش اور ناکافی قرار دے کر رد بھی کرسکتی ہے۔
ہمیں اپنی عدلیہ پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے اُس کے حتمی فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔ فیصلہ اگر میاں صاحب کے خلاف بھی آئے تو فراخدلی اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُسے قبول کرلیناچاہیے، اگر اُنہیں اِس کے پیچھے کسی نظریہ ضرورت کاگمان بھی ہو رہا ہو تو وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے فی الحال اُسے اپنے سینے میں چھپے باقی رازوں کے ساتھ دفن کردینا چاہیے ۔